Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
17. بَابُ : مَنْ بَنَى فِي حَقِّهِ مَا يَضُرُّ بِجَارِهِ
باب: جس نے اپنی جگہ میں کوئی ایسی عمارت بنائی جس سے پڑوسی کو نقصان ہے تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2341
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ ً۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6016، ومصباح الزجاجة: 822)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/313) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں جابر جعفی ضعیف روای ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
جابر الجعفي: ضعيف رافضي
وانظر الحديث السابق (2340)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2341 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2341  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے مثلاً:
الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد کے محققین نے طویل بحث کے بعد اسے حسن قرار دیا ہے نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحة اور الإرواء میں اسے صحیح قرار دیا ہے دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ سنداً ضعیف ہے اور معناً صحیح ہے لہٰذا مجموعی طور پر یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود متناً و معناً صحیح ہے جیسا کہ محققین کی جماعت نے کہا ہے۔
تفصیل کے لیےدیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 5/ 55، والصحيحة رقم: 250 والإرواء رقم: 896 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 2340)

(2)
  کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو تنگ کرے یا تکلیف پہنچائے اس لیے باہمی معاملات انصاف اور حسن اخلاق کی بنیاد پر انجام دینے چاہییں۔

(3)
  اگر کوئی شخص نقصان پہنچانے کی کوشش کرے یا تنگ کرے تو اس کے مقابلے میں اسے تنگ کرنا یا نقصان پہنچانا درست نہیں بلکہ بزرگوں کے ذریعے سے پنچایت کے ذریعے سے یا شرعی عدالت کے ذریعے سے اس سے اپنا جائز حق وصول کرنا یا اسے اس کی شرارت سے روکنا چاہیے۔

(4)
  عمارت اس انداز سے بنانا درست نہیں جس سے ہمسایوں کو تکلیف ہو مثلاً:
اس قدر بلند عمارت بنانا جس سے ہمسایوں کے گھر میں نظر پڑتی ہو یا اس انداز سے تعمیر کرنا کہ راستہ رک جائے یا اتنا تنگ ہو جائے کہ گزرنے والوں کو مشکل ہوتی ہو۔
یہ سب منع ہے۔

(5)
  بہت سے ایسے مسائل جو نبی اکرم ﷺ کے بعد ظاہر ہوئے ان کو اس اصول کی روشنی میں حل کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک کام سے انفرادی یا اجتماعی نقصان ہوتا ہو یا عوام کو تکلیف پہنچتی ہو تو اس سے اجتناب کرنا ضرور ی ہے نیز حکومت ان کاموں پر پابندی بھی لگا سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2341   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 779  
´بے آباد و بنجر زمین کو آباد کرنے کا بیان`
انہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کو ایسا ضرر پہنچانا کہ اس کے حق میں کمی واقع ہو جائے اور پہنچائی گئی اذیت و ضرر سے زیادہ ضرر و نقصان پہنچانا جائز نہیں۔ اسے احمد، ابن ماجہ نے روایت کیا اور ابن ماجہ میں ابوسعید سے اسی طرح کی حدیث منقول ہے اور وہی حدیث موطا میں مرسل ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 779»
تخریج:
«أخرجه ابن ماجه، الأحكام، باب من بني في حقه ما يضر بجاره، حديث:2341، وأحمد:5 /327، وحديث أبي سعيد أخرجه الحاكم:2 /58، والبيهقي:6 /69، 70، ومرسل يحي المازني أخرجه مالك:2 /745.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے‘ مثلاً: مسند احمد کے محققین نے تفصیلی بحث کے بعد اسے حسن قرار دیا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ اور الإرواء میں صحیح قرار دیا ہے‘ نیز دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف اور متناً صحیح ہے‘ لہٰذا یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود مجموعی طور پر دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے متنا ً و معنًا صحیح ہے جیسا کہ محققین کی جماعت نے کہا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۵ /۵۵‘ ۵۶‘ والصحیحۃ‘ رقم:۲۵۰‘ والإرواء‘ رقم:۸۹۶‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد‘ رقم:۲۳۴۰) 2. ا س حدیث میں ایک زریں اصول بیان ہوا ہے۔
وہ یہ کہ نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ اور نہ ضرر کا خود شکار بنو۔
گویا کسی کو بلاوجہ ضرر و اذیت میں مبتلا کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔
جب کسی کو خود تکلیف دے گا تو ظاہر ہے مخالف بھی اسے اذیت دینے کی کوشش کرے گا تو اس نے گویا ازخود اپنے آپ کو اذیت اور ضرر رسانی کا نشانہ و ہدف بنایا۔
3. یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حدود الٰہیہ کا نفاذ و اجر ا اس حدیث کے ضمن میں نہیں آتا‘ اس لیے کہ وہ امر الٰہی کی تعمیل ہے نہ کہ اپنے وہم و گمان کی پیروی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 779