ابومالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ابوبکرو عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے اور کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، تو کیا وہ لوگ نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: بیٹے یہ نئی بات ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: خاص خاص موقوں پر فجر کی نماز میں اور دوسری نمازوں میں بھی قنوت پڑھنا مسنون ہے۔ اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ جن لوگوں نے قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کر دیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھی جیسے کہ آگے حدیث ۱۲۴۳ میں آ رہا ہے۔ طارق رضی اللہ عنہ نے مطلقاً قنوت کو بدعت نہیں کہا بلکہ فجر کی نماز میں قنوت ہمیشہ پرھنے کو بدعت کہا، اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات ایک کام اصل میں سنت ہوتا ہے لیکن اسے غلط طریقے سے انجام دینے سے یا اس کو اس کی اصل حیثیت سے گھٹا دینے سے یا بڑھا دینے کی وجہ سے وہ بدعت بن جاتا ہے، یعنی اس عمل کی وہ خاص کیفیت بدعت ہوتی ہے اگرچہ اصل عمل بدعت نہ ہو۔
Sa’d bin Tariq said:
“I said to my father: ‘O my father! You prayed behind the Messenger of Allah (ﷺ) and behind Abu Bakr, ‘Umar and ‘Uthman, and behind ‘Ali here in Kufah for about five years. Did they recite Qunut in Fajr?’ He said: ‘O my son! That is an innovation.’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1241
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) خاص خاص موقعوں پر فجر کی نماز میں اور دوسری نمازوں میں بھی قنوت پڑھنا مسنون ہے اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ جن لوگوں نے قراء صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کو بلا کر دھوکے سے شہید کردیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھی۔ جیسے کہ حدیث: 1243 میں آ رہا ہے۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، باب من ینکب أو یطعن فی سبیل اللہ، حديث: 2801)
(2) حضرت طارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مطلقاً قنوت کو بدعت نہیں کہا بلکہ فجر کی نماز میں قنوت ہمیشہ پڑھنے کو بدعت کہا۔ اس سے معلو م ہواکہ ایک کام اصل میں سنت ہوتا ہے۔ لیکن اسے غلط طریقے سے انجام دینے یا اس کو اس کی اصل حیثیت سے گھٹا بڑھا دینے کی وجہ سے وہ بدعت بن جاتا ہے۔ یعنی اس عمل کی وہ خاص کیفیت بدعت ہوتی ہے۔ اگرچہ اصل عمل بدعت نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1241
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 243
´نماز کی صفت کا بیان` «. . . وعن سعد بن طارق الأشجعي رضي الله عنه قال: قلت لأبي: يا أبت إنك قد صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان وعلي أفكانوا يقنتون في الفجر؟ قال: أي بني محدث. رواه الخمسة إلا أبا داود. . . .» ”. . . سیدنا سعد بن طارق اشجعی رحمہ اللہ سے مروی ہے (کہتے ہیں کہ)” میں نے اپنے والد سے استفسار کیا کہ ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ کیا یہ سب نماز فجر میں قنوت پڑھا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ بیٹا! یہ نئی بات ہے۔“ اس کو ابوداؤد کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے۔ . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 243]
لغوی تشریح: «أَيْ بُنَيَّ» «أَيْ» حرف ندا ہے اور «بُنَيَّ» کے ”با“ پر ضمہ اور ”یا“ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ ”ابن“ کی تصغیر ہے اور یائے متکلم کی طرف مضاف ہے۔ اور اس کے معنی ہیں: اے میرے بیٹے! «مُحْدَثٌ» إحداث سے اسم مفعول ہے، یعنی گھڑی ہوئی، خود ساختہ (بدعت) جو دور رسالت میں موجود نہیں تھی، چنانچہ اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ قنوت نازلہ بسا اوقات پڑھنا ثابت ہے، اس پر دوام اور ہمیشگی ثابت نہیں۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث کی روشنی میں یہ استدلال کرنا کہ نماز میں قنوت پڑھنا بدعت ہے درست نہیں۔ ➋ سیدنا طارق نے مطلقا قنوت کو بدعت نہیں کہا بلکہ فجر کی نماز میں قنوت ہمیشہ پڑھنے کو بدعت کہا۔ ➌ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات ایک کام اصل میں سنت ہوتا ہے لیکن اسے غلط طریقے سے انجام دینے یا اسے اس کی اصل حیثیت سے گھٹا بڑھا دینے کی وجہ سے وہ بدعت بن جاتا ہے، یعنی اس عمل کی وہ خاص کیفیت بدعت ہوتی ہے اگرچہ اصل عمل بدعت نہ ہو۔
راوئ حدیث: (سیدنا سعد رحمہ اللہ) پورا نام بن طارق بن اشیم (احمر کے وزن پر) بن مسعود اشجعی کوفی ہے۔ ان کی کنیت ابومالک تھی۔ ثقہ تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ 140 ہجری کے آخر میں فوت ہوئے۔ (سیدنا طارق اشجعی رضی اللہ عنہ) : طارق بن أُشْیّم بن مسعد اشجعی کوفی۔ مشہور صحابی ہیں۔ قلیل الحدیث ہیں۔ ان سے صرف چودہ احادیث نقل کی گئی ہیں۔ اور ان کے بیٹے سعد کے علاوہ ان سے کسی نے روایت نہیں کی۔ کوفیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 243
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1081
´قنوت (قنوت نازلہ) چھوڑ دینے کا بیان۔` ابو مالک اشجعی (سعد) اپنے والد (طارق بن اشیم) سے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے دعائے قنوت نہیں پڑھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی دعائے قنوت نہیں پڑھی، عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی دعائے قنوت نہیں پڑھی، عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی دعائے قنوت نہیں پڑھی، اور علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی دعائے قنوت نہیں پڑھی، پھر انہوں نے کہا: میرے بیٹے! یہ (یعنی: مداومت) بدعت ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1081]
1081۔ اردو حاشیہ: ان صحابی کے علم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا قنوت فرمانا نہیں آسکا، اس لیے انہوں نے اسے بدعت قرار دیا۔ یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ قنوت پر دوام بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوقت ضرورت قنوت نازلہ پڑھتے تھے۔ (مزید دیکھیے، حدیث: 1077)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1081
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 402
´قنوت نہ پڑھنے کا بیان۔` ابو مالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (طارق بن اشیم رضی الله عنہ) سے عرض کیا: ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور علی رضی الله عنہ کے پیچھے بھی یہاں کوفہ میں تقریباً پانچ برس تک پڑھی ہے، کیا یہ لوگ (برابر) قنوت (قنوت نازلہ) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے! یہ بدعت ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 402]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی: اس میں برابر پڑھنا مراد ہے نہ کہ مطلق پڑھنا بدعت مقصود ہے، کیونکہ بوقت ضرورت قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ گزرا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 402