(مرفوع) حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا حنظلة بن ابي سفيان ، انه سمع عبد الرحمن بن سابط الجمحي يحدث، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: ابطات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بعد العشاء، ثم جئت، فقال:" اين كنت؟"، قلت: كنت استمع قراءة رجل من اصحابك، لم اسمع مثل قراءته وصوته من احد، قالت: فقام، وقمت معه حتى استمع له، ثم التفت إلي، فقال:" هذا سالم مولى ابي حذيفة، الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَابِطٍ الْجُمَحِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَبْطَأْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بَعْدَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ:" أَيْنَ كُنْتِ؟"، قُلْتُ: كُنْتُ أَسْتَمِعُ قِرَاءَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِكَ، لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَ قِرَاءَتِهِ وَصَوْتِهِ مِنْ أَحَدٍ، قَالَتْ: فَقَامَ، وَقُمْتُ مَعَهُ حَتَّى اسْتَمَعَ لَهُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ:" هَذَا سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ هَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے عشاء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں دیر کر دی، جب میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہاں تھیں؟“ میں نے کہا: آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص کی تلاوت سن رہی تھی، ویسی تلاوت اور ویسی آواز میں نے کسی سے نہیں سنی، یہ سنتے ہی آپ کھڑے ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی کھڑی ہوئی، آپ نے اس شخص کی قراءت سنی، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے، اور فرمایا: ”یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا کیا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سالم مولی ابوحذیفہ مشہور قاری اور خوش آواز تھے، یہ دونوں صفات ایک قاری میں بہت کم جمع ہوتی ہیں، اکثر لوگ خوش آواز تو ہوتے ہیں لیکن تجوید یعنی قواعد قراءت سے ناواقف ہوتے ہیں، اور بعض قاری ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز اچھی نہیں ہوتی، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عورت کو اجنبی مرد کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16303، ومصباح الزجاجة: 470)، ومسند احمد (6/165) (صحیح)»
It was narrated that ‘Aishah the wife of the Prophet (ﷺ) said:
“One night at the time of the Messenger of Allah (ﷺ) I was late returning from the ‘Isha’, then I came and he said: ‘Where were you?’ I said: ‘I was listening to the recitation of a man among your Companions, for I have never heard a recitation or a voice like his from anyone.’ He got up and I got up with him, to go and listen to him. Then he turned to me and said: ‘This is Salim, the freed slave of Abu Hudhaifah. Praise is to Allah Who has created such men among my Ummah.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الوليد بن مسلم لم يصرح بالسماع المسلسل و في سماع عبد الرحمٰن بن سابط من عائشة رضي اللّٰه عنھا نظر فالسند معلل و للحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1338
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کوئی شخص تلاوت کر رہا ہو تو خاموشی اور توجہ سے سننا چاہیے۔
(2) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین میں تلاوت سننے کا شوق بہت زیادہ تھا۔
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے تلاوت سنتے تھے۔ اس لئے ایک بڑے عالم یا بلند درجہ شخص کوبھی کم درجہ شخص سے تلاوت سننے میں تکلف نہیں کرنا چاہیے۔
(4) عورت اجنبی مرد کی تلاوت اور تقریر سن سکتی ہے۔
(5) کسی کو اللہ نے کوئی خوبی عطا فرمائی ہو تو اس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں خصوصاً جب تعریف اس کی موجودگی میں نہ ہو۔
(6) شاگرد کی خوبی استاد کےلئے خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح اولاد کی نیکی خوبی اور کمال پر والدین کو اللہ شکر کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1338