عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو عیدیں (عید اور جمعہ) اکٹھا ہو گئیں، تو آپ نے لوگوں کو عید پڑھائی، پھر فرمایا ”جو جمعہ کے لیے آنا چاہے آئے، اور جو نہ چاہے نہ آئے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7772، ومصباح الزجاجة: 462) (صحیح)» (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں دو راوی مندل و جبارہ ضعیف ہیں)
It was narrated that Ibn ‘Umar said:
“Two ‘Eid came together at the time of the Messenger of Allah (ﷺ), so he led the people in prayer, then he said: ‘Whoever wishes to come to Friday (prayer), let him come, and whoever wishes to stay behind, let him stay behind.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جبارة بن المغلس ضعيف (تقريب: 890) و مندل بن علي ضعيف و الحديث السابق (الأصل: 1310) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 423
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عید کے دن بارش ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید مسجد ہی میں پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 257 (1160)، (تحفة الأشراف: 14120) (ضعیف)» (اس کی سند میں عیسیٰ بن عبد الاعلی مجہول ہیں)
It was narrated that Abu Hurairah said:
“Rain fell on the day of ‘Eid at the time of the Messenger of Allah (ﷺ), so he led them in prayer in the mosque.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1160) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 423
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی شہروں میں عیدین کے دنوں میں ہتھیار باندھ کر جانے سے منع فرمایا، الا یہ کہ دشمن کا سامنا ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6508، ومصباح الزجاجة: 463) (ضعیف جدا)» (نائل بن نجیح کے حدیث کی کوئی اصل نہیں، نیز اسماعیل بن زیاد متروک راوی ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 5645)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن غسل کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6508، ومصباح الزجاجة: 464) (ضعیف جدا)» (یہ سند بہت ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں جبارہ ہیں، جن کی حدیثوں میں غفلت کی وجہ سے اضطراب ہے، نیز حجاج بن تمیم کی مروی حدیثوں کی کوئی متابعت نہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: 146، امام بزار کہتے ہیں کہ عید ین میں غسل کی کوئی صحیح حدیث مجھے یاد نہیں ہے، ملاحظہ ہو: التلخیص الحبیر2/61)
فاکہ بن سعد رضی اللہ عنہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف صحبت حاصل تھا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر، عید الاضحی اور عرفہ کے دن غسل فرمایا کرتے تھے اور فاکہ رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کو ان دنوں میں غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11020، ومصباح الزجاجة: 465)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/78) (موضوع)» (یوسف بن خالد متروک و کذاب ہے، حدیثیں گھڑتا تھا، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 416)
It was narrated from ‘Abdur-Rahman bin ‘Uqbah bin Fakih bin Sa’d, from his grandfather Fakih bin Sa’d, who was a Companion of the Prophet (ﷺ) that the Messenger of Allah (ﷺ) used to take a bath on the Day of Fitr, the Day of Nahr, and the day of ‘Arafah, and Fakih used to tell his family to have a bath on these days.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده موضوع يوسف بن خالد: زنديق كذاب،لا يكتب عنه شيء كما قال ابن معين رحمه اللّٰه (تاريخ ابن معين رواية الدوري: 3556) وعبد الرحمٰن بن عقبة: مجهول (تقريب:3956) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 423
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے تو امام کے تاخیر کرنے پر ناگواری کا اظہار کیا، اور کہنے لگے کہ ہم لوگ تو اس وقت عیدین کی نماز سے فارغ ہو جایا کرتے تھے، اور وہ وقت کراہت کے گزرنے کے بعد نماز الضحی (چاشت کی نفل) کا وقت ہوتا تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 246، (1135)، (تحفة الأشراف: 5206) (صحیح) (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں راوی عبد الوہاب بن ضحاک متروک ہیں)»
وضاحت: ۱؎: نفل فجر کے بعد اس وقت صحیح ہوتی ہے، جب سورج ایک نیزے کے مقدار بلند ہو جائے۔
Yazid bin Khumair narrated that ‘Abdullah bin Busr went out with the people on the Day of Fitr or Adha, and he objected to the Imam’s delay. He said:
“We would have finished by this time.” And that was the time of Tasbih.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو دو رکعت پڑھے، جب طلوع فجر کا ڈر ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «حدیث طاوس وسالم: أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین20 (749)، سنن النسائی/قیام اللیل24 (1668)، (تحفة الأشراف: 6830، 7099)، وحدیث عبد اللہ بن دینار عن ابن عمر تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 7176) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوتر 1 (990)، سنن ابی داود/الصلاة 314 (1326)، موطا امام مالک/صلاةاللیل 3 (13)، مسند احمد (2/49، 54، 66)، سنن الدارمی/الصلاة 154 (1499)، 155 (1500) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس ایک رکعت سے ساری نماز جو اس نے پڑھی ہے وتر ہو جائے گی، اور رات کی نماز کبھی وتر میں داخل ہوتی ہے جیسے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ سات رکعتیں وتر کی پڑھتے تھے، ان کے بیچ میں نہ سلام پھیرتے تھے، نہ بات کرتے تھے اور کبھی وتر الگ ہوتی ہے جیسے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، پانچ رکعتیں ان میں وتر کی ہوتیں، ان میں اخیر میں بیٹھتے، اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے، اور آٹھویں کے بعد بیٹھتے تھے پھر سلام پھیرتے تھے، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے تھے، تو کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، پھر اخیر عمر میں سات رکعتیں وتر کی پڑھنے لگے اور چھٹی یا ساتویں رکعت میں بیٹھتے تھے، اور ایک روایت میں ہے کہ سات رکعتیں پڑھیں، صرف آخری رکعت میں بیٹھے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ رمضان و غیر رمضان میں آٹھ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے، اور تین وتر کی پڑھتے تو کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، ابن حزم کہتے ہیں کہ احادیث میں رات کی نماز وتر سمیت تیرہ آئی ہے، اور ہر طرح سنت ہے۔
It was narrated that Ibn ‘Umar said:
“The Prophet (ﷺ) was asked about the night prayer. He said: ‘Pray two by two, and if you fear that dawn is coming, then perform Witr with one Rak’ah.’”