سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
65. بَابُ : ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تدفین کا بیان۔
حدیث نمبر: 1630
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنِي ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَال: قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ:" يَا أَنَسُ كَيْفَ سَخَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا التُّرَابَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟". (حديث موقوف) (حديث موقوف) وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ فَاطِمَةَ، قَالَتْ حِينَ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَا أَبَتَاهُ إِلَى جِبْرَائِيلَ أَنْعَاهُ، وَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ، وَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ، وَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ"، قَالَ حَمَّادٌ: فَرَأَيْتُ ثَابِتًا حِينَ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ بَكَى حَتَّى رَأَيْتُ أَضْلَاعَهُ تَخْتَلِفُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے انس! تمہارے دل کو کیسے گوارا ہوا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو؟ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میرے والد، میں جبرائیل کو ان کے مرنے کی خبر دیتی ہوں، ہائے میرے والد، اپنے رب کے کتنے نزدیک ہو گئے، ہائے میرے والد، جنت الفردوس میں ان کا ٹھکانہ ہے، ہائے میرے والد، اپنے رب کا بلانا قبول کیا۔ حماد نے کہا: میں نے ثابت کو دیکھا کہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد روئے یہاں تک کہ ان کی پسلیاں اوپر نیچے ہونے لگیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 83 (4448)، (تحفة الأشراف: 302)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة 14 (88) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ کی پیش گوئی کے مطابق ہو گیا، اور چہیتی بیٹی اپنے باپ سے جا ملیں، اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جو یہ کلمات سخت رنج کی حالت میں فرمائے یہ نیاحت میں داخل ہیں جب کہ وہ منع ہے واضح رہے کہ نیاحت وہ ہے جو چلا کر بلند آواز سے ہو، نہ وہ جو آہستہ سے کہا جائے، اور اگر یہ نیاحت ہوتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اسے ہرگز نہ کرتیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1630 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1630
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ کی وفات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ تھا۔
جس پر ان کے غم کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہ الفاظ بھی ان کےحزن وغم کا اظہا ہیں۔
(2)
فرشتوں کو کسی کی موت کی خبردینے کی ضرورت نہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ یہ غم صرف انسانوں کا غم نہیں اس غم میں تو فرشتے بھی شریک ہیں۔
(3)
رب کا قرب حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کے پہلے روحانی درجات کی بلندی کا شرف حاصل تھا۔
اب تو آپ کی روح مبارک بھی اللہ کے پاس جنت الفردوس میں چلی گئی ہے۔
(4)
حضرت فا طمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ان الفاظ کو بین یا مرثیہ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ انھوں نے اہل جاہلیت کی طرح سینہ کوبی نہیں کی۔
گریبان چاک نہیں کیا بلکہ تنہائی میں یا چند افراد کی موجودگی میں آہستہ آواز میں اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔
(5)
حضرت ثابت رحمۃ اللہ علیہ بھی جب یہ غم ناک واقعہ بیان فرماتے تھے تو شدید متاثر ہوتے تھے۔
اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے ذکر پر غمگین ہوجاتے تھے۔
کیونکہ انھیں آپﷺ کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوا۔
(6)
وفات نبوی ﷺ انتہائی حزن وملال کا باعث واقعہ ہے۔
لہٰذا 12 ربیع الاول کو خوشی منانا انتہائی نا مناسب ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو رسول اللہ ﷺ سے انتہائی محبت تھی۔
پھر بھی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ولادت اور وفات کے دن کو عید یا سوگ کے دن کے طور پر نہیں منایا۔
مشہور لوگوں کی سالگرہ اور برسی منانا مسلمانوں کا طریقہ نہیں بلکہ یہ رواج ہمارے معاشرے میں ہندووں اور یورپی عیسایئوں سے آیا ہے۔
غیر مسلموں کے اس قسم کے رسم ورواج سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1630