(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن حميد ، عن بكر بن عبد الله ، عن حمزة بن المغيرة بن شعبة ، عن ابيه ، قال:" تخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانتهينا إلى القوم، وقد صلى بهم عبد الرحمن بن عوف ركعة، فلما احس بالنبي صلى الله عليه وسلم، ذهب يتاخر، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم ان يتم الصلاة، قال: وقد احسنت كذلك فافعل". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَوْمِ، وَقَدْ صَلَّى بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَكْعَةً، فَلَمَّا أَحَسَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتِمَّ الصَّلَاةَ، قَالَ: وَقَدْ أَحْسَنْتَ كَذَلِكَ فَافْعَلْ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک سفر میں) پیچھے رہ گئے، اور ہم اس وقت لوگوں کے پاس پہنچے جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ انہیں ایک رکعت پڑھا چکے تھے، جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز مکمل کرنے کا اشارہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اچھا کیا، ایسے ہی کیا کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب نماز کا وقت آ جایا کرے تو نماز شروع کر دیا کرو، اور میرے انتظار میں تاخیر نہ کرو، یہ حکم آپ ﷺ نے سفر میں دیا، لیکن حضر میں تو آپ ہر روز نماز کو افضل وقت پر پڑھا کرتے تھے، اور کبھی کبھی لوگ آپ کا انتظار بھی کرتے۔
Hamzah bin Mughirah bin Shu’bah narrated that his father said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) lagged behind (on a journey) and we reached the people when ‘Abdur Rahman bin ‘Awf had already led them in one Rak’ah of the prayer. When he realized that the Prophet (ﷺ) was there, he wanted to step back, but the Prophet (ﷺ) gestured to him that he should complete the prayer. He said: ‘You have done well, do the same in the future.’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1236
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ واقعہ غزوہ تبوک کے سفر پر پیش آیا تھا۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے قافلے سے دور چلے گئے تھے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کا برتن لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے۔ جب واپس آئے تو فجر کی نماز کھڑی ہوچکی تھی۔ اور ایک ر کعت پڑھی جا چکی تھی۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب تقدیم الجماعة من یصلی بھم اذا تأخر الإمام، حدیث: 374 قبل حدیث 422)
(3) دوسری نمازوں میں خصوصاً نماز عشاء میں صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے تھے۔ لیکن نماز فجر کوانھوں نے اوّل وقت ادا کرنے کواہمیت دی۔ ممکن ہے اس لئے نماز شروع کردی گئی ہوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم نہ تھا کہ جلدی تشریف لے آئیں گے یا مزید تأخیر ہوگی۔
(4) مقرر امام اگر کسی وجہ سے لیٹ ہوجائے تو کسی دوسرے آدمی کو امام بنا کر نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ لیکن بہتر ہے چند منٹ انتظار کر لیا جائے۔
(5) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نےمحسوس کیا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذید انتظار نہ کرکے غلطی کی ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تسلی دی کہ وقت پر نماز پڑھنے کو اہمیت دینا درست تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1236