It was narrated from Dawud bin Salih Al Madani that his father said:
I heard Abu Sa'eed Al-Khudri say: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Transactions may only be done by mutual consent."'
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، ومحمد بن الصباح ، قالا: حدثنا هشيم ، انبانا ابن ابي ليلى ، عن القاسم بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، ان عبد الله بن مسعود باع من الاشعث بن قيس رقيقا من رقيق الإمارة، فاختلفا في الثمن، فقال ابن مسعود: بعتك بعشرين الفا، وقال الاشعث بن قيس: إنما اشتريت منك بعشرة آلاف، فقال عبد الله : إن شئت حدثتك بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" هاته"، قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة والبيع قائم بعينه، فالقول: ما قال البائع او يترادان البيع، قال: فإني ارى، ان ارد البيع فرده". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنَ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ بَاعَ مِنَ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ رَقِيقًا مِنْ رَقِيقِ الْإِمَارَةِ، فَاخْتَلَفَا فِي الثَّمَنِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: بِعْتُكَ بِعِشْرِينَ أَلْفًا، وَقَالَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ: إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ بِعَشْرَةِ آلَافٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" هَاتِهِ"، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ وَالْبَيْعُ قَائِمٌ بِعَيْنِهِ، فَالْقَوْلُ: مَا قَالَ الْبَائِعُ أَوْ يَتَرَادَّانِ الْبَيْعَ، قَالَ: فَإِنِّي أَرَى، أَنْ أَرُدَّ الْبَيْعَ فَرَدَّهُ".
عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ حکومت کے غلاموں میں سے ایک غلام بیچا، پھر دونوں میں قیمت کے بارے میں اختلاف ہو گیا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ میں نے آپ سے اسے بیس ہزار میں بیچا ہے، اور اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسے دس ہزار میں خریدا ہے، اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر چاہیں تو میں ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، اشعث رضی اللہ عنہ نے کہا: بیان کریں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جب بیچنے والے اور خریدنے والے اختلاف کریں اور ان میں کسی کے پاس گواہ نہ ہوں، اور بیچی ہوئی چیز بعینہٖ موجود ہو تو بیچنے والے ہی کی بات معتبر ہو گی، یا دونوں بیع فسخ کر دیں“، انہوں نے کہا: میں مناسب یہی سمجھتا ہوں کہ بیع فسخ کر دوں، چنانچہ انہوں نے بیع فسخ کر دی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 74 (3512)، (تحفة الأشراف: 9358)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 43 (1270)، سنن النسائی/البیوع 80 (4652)، مسند احمد (1/466) (صحیح) (نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1322 و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 789)»
It was narrated from Qasim bin 'Abdur Rahman from his father that :
Abdullah bin Mas'ud sold one of the slaves from the state[1] to Ash'ath bin Qais, and they differed concerning the price. Ibn Mas'ud said: "I sold him to you for twenty thousand,' but Ash'ath bin Qais said: "I bought him from you for ten thousand." 'Abdullah said: "If you want, I will tell you a Hadith which I heard from the Messenger of Allah (ﷺ)" He said: "Tell me it." He said: "I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'If two parties to a transaction differ, and they have no proof, and the sale item remains (unredeemed), then what the seller says is valid. Or they may cancel the transaction." He said: "I want to cancel the transaction." And he cancelled it.
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک آدمی مجھ سے ایک چیز خریدنا چاہتا ہے، اور وہ میرے پاس نہیں ہے، کیا میں اس کو بیچ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو نہ بیچو“۔
It was narrated that Hakim bin Hizam said:
"I said: 'O Messenger of Allah, a man is asking me to sell him something that I do not possess; Shall I sell it to him?' He said: 'Do not sell what is not with you."'
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا بیچنا جائز نہیں، اور نہ اس چیز کا نفع جائز ہے جس کے تم ضامن نہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر وہ چیز برباد ہو جائے تو تمہارا کچھ نقصان نہ ہو، ایسی چیز کا نفع اٹھانا بھی جائز نہیں، یہ شرع کا ایک عام مسئلہ ہے کہ نفع ہمیشہ ضمانت کے ساتھ ملتا ہے، جو شخص کسی چیز کا ضامن ہو وہی اس کے نفع کا مستحق ہے، اور اس کی مثال یہ ہے کہ ابھی خریدار نے بیع پر قبضہ نہیں کیا اور وہ چیز خریدنے والے کی ضمانت میں داخل نہیں ہوئی، اب خریدنے والا اگر اس کو قبضے سے پہلے کسی اور کے ہاتھ بیچ ڈالے اور نفع کمائے، تو بیع جائز اور صحیح نہیں ہے۔
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, that his grandfather said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'It is not permissible to sell something that is not with you, nor to profit from what you do not possess."'
عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکہ بھیجا، تو اس چیز کے نفع سے منع کیا جس کے وہ ضامن نہ ہوں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9749) (صحیح)» (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، اور عطاء کی ملاقات عتاب رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1212)
It was narrated from 'Ata that 'Attab bin Asid said that :
when the Messenger of Allah (ﷺ) sent him to Makkah, he forbade him from profiting off of what he did not possess.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الحديث ضعفه البوصيري وقال: ”وعطاء ھو ابن أبي رباح لم يدرك عتابًا“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ یا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ایک چیز دو آدمیوں کے ہاتھ بیچی، تو جس کے ہاتھ پہلے بیچی اس کو وہ چیز ملے گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 22 (2088)، سنن الترمذی/النکاح 20 (1110)، سنن النسائی/البیوع 94 (4686)، (تحفة الأشراف: 4582، 9918)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/8، 11، 12، 18، 22)، سنن الدارمی/النکاح 15 (2239) (ضعیف)» (سند میں حسن بصری ہیں، جن کا سماع سمرة رضی اللہ عنہ سے صرف عقیقہ کی حدیث کا ہے، دوسری احادیث کا نہیں)
It was narrated from 'Uqbah bin 'Amir or Samurah bin Jundab that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
"Any man who sells to two men, it is for the one who was first."[1]
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو اختیار رکھنے والے ایک چیز کی بیع کریں تو جس نے پہلے بیع کی، اس کا اعتبار ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 4582، 9918) (ضعیف)» (سند میں حسن بصری ہیں جن کا سماع سمرة رضی اللہ عنہ سے صرف عقیقہ کی حدیث کا ہے، دوسری احادیث کا نہیں)
It was narrated from Samurah that the Messenger of Allah (ﷺ), said:
"If two (separate) authorized persons make a sale (of the same thing), then the first transaction is the one that is valid. "
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعانہ (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 69 (3502)، (تحفة الأشراف: 8820)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 1 (1)، مسند احمد (2/183) (ضعیف)» (یہ بلاغات مالک میں سے ہے، عمرو بن شعیب سے روایت میں واسطہ کا ذکر نہیں ہے، اس لئے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے)
(مرفوع) حدثنا الفضل بن يعقوب الرخامي ، حدثنا حبيب بن ابي حبيب ابو محمد كاتب مالك بن انس، حدثنا عبد الله بن عامر الاسلمي ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع العربان"، قال ابو عبد الله العربان: ان يشتري الرجل دابة بمائة دينار، فيعطيه دينارين عربونا، فيقول: إن لم اشتر الدابة فالديناران لك، وقيل: يعني والله اعلم، ان يشتري الرجل الشيء فيدفع إلى البائع درهما، او اقل، او اكثر، ويقول: إن اخذته وإلا، فالدرهم لك. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ الرُّخَامِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ كَاتِبُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ الْأَسْلَمِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ الْعُرْبَانُ: أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ دَابَّةً بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَيُعْطِيَهُ دِينَارَيْنِ عُرْبُونًا، فَيَقُولُ: إِنْ لَمْ أَشْتَرِ الدَّابَّةَ فَالدِّينَارَانِ لَكَ، وَقِيلَ: يَعْنِي وَاللَّهُ أَعْلَمُ، أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الشَّيْءَ فَيَدْفَعَ إِلَى الْبَائِعِ دِرْهَمًا، أَوْ أَقَلَّ، أَوْ أَكْثَرَ، وَيَقُولَ: إِنْ أَخَذْتُهُ وَإِلَّا، فَالدِّرْهَمُ لَكَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبداللہ (ابن ماجہ) کہتے ہیں کہ عربان: یہ ہے کہ آدمی ایک جانور سو دینار میں خریدے، اور بیچنے والے کو اس میں سے دو دینار بطور بیعانہ دیدے، اور کہے: اگر میں نے جانور نہیں لیا تو یہ دونوں دینار تمہارے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے واللہ اعلم: (عربان یہ ہے کہ) آدمی ایک چیز خریدے پھر بیچنے والے کو ایک درہم یا زیادہ یا کم دے، اور کہے اگر میں نے یہ چیز لے لی تو بہتر، ورنہ یہ درہم تمہارا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8727)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 1 (1) مسند احمد (2/ 183) (ضعیف)» (سند میں حبیب کاتب مالک اور عبد اللہ أسلمی دونوں ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: بیع عربون: یعنی بیع کے وقت خریدار کی طرف سے بیچنے والے کو دی جانے والی ایک مخصوص رقم جس سے بیچنے والا اپنے سامان کو خریدنے والے سے بیچنے کے بدلے لیتا ہے، اور اسے عرف عام میں بیعانہ کہتے ہیں، اس سے متعلق اس باب کی حدیث ضعیف ہے، علماء کے درمیان بیعانہ کی یہ شکل کہ اگر خریدار نے سامان نہیں خریدا تو بیعانہ کی دی ہوئی رقم بیچنے والے کی ہو جائے گی جس کو وہ خریدنے والے کو واپس نہیں کرے گا، مالک، شافعی اور ابوحنیفہ کے یہاں یہ ناجائز ہے، امام احمد اس بیع کی صحت کے قائل ہیں، ان کی دلیل عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث ضعیف ہے، اور متفقہ طور پر صحیح قیاس کی دلیل کے اعتبار سے بھی یہ صحیح ہے کہ اگر خریدار سامان کو ناپسند کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ سامان کو واپس کر دے اور اس کے ساتھ کچھ دے دے، اس صورت پر قیاس کرتے ہوئے بیعانہ نہ واپس کرنے کی یہ صورت صحیح ہو گی، امام احمد کہتے ہیں کہ یہ بیعانہ اسی کے ہم معنی ہے۔ یہ واضح رہے کہ بیعانہ کی رقم بیچنے والے کو بلاعوض نہیں مل رہی ہے، اس لیے کہ یہاں پر فروخت شدہ چیز کے انتظار کے عوض میں یہ رقم رکھی گئی ہے، اور یہ سامان خریدار کے خریدنے تک ایسے ہی پڑا رہے گا، اور اس مدت میں دوسرے شخص سے بیع و فروخت کی بات نہ ہو سکے گی، مجمع الفقہ الإسلامی، مکہ مکرمہ نے محرم (۱۴۱۴) ہجری میں اس بیع کی بابت یہ قرارداد صادر کی ہے کہ اگر خریدنے والے نے بیچنے والے سے سامان نہیں خریدا تو بیعانہ کی رقم کا مالک بیچنے والا ہو جائے گا، مجلس نے اس بیع کے جواز کی بات اس صورت میں کہی ہے کہ انتظار کا زمانہ مقرر ہو، اور یہ کہ بیعانہ کی رقم بیع کے نافذ ہونے کی صورت میں قیمت کا ایک حصہ شمار ہو گی، اور اگر خریدنے والا سامان نہ خریدے تو یہ رقم بیچنے والے کا حق ہو گی۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام، ۴/۲۹۳)
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, from his grandfather that :
the Prophet (ﷺ) forbade the deal involving earnest money. (Hasan)Abu 'Abdullah said: Earnest money refers to when a man buys an animal for one hundred Dinar, then he gives the seller two Dinar in advance and says: "If I do not buy the animal, then the two Dinar are yours." And it was said that it refers, and Allah knows best, to when a man buys something, and gives the seller a Dirham or less or more, and says: "If I take it (all well and good), and if I do not, then the Dirham is yours."
وضاحت: ۱؎: بیع غرر: معدوم و مجہول چیز کی بیع ہے یا ایسی چیز کی بیع ہے جسے خریدنے والے کے حوالہ کرنے پر بیچنے والے کو قدرت نہ ہو، جیسے بھاگے ہوئے غلام کی بیع، فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع، یا مچھلی کی بیع جو پانی میں ہو، اور دودھ کی بیع جو جانور کے تھن میں ہو وغیرہ وغیرہ۔ بیع حصاۃ کی تین صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بیچنے والا یہ کہے کہ میں یہ کنکری پھینکتا ہوں جس چیز پر یہ گرے اسے میں نے تمہارے ہاتھ بیچ دیا، یا جہاں تک یہ کنکری جائے اتنی دور کا سامان میں نے بیچ دیا، دوسرے یہ کہ بیچنے والا یہ شرط لگائے کہ جب تک میں کنکری پھینکوں تجھے اختیار ہے اس کے بعد اختیار نہ ہو گا، تیسرے یہ کہ خود کنکری پھینکنا ہی بیع قرار پائے مثلاً یوں کہے کہ جب میں اس کپڑے پر کنکری ماروں تو یہ اتنے میں بک جائے گا۔