جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلیمان بن داود علیہما السلام کی ماں نے سلیمان سے کہا: بیٹے! تم رات میں زیادہ نہ سویا کرو اس لیے کہ رات میں بہت زیادہ سونا آدمی کو قیامت کے دن فقیر کر دے گا“۔
تخریج الحدیث: «(تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3094، ومصباح الزجاجة: 467) (ضعیف)» (اس حدیث کو ابن الجوزی نے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور کہا ہے: «لایصح عن رسو ل اللہ، ویوسف لایتابع علی حدیثہ» ، یہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح نہیں ہے، اور یوسف کی حدیث کا کوئی متابع نہیں ہے)
It was narrated that Jabir bin ‘Abdullah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The mother of Sulaiman bin Dawud said to Sulaiman: “O my son, do not sleep too much at night, for sleeping too much at night will leave a man poor on the Day of Resurrection.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذاإسناد ضعيف،لضعف يوسف بن محمد بن المنكدر وسنيد بن داود‘‘ يوسف بن محمد ابن المنكدر: ضعيف (تقريب: 7881) و قال العراقي فيه: ضعفه الجمهور (تخريج الإحياء 244/3) وسنيد: ضعيف إلخ (التحرير: 2646) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات میں زیادہ نمازیں پڑھے گا، دن میں اس کے چہرے سے نور ظاہر ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2336، ومصباح الزجاجة: 468) (موضوع)» (ابن الجوزی نے اس حدیث کو باطل کہا ہے، (2/109- 110) اس کی سند میں ثابت بن موسیٰ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4644)
It was narrated that Jabir said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever prays a great deal at night, his face will be handsome during the day.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف موضوع ثابت بن موسي الزاهد: ضعيف الحديث (تقريب: 831) وأدخل قول شريك في الخبر كما قال ابن حبان (المجروحين 1/ 207) و أورده ابن الجوزي في الموضوعات (109/2،110) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، وابن ابي عدي ، وعبد الوهاب ، ومحمد بن جعفر ، عن عوف بن ابي جميلة ، عن زرارة بن اوفى ، عن عبد الله بن سلام ، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، انجفل الناس إليه، وقيل: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجئت في الناس لانظر إليه، فلما استبنت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، عرفت ان وجهه ليس بوجه كذاب، فكان اول شيء تكلم به ان قال:" يا ايها الناس، افشوا السلام، واطعموا الطعام، وصلوا بالليل والناس نيام تدخلوا الجنة بسلام". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، وعبد الوهاب ، ومحمد بن جعفر ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَقِيلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا اسْتَبَنْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ".
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں، تو لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لیے میں بھی آیا، جب میں نے کوشش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا، تو پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے، پہلی بات آپ نے جو کہی وہ یہ تھی کہ ”لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، اور رات کو نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوں، تب تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القیامة 42 (2485)، (تحفة الأشراف: 5331)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/451)، سنن الدارمی/الصلاة 156 (1501)، (حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3251) (صحیح)»
It was narrated that ‘Abdullah bin Salam said:
“When the Messenger of Allah (ﷺ) came to Al-Madinah, the people rushed towards him and it was said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) has come!’ I came along with the people to see him, and when I looked at the face of the Messenger of Allah (ﷺ), I realized that his face was not the face of a liar. The first thing he said was: “O people, spread (the greeting of) Salam, offer food to people and pray at night when people are sleeping, you will enter Paradise in peace.”
ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی رات میں بیدار ہو اور اپنی بیوی کو جگائے، اور دونوں دو رکعت نماز پڑھیں، تو وہ دونوں «ذاکرین»(اللہ کی یاد کثرت سے کرنے والے) اور «ذاکرات»(کثرت سے یاد کرنے والیوں) میں سے لکھے جائیں گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ان کی شان میں قرآن میں یہ آیا ہے: «والذاكرين الله كثيرا والذاكرات»”اللہ کی یاد کثرت سے کرنے والے مرد اور عورتیں“(الأحزاب:35) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیام اللیل (تہجد) کے لئے دو رکعت بھی کافی ہے، اور سنت آٹھ، دس اور بارہ ہے، اور اس کے بعد وتر، اگر دو رکعت بھی نہ ہو سکیں تو صرف بستر پر ہی رہ کر تھوڑی دیر دعا اور استغفار کر لے، اور اللہ کی یہ یاد بھی غنیمت ہے۔
It was narrated that Abu Sa’eed and Abu Hurairah said that the Prophet (ﷺ) said:
‘When a man wakes up at night and wakes his wife, and they pray two Rak’ah, they will be recorded among the men and women who remember Allah much.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1309) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے، جو رات میں بیدار ہوا، اور نماز پڑھی، اور اپنی بیوی کو بھی جگایا، اس نے نماز پڑھی، اگر نہ اٹھی تو اس کے چہرہ پہ پانی چھڑکا، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم کرے، جو رات میں بیدار ہوئی، پھر اس نے نماز پڑھی اور اپنے شوہر کو جگایا، اس نے بھی نماز پڑھی اگر نہ اٹھا تو اس کے منہ پر پانی چھڑکا“۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘May Allah have mercy on a man who gets up at night and prays, and wakes his wife, and she prays; and if she refuses he sprinkles water in her face. And May Allah have mercy on a woman who gets up at night and prays, and wakes her husband and he prays; and if he refuses, she sprinkles water in his face.’”
عبدالرحمٰن بن سائب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے، وہ نابینا ہو گئے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے انہیں (اپنے بارے میں) بتایا: تو انہوں نے کہا: بھتیجے! تمہیں مبارک ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن اچھی آواز سے پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”یہ قرآن غم کے ساتھ اترا ہے لہٰذا جب تم قرآن پڑھو، تو رؤو، اگر رو نہ سکو تو بہ تکلف رؤو، اور قرآن پڑھتے وقت اسے اچھی آواز کے ساتھ پڑھو ۱؎، جو قرآن کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3900، ومصباح الزجاجة: 469) وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 355 (1469) (ضعیف)» (اس میں راوی ابورافع، اسماعیل بن رافع ضعیف ومترو ک ہیں، لیکن آخری جملہ «وتغنوا به» صحیح ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، (البخاری 13/ 50 و مسلم (1/545)
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «تغنى» کا لفظ ہے، اور «تغنى» کا معنی گانا ہے، قرآن میں «تغنى» نہیں ہو سکتی، لہذا «تغنى» سے یہ مراد ہو گا کہ باریک آواز سے درد کے ساتھ اس کو پڑھنا بایں طور کہ پڑھنے والے پر اور سننے والے سب پر اثر ہو، اور دلوں میں اللہ کا خوف اور خشوع پیدا ہو، اور تجوید کے قواعد کی رعایت باقی رہے، کلمات اور حروف میں کمی اور بیشی نہ ہو، سفیان بن عیینہ نے کہا: «تغنی بالقرآن» کا یہ معنی ہے کہ قرآن کو دولت لازوال سمجھے، اور دنیا داروں سے غنی یعنی بے پرواہ رہے۔
It was narrated that ‘Abdur-Rahman bin Sa’ib said:
“Sa’d bin Abu Waqqas came to us when he had become blind. I greeted him with Salam and he said: ‘Who are you?’ So I told him, and he said: ‘Welcome, O son of my brother. I have heard that you recite Qur’an in a beautiful voice. I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “This Qur’an was revealed with sorrow, so when you recite it, then weep. If you cannot weep then pretend to weep, and make your voice melodious in reciting it. Whoever does not make his voice melodious, he is not one of us.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث الآتي (4196) مختصرًا قال البو صيري: ”فيه أبو رافع واسمه: إسماعيل بن رافع،ضعيف متروك“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
(مرفوع) حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا حنظلة بن ابي سفيان ، انه سمع عبد الرحمن بن سابط الجمحي يحدث، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: ابطات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بعد العشاء، ثم جئت، فقال:" اين كنت؟"، قلت: كنت استمع قراءة رجل من اصحابك، لم اسمع مثل قراءته وصوته من احد، قالت: فقام، وقمت معه حتى استمع له، ثم التفت إلي، فقال:" هذا سالم مولى ابي حذيفة، الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَابِطٍ الْجُمَحِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَبْطَأْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بَعْدَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ:" أَيْنَ كُنْتِ؟"، قُلْتُ: كُنْتُ أَسْتَمِعُ قِرَاءَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِكَ، لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَ قِرَاءَتِهِ وَصَوْتِهِ مِنْ أَحَدٍ، قَالَتْ: فَقَامَ، وَقُمْتُ مَعَهُ حَتَّى اسْتَمَعَ لَهُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ:" هَذَا سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ هَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے عشاء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں دیر کر دی، جب میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہاں تھیں؟“ میں نے کہا: آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص کی تلاوت سن رہی تھی، ویسی تلاوت اور ویسی آواز میں نے کسی سے نہیں سنی، یہ سنتے ہی آپ کھڑے ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی کھڑی ہوئی، آپ نے اس شخص کی قراءت سنی، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے، اور فرمایا: ”یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا کیا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16303، ومصباح الزجاجة: 470)، ومسند احمد (6/165) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سالم مولی ابوحذیفہ مشہور قاری اور خوش آواز تھے، یہ دونوں صفات ایک قاری میں بہت کم جمع ہوتی ہیں، اکثر لوگ خوش آواز تو ہوتے ہیں لیکن تجوید یعنی قواعد قراءت سے ناواقف ہوتے ہیں، اور بعض قاری ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز اچھی نہیں ہوتی، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عورت کو اجنبی مرد کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں۔
It was narrated that ‘Aishah the wife of the Prophet (ﷺ) said:
“One night at the time of the Messenger of Allah (ﷺ) I was late returning from the ‘Isha’, then I came and he said: ‘Where were you?’ I said: ‘I was listening to the recitation of a man among your Companions, for I have never heard a recitation or a voice like his from anyone.’ He got up and I got up with him, to go and listen to him. Then he turned to me and said: ‘This is Salim, the freed slave of Abu Hudhaifah. Praise is to Allah Who has created such men among my Ummah.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الوليد بن مسلم لم يصرح بالسماع المسلسل و في سماع عبد الرحمٰن بن سابط من عائشة رضي اللّٰه عنھا نظر فالسند معلل و للحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے عمدہ آواز میں قرآن پڑھنے والا وہ ہے کہ جب تم اس کی قراءت سنو تو تمہیں ایسا لگے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2646، ومصباح الزجاجة: 471) (صحیح)» (دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس حدیث کی سند میں دو راوی عبد اللہ بن جعفر اور ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة: 475، بتحقیق عوض الشہری)
وضاحت: ۱؎: یعنی درد انگیز آواز سے پڑھتا ہو، اور اس پر رقت طاری ہو جاتی ہو۔
It was narrated that Jabir said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Among the people who recite the Qur’an with the most beautiful voices is the man who, when you hear him, you think that he fears Allah.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن مجمع: ضعيف وللحديث شاهد مرسل ضعيف عند ابن المبارك في الزهد (114) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 425
فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ خوش الحان شخص کا قرآن اس سے زیادہ متوجہ ہو کر سنتا ہے جتنا کہ گانا سننے والا اپنی توجہ گانے والی کی طرف لگاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11040، ومصباح الزجاجة: 472)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/19، 20) (ضعیف)» (ولید بن مسلم کثیر التدلیس والتسویہ اور میسرہ لین الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2951)
It was narrated that Fadalah bin ‘Ubaid said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Allah listens more attentively to a man with a beautiful voice who recites Qur’an out loud than the master of a singing slave listens to his slave.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الوليد بن مسلم لم يصرح بالسماع المسلسل و في السند علة أخري: بين فضالة رضي اللّٰه عنه و إسماعيل بن عبيد اللّٰه: ميسرة مولي فضالة وھو مجھول الحال انوار الصحيفه، صفحه نمبر 425
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی قراءت سنی تو پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ عرض کیا گیا: عبداللہ بن قیس ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں داؤد (علیہ السلام) کی خوش الحانی میں سے حصہ ملا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15119، ومصباح الزجاجة: 473)، وقد أخر جہ: سنن النسائی/الافتتاح 83 (1020)، مسند احمد (2/354، 369، 450) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «مزامیر»: جمع ہے «مزمار» کی، «مزمار» کہتے ہیں ستار کو، یا بجانے کے آلہ کو، یہاں «مزمار» سے مراد خوش الحانی ہے، اور داود علیہ السلام بہت خوش الحان تھے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) entered the mosque and heard a man reciting Qur’an. He asked: ‘Who is this?’ It was said: ‘(He is) ‘Abdullah bin Qais.’ He said: ‘He has been given (sweet melodious voice) from the Mazamir of the family of Dawud.’”