سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
Chapters: Regarding Funerals
حدیث نمبر: 1622
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا مصعب بن المقدام ، حدثنا سفيان ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن مسروق ، قال: قالت عائشة :" ما رايت احدا اشد عليه الوجع من رسول الله صلى الله عليه وسلم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ :" مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ عَلَيْهِ الْوَجَعُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کسی پر مرض الموت کی تکلیف اتنی سخت نہیں دیکھی جتنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دیکھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المرضی 2 (5646)، صحیح مسلم/البروالصلة 14 (2570)، (تحفة الأشراف: 17609)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزہد 56 (2397)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/181) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ سکرات کی شدت اور موت کی سختی بری چیز نہیں ہے، بلکہ اس سے درجے بلند ہوتے ہیں۔

‘Aishah said: “I never saw anyone suffer more pain than the Messenger of Allah (ﷺ).”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
حدیث نمبر: 1623
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا ليث بن سعد ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن موسى بن سرجس ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة ، قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يموت وعنده قدح فيه ماء، فيدخل يده في القدح، ثم يمسح وجهه بالماء، ثم يقول:" اللهم اعني على سكرات الموت".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَرْجِسَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَمُوتُ وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَاءٌ، فَيُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ، ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ بِالْمَاءِ، ثُمَّ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى سَكَرَاتِ الْمَوْتِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کے وقت دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا ایک پیالہ تھا، آپ اپنا ہاتھ پیالہ میں داخل کرتے، اور پانی اپنے منہ پر ملتے، پھر فرماتے: اے اللہ! موت کی سختیوں میں میری مدد فرما۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الجنائز 8 (978)، (تحفة الأشراف: 17556)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/64، 70، 77، 151) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں موسی بن سرجس مستور ہیں)

It was narrated that ‘Aishah said: “I saw the Messenger of Allah (ﷺ) when he was dying, and there was a bowl of water next to him. He put his hand in the vessel and wiped his face with the water, and said: ‘O Allah, help me to bear the agonies of death.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1624
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، سمع انس بن مالك ، يقول:" آخر نظرة نظرتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كشف الستارة يوم الاثنين، فنظرت إلى وجهه، كانه ورقة مصحف، والناس خلف ابي بكر في الصلاة، فاراد ان يتحرك فاشار إليه ان اثبت، والقى السجف، ومات من آخر ذلك اليوم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ:" آخِرُ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَشْفُ السِّتَارَةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، فَنَظَرْتُ إِلَى وَجْهِهِ، كَأَنَّهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ، وَالنَّاسُ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، فَأَرَادَ أَنْ يَتَحَرَّكَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنِ اثْبُتْ، وَأَلْقَى السِّجْفَ، وَمَاتَ مِنْ آخِرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری دیدار مجھے دوشنبہ کے دن ہوا، آپ نے (اپنے حجرہ کا) پردہ اٹھایا، میں نے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا، تو گویا مصحف کا ایک ورق تھا، لوگ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی جگہ سے ہٹنے کا ارادہ کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، اور پردہ گرا دیا، پھر اسی دن کی شام کو آپ کا انتقال ہو گیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 21 (419)، سنن الترمذی/الشمائل 53 (385)، سنن النسائی/الجنائز 7 (1832)، (تحفة الأشراف: 1487)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/110، 163، 196، 197) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ہر چند نماز میں التفات کرنا (یعنی ادھر اُدھر دیکھنا) منع ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ نماز کی حالت میں بے اختیاری کی وجہ سے آپ کے دیدار میں محو ہو گئے، دوسری روایت میں یوں ہے کہ قریب تھا کہ ہم فتنہ میں پڑ جائیں، یعنی نماز بھول جائیں آپ کے دیدار کی خوشی میں، سبحان اللہ۔ ایمان صحابہ ہی کا ایمان تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ایسے غرق تھے جیسے حدیث شریف میں وارد ہے کہ کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک نبی کریم ﷺ کی محبت ماں باپ اور تمام اعزہ و اقارب سے زیادہ نہ ہو، افسوس اس زمانہ میں ایسے کامل الایمان لوگ کہاں ہیں؟ اب تو دنیا کے حقیر فائدہ کے لئے اور ادنی ادنی امیروں اور نوابوں کو خوش کرنے کے لئے سنت نبوی سے اعراض اور تغافل کرتے ہیں۔

It was narrated that Zuhri heard Anas bin Malik say: “The last glance that I had of the Messenger of Allah (ﷺ) was when he drew back the curtain on Monday, and I saw his face as if it was a page of the Mushaf (Qur’an), and the people were praying behind Abu Bakr. He (Abu Bakr) wanted to move, but he (the Prophet (ﷺ)) gestured to him to stand firm. Then he let the curtain fall, and he died at the end of that day.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
حدیث نمبر: 1625
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن صالح ابي الخليل ، عن سفينة ، عن ام سلمة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في مرضه الذي توفي فيه:" الصلاة وما ملكت ايمانكم" فما زال يقولها حتى ما يفيض بها لسانه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ سَفِينَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ:" الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ" فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى مَا يَفِيضَ بِهَا لِسَانُهُ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس مرض میں کہ جس میں آپ کا انتقال ہو گیا، فرما رہے تھے: «الصلاة وما ملكت أيمانكم» نمسش کا، اور لونڈیوں اور غلاموں کا خیال رکھنا آپ برابر یہی جملہ کہتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی زبان مبارک رکنے لگی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18154، ومصباح الزجاجة: 590)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/290، 311، 315، 321) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو نماز کا بڑا خیال تھا کیونکہ نماز توحید باری تعالیٰ کے بعد اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے، اسی لئے وفات کے وقت بھی آپ نے اس کے لئے وصیت فرمائی، مطلب یہ تھا کہ نماز کی محافظت کرو، وقت پر پڑھو، شرائط اور ارکان کے ساتھ ادا کرو، دوسرا اہم مسئلہ لونڈی اور غلام کا تھا، آپ کی وصیت کا مقصد یہ تھا کہ لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ان پر ظلم نہ کریں۔ جو لوگ غلامی کی وجہ سے اسلام پر تنقید کرتے ہیں ان کو یہ خبر نہیں ہوئی کہ درحقیقت غلامی کیا ہے گویا فرزندی میں لینا ہے اور اپنی اولاد کی طرح ایک بے وارث شخص کی پرورش کرنا ہے، اس میں عقلاً کون سی قباحت ہے؟ بلکہ قیدیوں کے گزارے کے لئے اس سے بہتر دوسری کوئی صورت عقل ہی میں نہیں آتی، البتہ اس زمانہ میں بعض جاہل لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کرتے تھے تو یہ بری بات ہے، مگر دین اسلام پر یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ اسلام نے تو ایسے برتاؤ سے منع کیا ہے، اور ان کے ساتھ بار بار نیک سلوک کرنے کی وصیت کی ہے یہاں تک نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک اسی پر بے قابو ہو گئی، اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ﷺ۔

It was narrated from Umm Salamah that the Messenger of Allah (ﷺ) used to say, during the illness that would be his last: “The prayer, and those whom your hands possess.”* And he kept on saying it until his tongue could no longer utter any words.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
والحديث الآتي (الأصل: 2698) يغني عنه
قتادة عنعن
وللحديث شواھد كلھا معلولة،انظر ح: 2697
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 437
حدیث نمبر: 1626
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا إسماعيل ابن علية ، عن ابن عون ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، قال: ذكروا عند عائشة ، ان عليا كان وصيا، فقالت:" متى اوصى إليه، فلقد كنت مسندته إلى صدري، او إلى حجري فدعا بطست، فلقد انخنث في حجري، فمات وما شعرت به، فمتى اوصى صلى الله عليه وسلم".
(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ ، أَنَّ عَلِيًّا كَانَ وَصِيًّا، فَقَالَتْ:" مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ، فَلَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي، أَوْ إِلَى حَجْرِي فَدَعَا بِطَسْتٍ، فَلَقَدِ انْخَنَثَ فِي حِجْرِي، فَمَاتَ وَمَا شَعَرْتُ بِهِ، فَمَتَى أَوْصَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
اسود کہتے ہیں کہ لوگوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی تھے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ نے ان کو کب وصیت کی؟ میں تو آپ کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھی، یا گود میں لیے ہوئے تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طشت منگوایا، پھر آپ میری گود میں لڑھک گئے، اور وفات پا گئے، مجھے محسوس تک نہ ہوا، پھر آپ نے وصیت کب کی؟۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الوصایا 1 (2741)، المغازي 83 (4459)، صحیح مسلم/الوصیة 5 (1636)، سنن الترمذی/الشمائل 53 (386)، سنن النسائی/الطہارة 29 (33)، الوصایا 2 (3654)، (تحفة الأشراف: 15970)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/22، 32) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Aswad said: “They said in ‘Aishah’s presence that ‘Ali was appointed (by the Prophet (ﷺ) before he died), and she said: ‘When was he appointed? He (the Prophet (ﷺ)) was resting against my bosom, or in my lap, and he called for a basin, then he became limp in my lap and died, and I did not realize it. So when did he (ﷺ) appoint him?’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
65. بَابُ: ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
65. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تدفین کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning the death and burial of the Prophet (SAW)
حدیث نمبر: 1627
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، عن ابن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابو بكر، عند امراته ابنة خارجة بالعوالي، فجعلوا يقولون: لم يمت النبي صلى الله عليه وسلم، إنما هو بعض ما كان ياخذه عند الوحي، فجاء ابو بكر فكشف عن وجهه وقبل بين عينيه، وقال: انت اكرم على الله من ان يميتك مرتين قد، والله مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمر في ناحية المسجد، يقول: والله ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا يموت حتى يقطع ايدي اناس من المنافقين كثير، وارجلهم، فقام ابو بكر فصعد المنبر، فقال:" من كان يعبد الله، فإن الله حي لم يمت، ومن كان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات، وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل افإن مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين سورة آل عمران آية 144"، قال عمر: فلكاني لم اقراها إلا يومئذ.
(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، عِنْدَ امْرَأَتِهِ ابْنَةِ خَارِجَةَ بِالْعَوَالِي، فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: لَمْ يَمُتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا هُوَ بَعْضُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ عِنْدَ الْوَحْيِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ وَقَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَقَالَ: أَنْتَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَكَ مَرَّتَيْنِ قَدْ، وَاللَّهِ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعُمَرُ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَمُوتُ حَتَّى يَقْطَعَ أَيْدِيَ أُنَاسٍ مِنَ الْمُنَافِقِينَ كَثِيرٍ، وَأَرْجُلَهُمْ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ:" مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ، فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَمْ يَمُتْ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144"، قَالَ عُمَرُ: فَلَكَأَنِّي لَمْ أَقْرَأْهَا إِلَّا يَوْمَئِذٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے ساتھ جو کہ خارجہ کی بیٹی تھیں عوالی مدینہ میں تھے، لوگ کہنے لگے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وحی کے وقت جو حال آپ کا ہوا کرتا تھا ویسے ہی ہو گیا ہے، آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، آپ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا، اور کہا: آپ اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ معزز و محترم ہیں کہ آپ کو دو بار موت دے ۱؎، قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں، اس وقت عمر رضی اللہ عنہ مسجد کے ایک گوشہ میں یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرے نہیں ہیں، اور نہ آپ مریں گے، یہاں تک کہ بہت سے منافقوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹیں گے، آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، منبر پر چڑھے اور کہا: جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، مرا نہیں، اور جو کوئی محمد کی عبادت کرتا تھا تو محمد وفات پا گئے، (پھر یہ آیت پڑھی): «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين» (سورة آل عمران: 144) محمد صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول آئے، اگر آپ کا انتقال ہو جائے یا قتل کر دئیے جائیں، تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے، اور جو پھر جائے گا وہ اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا، اور اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس دن سے پہلے کبھی اس آیت کو میں نے پڑھا ہی نہیں تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 3 (1241)، المغازي 83 (4452)، سنن النسائی/الجنائز 11 (1842)، (تحفة الأشراف: 6632)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/117) (صحیح)» ‏‏‏‏ (البانی صاحب کہتے ہیں کہ وحی کے جملہ کے علاوہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت:
۱؎: یہ کہہ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کا رد کیا جو کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ پھر دنیا میں لوٹ کر آئیں گے، اور منافقوں کے ہاتھ پیر کاٹیں گے کیونکہ اگر ایسا ہو تو اس کے بعد پھر وفات ہو گی، اس طرح دو موتیں جمع ہو جائیں گی۔ اور بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اب آپ ﷺ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی، ایک دنیا کی موت تھی جو ہر بشر کو لازم تھی وہ آپ کو بھی ہوئی نیز اس کے بعد پھر آپ کو راحت ہی راحت ہے۔ اور بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ آپ کا نام اور آپ کا دین ہمیشہ قائم رہے گا،کبھی ختم ہونے والا نہیں، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کا بوسہ لینا جائز ہے، اور میت کو موت کے بعد ایک چادر سے ڈھانپ دینا چاہئے تاکہ لوگ اس کی صورت دیکھ کر گھبرائیں نہیں۔

It was narrated that ‘Aishah said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) passed away, Abu Bakr was with his wife, the daughter of Kharijah, in villages surrounding Al-Madinah. They started to say: ‘The Prophet (ﷺ) has not died, rather he has been overcome with what used to overcome him at the time of Revelation.’ Then Abu Bakr came and uncovered his (the Prophet’s (ﷺ)) face, kissed him between the eyes and said: ‘You are too noble before Allah for Him to cause you to die twice. By Allah, the Messenger of Allah (ﷺ) has indeed died.’ ‘Umar was in a corner of the mosque saying: ‘By Allah, the Messenger of Allah (ﷺ) has not died and he will never die until the hands and feet of most of the hypocrites are cut off.’ Then Abu Bakr stood up, ascended the pulpit and said: ‘Whoever used to worship Allah, Allah is alive and will never die. Whoever used to worship Muhammad, Muhammad is dead. “Muhammad is no more than a Messenger, and indeed (many) Messengers have passed away before him. If he dies or is killed, will you then turn back on your heels (as disbelievers)? And he who turns back on his heels, not the least harm will he do to Allah; and Allah will give reward to those who are grateful.’” [3:144] ‘Umar said: ‘It was as if I had never read (that Verse) before that day.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة الوحي

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبد الرحمٰن بن أبي بكر المليكي: ضعيف
وأصل الحديث صحيح
أخرجه البخاري (1241،1242) وغيره نحوه بإختلاف يسير
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 438
حدیث نمبر: 1628
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، انبانا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني حسين بن عبد الله ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: لما ارادوا ان يحفروا لرسول الله صلى الله عليه وسلم بعثوا إلى ابي عبيدة بن الجراح وكان يضرح كضريح اهل مكة، وبعثوا إلى ابي طلحة وكان هو الذي يحفر لاهل المدينة وكان يلحد، فبعثوا إليهما رسولين، وقالوا: اللهم خر لرسولك، فوجدوا ابا طلحة، فجيء به ولم يوجد ابو عبيدة فلحد لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما فرغوا من جهازه يوم الثلاثاء وضع على سريره في بيته، ثم دخل الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم ارسالا يصلون عليه، حتى إذا فرغوا ادخلوا النساء، حتى إذا فرغوا ادخلوا الصبيان، ولم يؤم الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم احد، لقد اختلف المسلمون في المكان الذي يحفر له، فقال قائلون: يدفن في مسجده، وقال قائلون: يدفن مع اصحابه، فقال ابو بكر : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما قبض نبي إلا دفن حيث يقبض"، قال: فرفعوا فراش رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي توفي عليه، فحفروا له، ثم دفن صلى الله عليه وسلم وسط الليل من ليلة الاربعاء، ونزل في حفرته علي بن ابي طالب، والفضل بن العباس، وقثم اخوه، وشقران مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال اوس بن خولي وهو ابو ليلى لعلي بن ابي طالب: انشدك الله، وحظنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال له علي: انزل وكان شقران مولاه اخذ قطيفة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبسها فدفنها في القبر، وقال: والله لا يلبسها احد بعدك ابدا، فدفنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا أَرَادُوا أَنْ يَحْفِرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثُوا إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَكَانَ يَضْرَحُ كَضَرِيحِ أَهْلِ مَكَّةَ، وَبَعَثُوا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ وَكَانَ هُوَ الَّذِي يَحْفِرُ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَكَانَ يَلْحَدُ، فَبَعَثُوا إِلَيْهِمَا رَسُولَيْنِ، وَقَالُوا: اللَّهُمَّ خِرْ لِرَسُولِكَ، فَوَجَدُوا أَبَا طَلْحَةَ، فَجِيءَ بِهِ وَلَمْ يُوجَدْ أَبُو عُبَيْدَةَ فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ جِهَازِهِ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا النِّسَاءَ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا الصِّبْيَانَ، وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ، لَقَدِ اخْتَلَفَ الْمُسْلِمُونَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يُحْفَرُ لَهُ، فَقَالَ قَائِلُونَ: يُدْفَنُ فِي مَسْجِدِهِ، وَقَالَ قَائِلُونَ: يُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ"، قَالَ: فَرَفَعُوا فِرَاشَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ، فَحَفَرُوا لَهُ، ثُمَّ دُفِنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ اللَّيْلِ مِنْ لَيْلَةِ الْأَرْبِعَاءِ، وَنَزَلَ فِي حُفْرَتِهِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وَقُثَمُ أَخُوهُ، وَشُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَوْسُ بْنُ خَوْلِيٍّ وَهُوَ أَبُو لَيْلَى لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ، وَحَظَّنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ عَلِيٌّ: انْزِلْ وَكَانَ شُقْرَانُ مَوْلَاهُ أَخَذَ قَطِيفَةً كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا فَدَفَنَهَا فِي الْقَبْرِ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا يَلْبَسُهَا أَحَدٌ بَعْدَكَ أَبَدًا، فَدُفِنَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قبر کھودنے کا ارادہ کیا، تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بلوا بھیجا، وہ مکہ والوں کی طرح صندوقی قبر کھودتے تھے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بھی بلوا بھیجا، وہ مدینہ والوں کی طرح بغلی قبر کھودتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دونوں کے پاس قاصد بھیج دئیے، اور دعا کی کہ اے اللہ! تو اپنے رسول کے لیے بہتر اختیار فرما، بالآخر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ملے، اور ان کو لایا گیا، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نہیں ملے، لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبر کھودی گئی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب لوگ منگل کے دن آپ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو گئے، تو آپ اپنے گھر میں تخت پر رکھے گئے، اور لوگوں نے جماعت در جماعت اندر آنا شروع کیا، لوگ نماز جنازہ پڑھتے جاتے تھے، جب سب مرد فارغ ہو گئے، تو عورتیں جانے لگیں جب عورتیں بھی فارغ ہو گئیں، تو بچے جانے لگے، اور آپ کے جنازے کی کسی نے امامت نہیں کی۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا کہ آپ کی قبر کہاں کھودی جائے، بعض نے کہا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے، بعض نے کہا کہ آپ کو آپ کے ساتھیوں کے پاس مقبرہ بقیع میں دفن کیا جائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جس نبی کا بھی انتقال ہوا اسے وہیں دفن کیا گیا جہاں پہ اس کا انتقال ہوا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ حدیث سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر اٹھایا جس پر آپ کا انتقال ہوا تھا، لوگوں نے آپ کے لیے قبر کھودی، پھر آپ کو بدھ کی آدھی رات میں دفن کیا گیا، آپ کی قبر میں علی بن ابی طالب، فضل بن عباس، ان کے بھائی قثم بن عباس، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام شقران رضی اللہ عنہم اترے۔ ابولیلیٰ اوس بن خولہ رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم اور اپنی اس صحبت کی قسم دیتا ہوں جو ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاصل ہے، (مجھ کو بھی قبر میں اترنے دیں) تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اتر جاؤ، اور شقران جو آپ کے غلام تھے، نے ایک چادر لی جس کو آپ اوڑھا کرتے تھے، اسے بھی آپ کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا اور کہا: قسم اللہ کی! اس چادر کو آپ کے بعد کوئی نہ اوڑھے، چنانچہ اسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6022، ومصباح الزجاجة: 591)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/8، 260، 292) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حسین بن عبد اللہ متروک ہے، لیکن شقاق اور لاحد کا قصہ ثابت ہے، اور ایسے ہی «مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ» کا لفظ ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو: احکام الجنائز: 137- 138)» ‏‏‏‏

It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “When they wanted to dig a grave for the Messenger of Allah (ﷺ), they sent for Abu ‘Ubaidah bin Jarrah, who used to dig graves in the manner of the people of Makkah, and they sent for Abu Talhah, who used to dig graves for the people of Al-Madinah, and he used to make a niche in the grave. They sent two messengers to both of them, and they said: ‘O Allah, choose what is best for Your Messenger.’ They found Abu Talhah and brought him, but they did not find Abu ‘Ubaidah. So he dug a grave with a niche for the Messenger of Allah (ﷺ). When they had finished preparing him, on Tuesday, he was placed on his bed in his house. Then the people entered upon the Messenger of Allah (ﷺ) in groups and offered the funeral prayer for him, and when they finished the women entered, and when they finished the children entered, and no one led the people in offering the funeral prayer for the Messenger of Allah (ﷺ). The Muslims differed concerning the place where he should be buried. Some said that he should be buried in his mosque. Others said that he should be buried with his Companions. Then Abu Bakr said: ‘I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “No Prophet ever passed away but he was buried where he died.” So they lifted up the bed of the Messenger of Allah (ﷺ) on which he had died, and dug the grave for him, then he (ﷺ) was buried in the middle of Tuesday night. ‘Ali bin Abu Talib, Fadl bin ‘Abbas and his brother Qutham, and Shuqran the freed slave of the Messenger of Allah (ﷺ) went down in his grave. Aws bin Khawli, who was Abu Laila, said to ‘Ali bin Abi Talib: ‘I adjure you by Allah! Give us our share of the Messenger of Allah (ﷺ).’ So ‘Ali said to him: ‘Come down.’ Shuqran, his freed slave, had taken a Qatifah which the Messenger of Allah (ﷺ) used to wear. He buried it in his grave and said, ‘By Allah, no one will ever wear it after you.’ So it was buried with the Messenger of Allah (ﷺ).”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن قصة الشقاق واللاحد ثابتة

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الحسين بن عبد اللّٰه: ضعيف (تقريب: 1326)
وقال الھيثمي: وھو متروك ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 60/5)
وقال البيهقي: ضعفه أكثر أصحاب الحديث (السنن الكبري 10/ 346)
ودفن الأنبياء حيث قبضوا صحيح،انظر سنن الترمذي (1018)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 438
حدیث نمبر: 1629
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي ، حدثنا عبد الله بن الزبير ابو الزبير ، حدثنا ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، قال: لما وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم من كرب الموت ما وجد، قالت فاطمة: وا كرب ابتاه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا كرب على ابيك بعد اليوم، إنه قد حضر من ابيك ما ليس بتارك منه احدا الموافاة يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَبُو الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَرْبِ الْمَوْتِ مَا وَجَدَ، قَالَتْ فَاطِمَةُ: وَا كَرْبَ أَبَتَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا كَرْبَ عَلَى أَبِيكِ بَعْدَ الْيَوْمِ، إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ مِنْ أَبِيكِ مَا لَيْسَ بِتَارِكٍ مِنْهُ أَحَدًا الْمُوَافَاةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی سختی محسوس کی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ہائے میرے والد کی سخت تکلیف ۱؎، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تیرے والد پر کبھی سختی نہ ہو گی، اور تیرے والد پر وہ وقت آیا ہے جو سب پر آنے والا ہے، اب قیامت کے دن ملاقات ہو گی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 450، ومصباح الزجاجة: 592)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي 83 (4448)، مسند احمد (3/141) (حسن صحیح) (سند میں عبد اللہ بن الزبیر مقبول ہیں، اور مسند احمد میں مبارک بن فضالہ نے ان کی متابعت کی ہے، اصل حدیث صحیح البخاری میں ہے، صحیح البخاری میں: «إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ» کا جملہ نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1738)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ نوحہ میں داخل نہیں ہیں کیونکہ یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب آپ ابھی زندہ تھے، اور جان کنی کے عالم میں تھے جیسا کہ اس سے پہلے کی روایت سے ظاہر ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ میت میں جو خوبیاں فی الواقع موجود رہی ہوں ان کو بیان کرنا نوحہ نہیں ہے، بلکہ نوحہ میت میں ایسی خوبیاں ذکر کرنے کا نام ہے جو اس میں نہ رہی ہوں۔ ۲؎: حالانکہ ملاقات مرنے کے بعد ہی عالم برزخ میں ہو جاتی ہے جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہے، پھر اس کا کیا مطلب ہو گا؟ یہاں یہ اشکال ہوتا ہے، اور ممکن ہے کہ ملاقات سے دنیا کی طرح ہر وقت کی یکجائی اور سکونت مراد ہو اور یہ قیامت کے بعد ہی جنت میں ہو گی جیسے دوسری روایت میں ہے کہ ایک بار نبی کریم ﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں تشریف لے گئے، علی رضی اللہ عنہ کو سوتا پایا، ارشاد ہوا کہ یہ سونے والا، اور میں اور تو جنت میں ایک مکان میں ہوں گے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ کا درجہ آخرت میں بہت بلند ہو گا کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک مکان میں رہیں گے، اور ظاہر ہے نبی کریم ﷺ کا مقام جنت الفردوس میں سب سے بلند ہو گا، واللہ اعلم۔

It was narrated that Anas bin Malik said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) suffered the agonies of death that he suffered, Fatimah said: ‘O my father, what a severe agony!’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Your father will suffer no more agony after this day. There has come to your father that which no one can avoid, the death that everyone will encounter until the Day of Resurrection.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 1630
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو اسامة ، حدثني حماد بن زيد ، حدثني ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: قالت لي فاطمة:" يا انس كيف سخت انفسكم ان تحثوا التراب على رسول الله صلى الله عليه وسلم؟". (حديث موقوف) (حديث موقوف) وحدثنا وحدثنا ثابت ، عن انس ، ان فاطمة، قالت حين قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم: وا ابتاه إلى جبرائيل انعاه، وا ابتاه من ربه ما ادناه، وا ابتاه جنة الفردوس ماواه، وا ابتاه اجاب ربا دعاه"، قال حماد: فرايت ثابتا حين حدث بهذا الحديث بكى حتى رايت اضلاعه تختلف.
(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنِي ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَال: قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ:" يَا أَنَسُ كَيْفَ سَخَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا التُّرَابَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟". (حديث موقوف) (حديث موقوف) وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ فَاطِمَةَ، قَالَتْ حِينَ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَا أَبَتَاهُ إِلَى جِبْرَائِيلَ أَنْعَاهُ، وَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ، وَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ، وَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ"، قَالَ حَمَّادٌ: فَرَأَيْتُ ثَابِتًا حِينَ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ بَكَى حَتَّى رَأَيْتُ أَضْلَاعَهُ تَخْتَلِفُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے انس! تمہارے دل کو کیسے گوارا ہوا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو؟ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میرے والد، میں جبرائیل کو ان کے مرنے کی خبر دیتی ہوں، ہائے میرے والد، اپنے رب کے کتنے نزدیک ہو گئے، ہائے میرے والد، جنت الفردوس میں ان کا ٹھکانہ ہے، ہائے میرے والد، اپنے رب کا بلانا قبول کیا۔ حماد نے کہا: میں نے ثابت کو دیکھا کہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد روئے یہاں تک کہ ان کی پسلیاں اوپر نیچے ہونے لگیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المغازي 83 (4448)، (تحفة الأشراف: 302)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة 14 (88) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: نبی اکرم ﷺکی وفات کے چھ ماہ بعد آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ کی پیش گوئی کے مطابق ہو گیا، اور چہیتی بیٹی اپنے باپ سے جا ملیں، اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جو یہ کلمات سخت رنج کی حالت میں فرمائے یہ نیاحت میں داخل ہیں جب کہ وہ منع ہے واضح رہے کہ نیاحت وہ ہے جو چلا کر بلند آواز سے ہو، نہ وہ جو آہستہ سے کہا جائے، اور اگر یہ نیاحت ہوتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اسے ہرگز نہ کرتیں۔

It was narrated that Anas bin Malik said: “Fatimah said to me: ‘O Anas, how did you manage to scatter dust on the Messenger of Allah (ﷺ)?’” And Thabit narrated to us from Anas that Fatimah said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) passed away: ‘O my father! To Jibra’il we announce his death; O my father, how much closer he is now to his Lord; O my father, the Paradise of Firdaws is his abode; O my father, he has answered the call of his Lord.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1631
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا بشر بن هلال الصواف ، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال:" لما كان اليوم الذي دخل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة اضاء منها كل شيء، فلما كان اليوم الذي مات فيه اظلم منها كل شيء، وما نفضنا عن النبي صلى الله عليه وسلم الايدي حتى انكرنا قلوبنا".
(موقوف) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ:" لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، وَمَا نَفَضْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَيْدِيَ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے اس دن مدینہ کی ہر چیز روشن ہو گئی، اور جس وقت آپ کا انتقال ہوا ہر چیز پر اندھیرا چھا گیا، اور ہم لوگوں نے ابھی آپ کے کفن دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑا تھا کہ ہم نے اپنے دلوں کو بدلہ ہوا پایا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/المناقب 1 (3618)، (تحفة الأشراف: 268)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة 14 (89) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Anas said: “On the day when the Messenger of Allah (ﷺ) entered Al-Madinah, everything was lit up, and on the day when he died, everything went dark, and no sooner had we dusted off our hands (after burying him) but we felt that our hearts had changed.”*
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

Previous    16    17    18    19    20    21    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.