ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی قراءت سنی تو پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ عرض کیا گیا: عبداللہ بن قیس ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں داؤد (علیہ السلام) کی خوش الحانی میں سے حصہ ملا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «مزامیر»: جمع ہے «مزمار» کی، «مزمار» کہتے ہیں ستار کو، یا بجانے کے آلہ کو، یہاں «مزمار» سے مراد خوش الحانی ہے، اور داود علیہ السلام بہت خوش الحان تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15119، ومصباح الزجاجة: 473)، وقد أخر جہ: سنن النسائی/الافتتاح 83 (1020)، مسند احمد (2/354، 369، 450) (حسن صحیح)»
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) entered the mosque and heard a man reciting Qur’an. He asked: ‘Who is this?’ It was said: ‘(He is) ‘Abdullah bin Qais.’ He said: ‘He has been given (sweet melodious voice) from the Mazamir of the family of Dawud.’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1341
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حضرت عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام سے معروف ہیں خوش آواز تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاوت کی تحسین فرمائی۔
(2) اچھی آواز اللہ کی ایک نعمت ہے۔ اس سے نیکی کے کاموں میں فائدہ اٹھانا قابل تعریف ہے۔
(3) ساز سے مراد خوش کن آواز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1341
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1020
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی قرأت سنی تو فرمایا: ”انہیں آل داود کے لحن (سُر) میں سے ایک لحن عطا کیا گیا ہے۔“[سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1020]
1020۔ اردو حاشیہ: ➊ حضرت داود علیہ السلام آواز و قرأت کی خوب صورتی میں ضرب المثل بن چکے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کی قرأت کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی قرأت کا ذکر ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو خوب صورت آواز کو حضرت داود علیہ السلام کی آوازکے ساتھ تشبیہ دی۔ اور اس کے لیے (مزمار) کا لفظ استعمال فرمایا۔ «مزمار» کے معنیٰ بانسری ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بانسری کے ساتھ پڑھتے تھے بلکہ یہ تو صرف تشبیہ ہے کہ آواز اس طرح پرسوز اور پرکشش تھی جیسے بانسری ہو۔ ➋ اچھی آواز کی تعریف کرنا درست ہے۔ ➌ اچھی آواز والے قاری کی قرأت سننا مستحسن امر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1020