(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الارقم بن شرحبيل ، عن ابن عباس ، قال: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات فيه كان في بيت عائشة، فقال:" ادعوا لي عليا"، قالت عائشة: يا رسول الله، ندعو لك ابا بكر؟، قال:" ادعوه"، قالت حفصة: يا رسول الله، ندعو لك عمر؟ قال:" ادعوه"، قالت ام الفضل: يا رسول الله، ندعو لك العباس؟، قال:" نعم، فلما اجتمعوا رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه، فنظر فسكت"، فقال عمر: قوموا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جاء بلال يؤذنه بالصلاة، فقال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس"، فقالت عائشة: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل رقيق حصر، ومتى لا يراك يبكي، والناس يبكون، فلو امرت عمر يصلي بالناس، فخرج ابو بكر فصلى بالناس،" فوجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفسه خفة، فخرج يهادى بين رجلين ورجلاه تخطان في الارض، فلما رآه الناس سبحوا بابي بكر، فذهب ليستاخر، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم اي مكانك، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس عن يمينه، وقام ابو بكر، فكان ابو بكر ياتم بالنبي صلى الله عليه وسلم، والناس ياتمون بابي بكر"، قال ابن عباس:" واخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم من القراءة من حيث كان بلغ ابو بكر"، قال وكيع: وكذا السنة، قال: فمات رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه ذلك. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ كَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَقَالَ:" ادْعُوا لِي عَلِيًّا"، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ؟، قَالَ:" ادْعُوهُ"، قَالَتْ حَفْصَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَدْعُو لَكَ عُمَرَ؟ قَالَ:" ادْعُوهُ"، قَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَدْعُو لَكَ الْعَبَّاسَ؟، قَالَ:" نَعَمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ فَسَكَتَ"، فَقَالَ عُمَرُ: قُومُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ حَصِرٌ، وَمَتَى لَا يَرَاكَ يَبْكِي، وَالنَّاسُ يَبْكُونَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ،" فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ، فَلَمَّا رَآهُ النَّاسُ سَبَّحُوا بِأَبِي بَكْرٍ، فَذَهَبَ لِيَسْتَأْخِرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ مَكَانَكَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِهِ، وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقِرَاءَةِ مِنْ حَيْثُ كَانَ بَلَغَ أَبُو بَكْرٍ"، قَالَ وَكِيعٌ: وَكَذَا السُّنَّةُ، قَالَ: فَمَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی (رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں بلاؤ“ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا دیں؟ آپ نے فرمایا: ”بلا دو“، ام الفضل نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کو بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا، اور خاموش رہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ جاؤ ۱؎، پھر بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں، پڑھنے میں ان کی زبان رک جاتی ہے، اور جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو رونے لگیں گے، اور لوگ بھی رونا شروع کر دیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (تو بہتر ہو)، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نکلے، اور انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں پر ٹیک دے کر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو آتے دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو «سبحان الله» کہا، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف آئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب بیٹھ گئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے رہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت وہاں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تھے ۲؎۔ وکیع نے کہا: یہی سنت ہے، راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی مرض میں انتقال ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5358، ومصباح الزجاجة: 434)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/231، 232، 343، 355، 356، 357) (حسن)» (سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے «علی» کے ذکر کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن دوسری حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ بیماری کی وجہ سے آپ کو ہمارے بیٹھنے سے تکلیف ہو گی۔ ۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنی مرضی سے بلایا تھا، لیکن بیویوں کے اصرار سے اور لوگوں کو بھی بلا لیا تاکہ ان کا دل ناراض نہ ہو، اور چونکہ بہت سے لوگ جمع ہو گئے اس لئے آپ دل کی بات نہ کہنے پائے، اور سکوت فرمایا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور صحابہ پر ثابت ہوئی کہ آپ نے نماز کی امامت کے لئے ان کو منتخب فرمایا، اور امامت صغری قرینہ ہے امامت کبری کا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت میں شریک ہونا کیسا ضروری ہے کہ نبی اکرم ﷺ بیماری اور کمزوری کے باوجود حجرہ سے باہر مسجد تشریف لائے۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“When the Messenger of Allah (ﷺ) fell ill with what would be his final illness, he was in the house of ‘Aishah. He said: ‘Call ‘Ali for me.’ ‘Aishah said: ‘O Messenger of Allah, should we call Abu Bakr for you?’ He said: ‘Call him.’ Hafsah said: ‘O Messenger of Allah, should we call ‘Umar for you?’ He said: ‘Call him.’ Ummul-Fadl said: ‘O Messenger of Allah, should we call Al-‘Abbas for you?’ He said: ‘Yes.’ When they had gathered, the Messenger of Allah (ﷺ) lifted his head, looked and fell silent. ‘Umar said: ‘Get up and leave the Messenger of Allah (ﷺ).’ Then Bilal came to tell him that the time for prayer had come, and he said: ‘Tell Abu Bakr to lead the people in prayer.’ ‘Aishah said: ‘O Messenger of Allah, Abu Bakr is a soft and tender-hearted man, and if he does not see you, he will weep and the people will weep with him. If you tell ‘Umar to lead the people in prayer (that would be better).’ Abu Bakr went out and led the people in prayer, then the Messenger of Allah (ﷺ) felt a little better, so he came out, supported by two men, with his feet making lines along the ground. When the people saw him, they said: ‘Subhan-Allah,’ to alert Abu Bakr. He wanted to step back, but the Prophet (ﷺ) gestured him to stay where he was. Then the Messenger of Allah (ﷺ) came and sat on his right. Abu Bakr stood up and he was following the lead of the Prophet (ﷺ), and the people were following the lead of Abu Bakr. Ibn ‘Abbas said; ‘And the Messenger of Allah (ﷺ) started to recite from where Abu Bakr had reached.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن دون ذكر علي
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو إسحاق عنعن وللحديث شاهد ضعيف عند أحمد (209/1) والخبر مخالف لحديث البخاري (687) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 420
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن حميد ، عن بكر بن عبد الله ، عن حمزة بن المغيرة بن شعبة ، عن ابيه ، قال:" تخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانتهينا إلى القوم، وقد صلى بهم عبد الرحمن بن عوف ركعة، فلما احس بالنبي صلى الله عليه وسلم، ذهب يتاخر، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم ان يتم الصلاة، قال: وقد احسنت كذلك فافعل". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَوْمِ، وَقَدْ صَلَّى بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَكْعَةً، فَلَمَّا أَحَسَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتِمَّ الصَّلَاةَ، قَالَ: وَقَدْ أَحْسَنْتَ كَذَلِكَ فَافْعَلْ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک سفر میں) پیچھے رہ گئے، اور ہم اس وقت لوگوں کے پاس پہنچے جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ انہیں ایک رکعت پڑھا چکے تھے، جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز مکمل کرنے کا اشارہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اچھا کیا، ایسے ہی کیا کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب نماز کا وقت آ جایا کرے تو نماز شروع کر دیا کرو، اور میرے انتظار میں تاخیر نہ کرو، یہ حکم آپ ﷺ نے سفر میں دیا، لیکن حضر میں تو آپ ہر روز نماز کو افضل وقت پر پڑھا کرتے تھے، اور کبھی کبھی لوگ آپ کا انتظار بھی کرتے۔
Hamzah bin Mughirah bin Shu’bah narrated that his father said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) lagged behind (on a journey) and we reached the people when ‘Abdur Rahman bin ‘Awf had already led them in one Rak’ah of the prayer. When he realized that the Prophet (ﷺ) was there, he wanted to step back, but the Prophet (ﷺ) gestured to him that he should complete the prayer. He said: ‘You have done well, do the same in the future.’”
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل عليه ناس من اصحابه يعودونه، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم جالسا، فصلوا بصلاته قياما، فاشار إليهم ان اجلسوا، فلما انصرف، قال:" إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يَعُودُونَهُ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے، تو آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ آپ کی عیادت کے لیے اندر آئے، آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اپنا سر اٹھاؤ، اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو“۱؎۔
It was narrated that ‘Aishah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) fell ill and some of his Companions came to visit him. The Messenger of Allah (ﷺ) performed prayer while sitting down, and they prayed behind him standing up. He gestured them to sit down, and when he finished he said: ‘The Imam is appointed to be followed. When he bows, then bow; when he stands up again, then stand up, and if he prays sitting down then pray sitting down.’”
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن انس بن مالك ، ان النبي صلى الله عليه وسلم صرع عن فرس، فجحش شقه الايمن، فدخلنا نعوده، وحضرت الصلاة، فصلى بنا قاعدا، وصلينا وراءه قعودا، فلما قضى الصلاة، قال:" إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا صلى قاعدا، فصلوا قعودا اجمعين". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرِعَ عَنْ فَرَسٍ، فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ، فَدَخَلْنَا نَعُودُهُ، وَحَضَرَتَ الصَّلَاةُ، فَصَلَّى بِنَا قَاعِدًا، وَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا، فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعِينَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے، تو آپ کے دائیں جانب خراش آ گئی، ہم آپ کی عیادت کے لیے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ہم نے آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: ”امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ «الله أكبر» کہے، تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب «سمع الله لمن حمده» کہے، تو تم لوگ «ربنا ولك الحمد» کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم سب لوگ سجدہ کرو، اور جب بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب لوگ بیٹھ کر نماز پڑھو“۔
It was narrated from Anas bin Malik that the Prophet (ﷺ) fell from his horse and he suffered some lacerations on his right side. We went to visit him and the time for prayer came. He led us in prayer sitting down, and we prayed behind him sitting down. When he finished the prayer he said:
“The Imam is appointed to be followed. When he says Allahu Akbar, then say Allahu Akbar; when he bows, then bow; when he says Sami’ Allahu liman hamidah, then say Rabbana wa lakal-hamd; when he prostrates then prostrate; and if he prays sitting down then pray sitting down.”
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا هشيم بن بشير ، عن عمر بن ابي سلمة ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، وإن صلى قائما فصلوا قياما، وإن صلى قاعدا فصلوا قعودا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ «الله أكبر» کہے، تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم بھی «ربنا ولك الحمد» کہو، اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور اگر بیٹھ کر پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو“۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The Imam is appointed to be followed. When he says Allahu Akbar, then say Allahu Akbar; when he bows, then bow; when he says Sami’ Allahu liman hamidah, then say Rabbana wa lakal-hamd; when he prostrates then prostrate; if he prays standing, then pray standing, and if he prays sitting down then pray sitting down.”
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح المصري ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلينا وراءه وهو قاعد، وابو بكر يكبر يسمع الناس تكبيره، فالتفت إلينا، فرآنا قياما، فاشار إلينا فقعدنا، فصلينا بصلاته قعودا، فلما سلم، قال:" إن كدتم ان تفعلوا فعل فارس والروم، يقومون على ملوكهم وهم قعود، فلا تفعلوا، ائتموا بائمتكم إن صلى قائما فصلوا قياما، وإن صلى قاعدا فصلوا قعودا". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَأَبُو بَكْرٍ يُكَبِّرُ يُسْمِعُ النَّاسَ تَكْبِيرَهُ، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَرَآنَا قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْنَا فَقَعَدْنَا، فَصَلَّيْنَا بِصَلَاتِهِ قُعُودًا، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ:" إِنْ كِدْتُمْ أَنْ تَفْعَلُوا فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ، يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ، فَلَا تَفْعَلُوا، ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو ہم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ بیٹھے ہوئے تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ تکبیر کہہ رہے تھے تاکہ لوگ سن لیں، آپ ہماری جانب متوجہ ہوئے تو ہمیں کھڑے دیکھ کر ہماری جانب اشارہ کیا، ہم بیٹھ گئے، پھر ہم نے آپ کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: ”اس وقت تم فارس اور روم والوں کی طرح کرنے والے تھے کہ وہ لوگ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، اور بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں، لہٰذا تم ایسا نہ کرو، اپنے اماموں کی اقتداء کرو، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھائیں تو کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھائیں تو بیٹھ کر نماز پڑھو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ واقعہ مرض الموت والے واقعے سے پہلے کا ہے، مرض الموت والے واقعے میں ہے کہ آپ ﷺ نے بیٹھ کر امامت کرائی، اور لوگوں نے کھڑے ہو کر آپ کے پیچھے نماز پڑھی، اور آپ نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا، اس لئے یہ بات اب منسوخ ہو گئی، اور نماز میں آپ کا التفات کرنا آپ کی خصوصیات میں سے تھا، امت کے لئے آپ کا یہ فرمان ہے کہ التفات نماز میں چھینا جھپٹی کا نام ہے جو شیطان نمازی کے ساتھ کرتا ہے۔
It was narrated that Jabir said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) fell ill, and we prayed behind him while he was sitting down, and Abu Bakr was saying the Takbir so that the people could hear them. He turned to us and saw us standing, so he gestured to us to sit down. When he had said the Salam, he said: ‘You were about to do the action of the Persians and Romans, who remain standing while their kings are seated. Do not do that. Follow the lead of your Imam; if he prays standing, then pray standing, and if he prays sitting down, then pray sitting down.’”
ابومالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ابوبکرو عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے اور کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، تو کیا وہ لوگ نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: بیٹے یہ نئی بات ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: خاص خاص موقوں پر فجر کی نماز میں اور دوسری نمازوں میں بھی قنوت پڑھنا مسنون ہے۔ اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ جن لوگوں نے قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کر دیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھی جیسے کہ آگے حدیث ۱۲۴۳ میں آ رہا ہے۔ طارق رضی اللہ عنہ نے مطلقاً قنوت کو بدعت نہیں کہا بلکہ فجر کی نماز میں قنوت ہمیشہ پرھنے کو بدعت کہا، اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات ایک کام اصل میں سنت ہوتا ہے لیکن اسے غلط طریقے سے انجام دینے سے یا اس کو اس کی اصل حیثیت سے گھٹا دینے سے یا بڑھا دینے کی وجہ سے وہ بدعت بن جاتا ہے، یعنی اس عمل کی وہ خاص کیفیت بدعت ہوتی ہے اگرچہ اصل عمل بدعت نہ ہو۔
Sa’d bin Tariq said:
“I said to my father: ‘O my father! You prayed behind the Messenger of Allah (ﷺ) and behind Abu Bakr, ‘Umar and ‘Uthman, and behind ‘Ali here in Kufah for about five years. Did they recite Qunut in Fajr?’ He said: ‘O my son! That is an innovation.’”
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے سے منع کر دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: 18219، ومصباح الزجاجة: 435) (موضوع)» (محمد بن یعلی متروک الحدیث اور جہمی ہے، اور عنبسہ حدیث گھڑا کرتا تھا، اور عبد اللہ بن نافع منکر احادیث کے راوی ہیں، نیز نافع کا سماع ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے صحیح نہیں ہے)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے رہے، اور عرب کے ایک قبیلہ (قبیلہ مضر پر) ایک مہینہ تک بد دعا کرتے رہے، پھر اسے آپ نے ترک کر دیا ۱؎۔
It was narrated from Anas bin Malik that the Messenger of Allah (ﷺ) used to recite Qunut in the Subh prayer, and he used to supplicate in it against one of the Arab tribes for a month, then he stopped doing so.
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، قال: لما رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه من صلاة الصبح، قال:" اللهم انج الوليد بن الوليد، وسلمة بن هشام، وعياش بن ابي ربيعة، بمكة، اللهم اشدد وطاتك على مضر، واجعلها عليهم سنين كسني يوسف". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: لَمَّا رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، بِمَكَّةَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے: «اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين بمكة اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف»”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ! تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کر دے، اور یوسف علیہ السلام کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کر دے) ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جیسے سالہا سال یوسف علیہ السلام کے عہد میں مصر میں گزرے تھے کہ پانی بالکل نہیں برسا اور قحط ہو گیا، ویسا ہی کفار مضر پر قحط بھیج تاکہ یہ بھوک سے تباہ و برباد ہو جائیں۔ دوسری روایت میں دعاء قنوت یوں وارد ہے: «اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات و المسلمين و المسلمات، و ألف بين قلوبهم، و أصلح ذات بينهم، وانصرهم على عدوك وعدوهم، اللهم العن الكفرة الذين يصدون عن سبيلك، ويكذبون رسلك، ويقاتلون أوليائك، اللهم خالف بين كلمتهم، و زلزل أقدامهم، و أنزل بهم بأسك الذي لاترده عن القوم المجرمين» ۔ جب کافر مسلمانوں کو ستائیں یا مسلمانوں پر کوئی آفت کافروں کی طرف سے آئے تو اس دعاء قنوت کو پڑھے، اور اس کے بعد یوں کہے: «اللهم أنج فلانا وفلانا» اور فلاں کی جگہ ان مسلمانوں کا نام لے جن کا چھڑانا کافروں سے مطلوب ہو۔ «والمستضعفين بمكة» میں مکہ کی جگہ پر اس کا نام لے جہاں یہ مسلمان کافروں کے ہاتھ سے تکلیف اٹھا رہے ہوں۔ «اللهم اشدد وطأتك على مضر» کی جگہ بھی ان کافروں کا نام لے جو مسلمانوں کو تکلیف دیتے ہیں۔ حدیث میں ولید، سلمہ اور عیاش رضی اللہ عنہم کے لئے آپ ﷺ نے دعا کی، یہ سب مسلمان ہو گئے تھے لیکن مکہ میں ابوجہل اور دوسرے کافروں نے ان کو سخت قید اور تکلیف میں رکھا تھا۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“When the Messenger of Allah (ﷺ) raised his head from Ruku’ in the Subh prayer, he said: ‘O Allah, save Al-Walid bin Walid, Salamah bin Hisham and ‘Ayyash bin Abu Rabi’ah, and the oppressed in Makkah. O Allah, tighten Your grip on Mudar, and send them years of famine like the famine of Yusuf.”