سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
167. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْعِيدِ فِي الْمَسْجِدِ إِذَا كَانَ مَطَرٌ
باب: بارش کی وجہ سے نماز عید مسجد میں پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1313
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ أَبِي فَرْوَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا يَحْيَى عُبَيْدَ اللَّهِ التَّيْمِيَّ ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" أَصَابَ النَّاسَ مَطَرٌ فِي يَوْمِ عِيدٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِهِمْ فِي الْمَسْجِدِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عید کے دن بارش ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید مسجد ہی میں پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 257 (1160)، (تحفة الأشراف: 14120) (ضعیف)» (اس کی سند میں عیسیٰ بن عبد الاعلی مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1160)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 423
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1313 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1313
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہ روایت معناً صحیح ہے۔
یعنی مسئلہ اسی طرح ہے۔
کہ عید کھلے میدان میں پڑھنا افضل ہے۔
تاہم اگر کوئی ایسی مجبوری ہو کہ باہر عید پڑھانا ناممکن ہو تو مسجد میں پڑھنا جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1313
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1160
´بارش کا دن ہو تو امام عید کی نماز لوگوں کو مسجد میں پڑھائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک بار) عید کے دن بارش ہونے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1160]
1160. اردو حاشیہ:
یہ حدیث معناً صحیح ہے، یعنی مسئلہ اس طرح ہے کہ عید کھلے میدان میں پڑھنا افضل ہے تاہم عذر ہو تو مسجد میں بھی جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1160
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 400
´نماز عیدین کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک موقع پر عید کے دن مسلمانوں کو بارش نے آ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔
اسے ابوداؤد نے کمزور سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 400»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب يصلي بالناس العيد في المسجد، حديث:1160، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1313.* عيسي بن عبدالأعلي مجهول (تقريب) وشيخه مستور، وله شاهد ضعيف عند البيهقي:3 /310.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح ہے‘ یعنی مسئلہ اسی طرح ہے کہ نماز عید کھلے میدان میں پڑھنا افضل ہے‘ تاہم معقول شرعی عذر کی وجہ سے مسجد میں نماز عید پڑھی جا سکتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عید باہر عیدگاہ میں جا کر ہی پڑھتے تھے۔
باران رحمت کی وجہ سے مسجد میں پڑھائی۔
2.مسئلے کی نوعیت اپنے مقام پر ہے مگر اس کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن عبدالاعلیٰ بن ابی فروہ مجہول ہے۔
اس وجہ سے یہ روایت باعتبار سند کمزور ہے۔
3.علماء میں اختلاف ہے کہ نماز عید وسیع و کشادہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا باہر نکل کر عیدگاہ میں؟ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وسیع و فراخ اور کشادہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر نماز عید باہر عیدگاہ میں ادا فرمائی ہے۔
ہاں‘ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے عذر پیش آگیا تو آپ نے نماز عید مسجد میں پڑھائی‘ اس لیے عیدگاہ میں پڑھنا افضل ہے۔
4. یہ بھی معلوم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع ہمیشہ افضل کام پر مداومت و محافظت فرمائی ہے‘ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ نماز عید کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اگر باہر نکل کر نماز عید پڑھنا مسنون نہ ہوتا تو میں مسجد میں پڑھتا‘ اس لیے عیدگاہ میں نماز پڑھنا ہی مسنون اور افضل ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 400