(مرفوع) حدثنا الفضل بن يعقوب الرخامي ، حدثنا حبيب بن ابي حبيب ابو محمد كاتب مالك بن انس، حدثنا عبد الله بن عامر الاسلمي ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع العربان"، قال ابو عبد الله العربان: ان يشتري الرجل دابة بمائة دينار، فيعطيه دينارين عربونا، فيقول: إن لم اشتر الدابة فالديناران لك، وقيل: يعني والله اعلم، ان يشتري الرجل الشيء فيدفع إلى البائع درهما، او اقل، او اكثر، ويقول: إن اخذته وإلا، فالدرهم لك. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ الرُّخَامِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ كَاتِبُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ الْأَسْلَمِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ الْعُرْبَانُ: أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ دَابَّةً بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَيُعْطِيَهُ دِينَارَيْنِ عُرْبُونًا، فَيَقُولُ: إِنْ لَمْ أَشْتَرِ الدَّابَّةَ فَالدِّينَارَانِ لَكَ، وَقِيلَ: يَعْنِي وَاللَّهُ أَعْلَمُ، أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الشَّيْءَ فَيَدْفَعَ إِلَى الْبَائِعِ دِرْهَمًا، أَوْ أَقَلَّ، أَوْ أَكْثَرَ، وَيَقُولَ: إِنْ أَخَذْتُهُ وَإِلَّا، فَالدِّرْهَمُ لَكَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبداللہ (ابن ماجہ) کہتے ہیں کہ عربان: یہ ہے کہ آدمی ایک جانور سو دینار میں خریدے، اور بیچنے والے کو اس میں سے دو دینار بطور بیعانہ دیدے، اور کہے: اگر میں نے جانور نہیں لیا تو یہ دونوں دینار تمہارے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے واللہ اعلم: (عربان یہ ہے کہ) آدمی ایک چیز خریدے پھر بیچنے والے کو ایک درہم یا زیادہ یا کم دے، اور کہے اگر میں نے یہ چیز لے لی تو بہتر، ورنہ یہ درہم تمہارا ہے۔
وضاحت: ۱؎: بیع عربون: یعنی بیع کے وقت خریدار کی طرف سے بیچنے والے کو دی جانے والی ایک مخصوص رقم جس سے بیچنے والا اپنے سامان کو خریدنے والے سے بیچنے کے بدلے لیتا ہے، اور اسے عرف عام میں بیعانہ کہتے ہیں، اس سے متعلق اس باب کی حدیث ضعیف ہے، علماء کے درمیان بیعانہ کی یہ شکل کہ اگر خریدار نے سامان نہیں خریدا تو بیعانہ کی دی ہوئی رقم بیچنے والے کی ہو جائے گی جس کو وہ خریدنے والے کو واپس نہیں کرے گا، مالک، شافعی اور ابوحنیفہ کے یہاں یہ ناجائز ہے، امام احمد اس بیع کی صحت کے قائل ہیں، ان کی دلیل عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث ضعیف ہے، اور متفقہ طور پر صحیح قیاس کی دلیل کے اعتبار سے بھی یہ صحیح ہے کہ اگر خریدار سامان کو ناپسند کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ سامان کو واپس کر دے اور اس کے ساتھ کچھ دے دے، اس صورت پر قیاس کرتے ہوئے بیعانہ نہ واپس کرنے کی یہ صورت صحیح ہو گی، امام احمد کہتے ہیں کہ یہ بیعانہ اسی کے ہم معنی ہے۔ یہ واضح رہے کہ بیعانہ کی رقم بیچنے والے کو بلاعوض نہیں مل رہی ہے، اس لیے کہ یہاں پر فروخت شدہ چیز کے انتظار کے عوض میں یہ رقم رکھی گئی ہے، اور یہ سامان خریدار کے خریدنے تک ایسے ہی پڑا رہے گا، اور اس مدت میں دوسرے شخص سے بیع و فروخت کی بات نہ ہو سکے گی، مجمع الفقہ الإسلامی، مکہ مکرمہ نے محرم (۱۴۱۴) ہجری میں اس بیع کی بابت یہ قرارداد صادر کی ہے کہ اگر خریدنے والے نے بیچنے والے سے سامان نہیں خریدا تو بیعانہ کی رقم کا مالک بیچنے والا ہو جائے گا، مجلس نے اس بیع کے جواز کی بات اس صورت میں کہی ہے کہ انتظار کا زمانہ مقرر ہو، اور یہ کہ بیعانہ کی رقم بیع کے نافذ ہونے کی صورت میں قیمت کا ایک حصہ شمار ہو گی، اور اگر خریدنے والا سامان نہ خریدے تو یہ رقم بیچنے والے کا حق ہو گی۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام، ۴/۲۹۳)
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8727)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 1 (1) مسند احمد (2/ 183) (ضعیف)» (سند میں حبیب کاتب مالک اور عبد اللہ أسلمی دونوں ضعیف راوی ہیں)
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, from his grandfather that :
the Prophet (ﷺ) forbade the deal involving earnest money. (Hasan)Abu 'Abdullah said: Earnest money refers to when a man buys an animal for one hundred Dinar, then he gives the seller two Dinar in advance and says: "If I do not buy the animal, then the two Dinar are yours." And it was said that it refers, and Allah knows best, to when a man buys something, and gives the seller a Dirham or less or more, and says: "If I take it (all well and good), and if I do not, then the Dirham is yours."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2193
اردو حاشہ: فائدہ: امیر صنعانی رحمہ اللہ سب السلام شرح بلوغ المرام میں اس بیع کی بابت یوں لکھتے ہیں: ”اس بیع کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے منع کی حدیث کی وجہ سے اسے باطل قرار دیا ہے، اور اس وجہ سے بھی (باطل قرار دیا ہے) کہ اس میں ناجائز شرط اور دھوکا ہے۔ اور یہ کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھانے میں شامل ہے۔“ یہ رائے صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ بیع فسخ ہونے کی صورت میں بیچنے والا جو رقم وصول کرتا ہے، اس کے عوض وہ خریدار کو کوئی مال یا فائدہ مہیا نہیں کرتا۔ اور بغیر معاوضے کے کسی کا مال لے لینا جائز نہیں، علاوہ ازیں بیع واپس کر لینا ثواب ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 2199) اور بیعانہ کی شرط اس لیے لگائی جاتی ہے کہ خریدار خریدی ہوئی چیز واپس نہ کردے، یہ نیکی سے پہلو تہی ہے جسے مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2193
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 668
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام` سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ ہی نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا۔ اسے مالک نے روایت کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے عمرو بن شعیب سے یہ روایت پہنچی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 668»
تخریج: «أخرجه مالك في الموطأ:2 /609، وانظر سنن ابن ماجه، التجارات، حديث:2192 بتحقيقي، وللحديث شواهد.»
تشریح: امیر صنعانی رحمہ اللہ بیع عربان کی بابت بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں یوں لکھتے ہیں: ”اس بیع کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے منع کی حدیث کی وجہ سے اسے باطل قرار دیا ہے اور اس وجہ سے بھی باطل قرار دیا ہے کہ اس میں ناجائز شرط اور دھوکا ہے اور یہ کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھانے میں شامل ہے۔ “ ہمیں یہی رائے صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ بیع فسخ ہونے کی صورت میں بیچنے والا جو رقم وصول کرتا ہے‘ اس کے عوض وہ خریدار کو کوئی مال یا فائدہ مہیا نہیں کرتا‘ اور بغیر معاوضے کے کسی کا مال لے لینا جائز نہیں‘ نیز بیعانہ کی یہ شرط اس لیے لگائی جاتی ہے کہ خریدار خریدی ہوئی چیز واپس نہ کر دے‘ یہ نیکی سے پہلو تہی ہے جسے مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا‘ جبکہ احادیث میں خریدی ہوئی چیز کے واپس لینے کی فضیلت ثابت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کی بیع واپس کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔ “(سنن أبي داود‘ البیوع‘ باب في فضل الإقالۃ‘ حدیث:۳۴۶۰) اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ اور مسند احمد کے محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل‘ رقم:۱۳۳۴‘ والصحیحۃ‘ رقم:۲۶۱۴‘ والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۲ /۴۰۱‘ ۴۰۲)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 668