سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
65. بَابُ : ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تدفین کا بیان۔
حدیث نمبر: 1628
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا أَرَادُوا أَنْ يَحْفِرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثُوا إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَكَانَ يَضْرَحُ كَضَرِيحِ أَهْلِ مَكَّةَ، وَبَعَثُوا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ وَكَانَ هُوَ الَّذِي يَحْفِرُ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَكَانَ يَلْحَدُ، فَبَعَثُوا إِلَيْهِمَا رَسُولَيْنِ، وَقَالُوا: اللَّهُمَّ خِرْ لِرَسُولِكَ، فَوَجَدُوا أَبَا طَلْحَةَ، فَجِيءَ بِهِ وَلَمْ يُوجَدْ أَبُو عُبَيْدَةَ فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ جِهَازِهِ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا النِّسَاءَ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا الصِّبْيَانَ، وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ، لَقَدِ اخْتَلَفَ الْمُسْلِمُونَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يُحْفَرُ لَهُ، فَقَالَ قَائِلُونَ: يُدْفَنُ فِي مَسْجِدِهِ، وَقَالَ قَائِلُونَ: يُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ"، قَالَ: فَرَفَعُوا فِرَاشَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ، فَحَفَرُوا لَهُ، ثُمَّ دُفِنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ اللَّيْلِ مِنْ لَيْلَةِ الْأَرْبِعَاءِ، وَنَزَلَ فِي حُفْرَتِهِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وَقُثَمُ أَخُوهُ، وَشُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَوْسُ بْنُ خَوْلِيٍّ وَهُوَ أَبُو لَيْلَى لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ، وَحَظَّنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ عَلِيٌّ: انْزِلْ وَكَانَ شُقْرَانُ مَوْلَاهُ أَخَذَ قَطِيفَةً كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا فَدَفَنَهَا فِي الْقَبْرِ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا يَلْبَسُهَا أَحَدٌ بَعْدَكَ أَبَدًا، فَدُفِنَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قبر کھودنے کا ارادہ کیا، تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بلوا بھیجا، وہ مکہ والوں کی طرح صندوقی قبر کھودتے تھے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بھی بلوا بھیجا، وہ مدینہ والوں کی طرح بغلی قبر کھودتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دونوں کے پاس قاصد بھیج دئیے، اور دعا کی کہ اے اللہ! تو اپنے رسول کے لیے بہتر اختیار فرما، بالآخر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ملے، اور ان کو لایا گیا، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نہیں ملے، لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبر کھودی گئی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب لوگ منگل کے دن آپ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو گئے، تو آپ اپنے گھر میں تخت پر رکھے گئے، اور لوگوں نے جماعت در جماعت اندر آنا شروع کیا، لوگ نماز جنازہ پڑھتے جاتے تھے، جب سب مرد فارغ ہو گئے، تو عورتیں جانے لگیں جب عورتیں بھی فارغ ہو گئیں، تو بچے جانے لگے، اور آپ کے جنازے کی کسی نے امامت نہیں کی۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا کہ آپ کی قبر کہاں کھودی جائے، بعض نے کہا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے، بعض نے کہا کہ آپ کو آپ کے ساتھیوں کے پاس مقبرہ بقیع میں دفن کیا جائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جس نبی کا بھی انتقال ہوا اسے وہیں دفن کیا گیا جہاں پہ اس کا انتقال ہوا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ حدیث سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر اٹھایا جس پر آپ کا انتقال ہوا تھا، لوگوں نے آپ کے لیے قبر کھودی، پھر آپ کو بدھ کی آدھی رات میں دفن کیا گیا، آپ کی قبر میں علی بن ابی طالب، فضل بن عباس، ان کے بھائی قثم بن عباس، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام شقران رضی اللہ عنہم اترے۔ ابولیلیٰ اوس بن خولہ رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم اور اپنی اس صحبت کی قسم دیتا ہوں جو ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاصل ہے، (مجھ کو بھی قبر میں اترنے دیں) تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اتر جاؤ، اور شقران جو آپ کے غلام تھے، نے ایک چادر لی جس کو آپ اوڑھا کرتے تھے، اسے بھی آپ کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا اور کہا: قسم اللہ کی! اس چادر کو آپ کے بعد کوئی نہ اوڑھے، چنانچہ اسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6022، ومصباح الزجاجة: 591)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/8، 260، 292) (ضعیف)» (سند میں حسین بن عبد اللہ متروک ہے، لیکن شقاق اور لاحد کا قصہ ثابت ہے، اور ایسے ہی «مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ» کا لفظ ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو: احکام الجنائز: 137- 138)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن قصة الشقاق واللاحد ثابتة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الحسين بن عبد اللّٰه: ضعيف (تقريب: 1326)
وقال الھيثمي: وھو متروك ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 60/5)
وقال البيهقي: ضعفه أكثر أصحاب الحديث (السنن الكبري 10/ 346)
ودفن الأنبياء حيث قبضوا صحيح،انظر سنن الترمذي (1018)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 438
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1628 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1628
اردو حاشہ:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اور مذید لکھا ہے کہ اس ر وایت میں صرف یہ جملہ (ما قبض نبي الا دفن حيث يقبض)
جو بھی نبی فوت ہوا۔
وہ جہاں فوت ہوا وہیں دفن ہوا صحیح ہے کیونکہ جامع ترمذی (1018)
اور ابن سعد (2/292)
وغیرہ میں اس کے بہت سے شواہد ہیں۔
جنھیں محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔
لہذا مذکورہ روایت میں صرف یہی جملہ صحیح ہے۔
تاہم نبی ﷺ کی وفات اور تدفین کا صحیح واقعہ حدیث 1557۔ 1558۔
میں گزر چکا ہے۔
وہاں ملاحظہ فرمایئں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1628