(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من توضا فاحسن الوضوء، ثم اتى الجمعة فدنا وانصت واستمع، غفر له ما بينه وبين الجمعة الاخرى، وزيادة ثلاثة ايام، ومن مس الحصى فقد لغا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَدَنَا وَأَنْصَتَ وَاسْتَمَعَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر جمعہ کے لیے آیا اور امام سے قریب بیٹھ کر خاموشی سے خطبہ سنا، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئیے جائیں گے، اور جس نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا اس نے لغو حرکت کی“۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever performs ablution and performs ablution well, then comes to Friday (prayer) and sits near (the Imam), and keeps quiet and listens, he will be forgiven for what was between that and the previous Friday (of sins), and three days more. And whoever touches the pebbles then he has engaged in Laghw (idle talk or behaviour).”
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو یہ بڑی اچھی بات ہے، اس سے فریضہ ادا ہو جائے گا، اور جس نے غسل کیا تو غسل زیادہ بہتر ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1682، ومصباح الزجاجة: 384) (صحیح)» (اس کی سند میں یزید بن ابان ضعیف ہیں، اس لئے حدیث میں وارد یہ ٹکڑا «يجزئ عنه الفريضة» صحیح نہیں ہے، بقیہ حدیث دوسرے شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 540)۔
وضاحت: ۱؎: «فبها» کا مطلب ہے «فباالرخصة أخذ» یعنی اس نے رخصت کو اختیار کیا ہے اور نعمت کا مطلب «هي الرخصة» یعنی یہ رخصت خوب ہے، اس حدیث سے جمعہ کے غسل کے واجب نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ایک تو وضو پر اکتفا کرنے کی رخصت دی گئی ہے، اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے غسل نہ کر نے کی اجازت نکلتی ہے۔
It was narrated from Anas bin Malik that the Prophet (ﷺ) said:
“Whoever performs ablution on Friday, it is well and good for him, and he has done what is obligatory for him. But whoever takes a bath, bath is better.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح دون يجزىء عنه الفريضة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسماعيل بن مسلم المكي: ضعيف ويزيد الرقاشي: ضعيف وحديث أبي داود (354) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 416
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، وسهل بن ابي سهل ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من ابواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على قدر منازلهم، الاول فالاول، فإذا خرج الإمام طووا الصحف واستمعوا الخطبة، فالمهجر إلى الصلاة كالمهدي بدنة، ثم الذي يليه كمهدي بقرة، ثم الذي يليه كمهدي كبش، حتى ذكر الدجاجة والبيضة"، زاد سهل في حديثه: فمن جاء بعد ذلك فإنما يجيء بحق إلى الصلاة. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ مَلَائِكَةٌ يَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ مَنَازِلِهِمْ، الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا الصُّحُفَ وَاسْتَمَعُوا الْخُطْبَةَ، فَالْمُهَجِّرُ إِلَى الصَّلَاةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَمُهْدِي بَقَرَةٍ، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَمُهْدِي كَبْشٍ، حَتَّى ذَكَرَ الدَّجَاجَةَ وَالْبَيْضَةَ"، زَادَ سَهْلٌ فِي حَدِيثِهِ: فَمَنْ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ فَإِنَّمَا يَجِيءُ بِحَقٍّ إِلَى الصَّلَاةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے متعین ہوتے ہیں، وہ لوگوں کے نام ان کے درجات کے مطابق لکھتے رہتے ہیں، جو پہلے آتے ہیں ان کا نام پہلے (ترتیب وار) لکھتے ہیں، اور جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں، لہٰذا جمعہ کے لیے سویرے جانے والا ایک اونٹ قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا گائے قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا مینڈھا قربان کرنے والے کے مانند ہے“ یہاں تک کہ آپ نے مرغی اور انڈے (کی قربانی) کا بھی ذکر فرمایا اور سہل نے اپنی حدیث میں اتنا زیادہ بیان کیا کہ جو کوئی اس کے (خطبہ شروع ہو چکنے کے) بعد آئے تو وہ صرف اپنا فریضہ نماز ادا کرنے کے لیے آیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجمعة 7 (850)، سنن النسائی/الإمامة 59 (865)، الجمعة 13 (1386)، (تحفة الأشراف: 13138، ومصباح الزجاجة: 385)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة، 31 (929)، بدء الخلق 6 (3211)، سنن الترمذی/الجمعة 6 (499)، موطا امام مالک/الجمعة 1 (1)، مسند احمد (2/239، 259، 280، 505، 512)، سنن الدارمی/الصلاة 3 9 1 (1585) (صحیح)» (صرف ابن ماجہ میں «قدر منازلهم» کا لفظ ہے، دوسروں نے یہ لفظ نہیں ذکر کیا ہے)
وضاحت: ۱؎: اور فرض ادا کرنے کے لئے آنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ عذاب سے بچ جائے گا، لیکن اس کو ثواب اور درجے نہ ملیں گے جیسے ان لوگوں کو ملتے ہیں جو سویرے آتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے لیے جو جتنا جلدی مسجد میں پہنچے گا اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا، اور جتنی دیر کر ے گا اتنے ہی اس کے ثواب میں کمی آتی جائے گی۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“When Friday comes, angels stand at every door of the mosque and record the names of the people who come, in order of arrival. When the Imam comes out, they close their records and listen to the sermon. The first one who comes to the prayer is like one who sacrifices a camel; the one who comes after him is like one who sacrifices a cow; the one who comes after him is like one who sacrifices a ram,” (and so on) until he made mention of a hen and an egg. Sahl added in his Hadith: “And whoever comes after that comes only to do his duty with regard to the prayer.”
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ اور جمعہ کے لیے سویرے آنے والے کی مثال اونٹ قربان کرنے والے، گائے قربان کرنے والے اور بکری قربان کرنے والے کی بیان فرمائی ہے، یہاں تک کہ مرغی (کی قربانی) کا بھی ذکر فرمایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4607، ومصباح الزجاجة: 386) (حسن صحیح)» (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں سعید بن بشیر ضعیف ہیں، نیز حسن بصری کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے عقیقہ والی حدیث کے علاوہ ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة: 390، بتحقیق الشہری)
It was narrated from Samurah bin Jundab that the Messenger of Allah (ﷺ) described the likeness of Friday, saying that those who come earliest are like the one who sacrifices a camel, then like one who sacrifices a cow, then like one who sacrifices a sheep, until he made mention of a chicken.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن بشير ضعيف و قتادة عنعن إن صح السند إليه و الحديث السابق (الأصل: 1092) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 416
(مرفوع) حدثنا كثير بن عبيد الحمصي ، حدثنا عبد المجيد بن عبد العزيز ، عن معمر ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: خرجت مع عبد الله إلى الجمعة، فوجد ثلاثة وقد سبقوه، فقال: رابع اربعة، وما رابع اربعة ببعيد، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الناس يجلسون من الله يوم القيامة على قدر رواحهم إلى الجمعات، الاول والثاني والثالث، ثم قال: رابع اربعة، وما رابع اربعة ببعيد". (مرفوع) حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَوَجَدَ ثَلَاثَةً وَقَدْ سَبَقُوهُ، فَقَالَ: رَابِعُ أَرْبَعَةٍ، وَمَا رَابِعُ أَرْبَعَةٍ بِبَعِيدٍ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ النَّاسَ يَجْلِسُونَ مِنَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى قَدْرِ رَوَاحِهِمْ إِلَى الْجُمُعَاتِ، الْأَوَّلَ وَالثَّانِيَ وَالثَّالِثَ، ثُمَّ قَالَ: رَابِعُ أَرْبَعَةٍ، وَمَا رَابِعُ أَرْبَعَةٍ بِبَعِيدٍ".
علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کے لیے نکلا، انہوں نے تین آدمیوں کو دیکھا جو ان سے آگے بڑھ گئے تھے، تو کہا: میں چار میں سے چوتھا ہوں اور چار میں سے چوتھا کچھ دور نہیں ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس اسی ترتیب سے بیٹھیں گے جس ترتیب سے جمعہ کے لیے پہلے اور بعد میں جاتے رہتے ہیں، جمعہ کے لیے پہلے جانے والا وہاں بھی پہلے درجہ میں دوسرا دوسرے درجہ میں اور تیسرا تیسرے درجہ میں“ پھر کہا: چار میں سے چوتھا اور چار میں سے چوتھا کچھ دور نہیں ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9439، ومصباح الزجاجة: 387) (ضعیف)» (اس حدیث کی سند میں عبد المجید بن عبد العزیز بن أبی رواد ہیں، جو صدوق روای ہیں لیکن خطاء کرتے ہیں، ان کی طرف سے اس حدیث میں اضطراب ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2810)
وضاحت: ۱؎: ”چار میں کا چوتھا کچھ دور نہیں ہے“ یعنی اپنے نفس کو دیر میں آنے پر تنبیہ کی اور اس کو دھمکایا، اور بعضوں نے کہا: اپنے نفس کو تسلی دی کہ تین ہی آدمیوں سے پیچھے رہا، اور اپنے مالک سے قرب میں چوتھے درجہ میں ہوا، اور یہ درجہ بھی غنیمت ہے چنداں دور نہیں ہے۔
It was narrated that ‘Alqamah said:
“I went out with ‘Abdullah to Friday (prayer), and he found three men who arrived before him. He said: ‘The fourth of four, and the fourth of four is not far away. I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “On the Day of Resurrection people will gather near Allah according to how early they came to Friday (prayer), the first, second, and third.’” Then he said: ‘The fourth of four, and the fourth of four is not far away.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الأعمش عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 416
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن منبر پہ فرماتے ہوئے سنا: ”کیا اچھا ہوتا کہ تم میں سے ہر شخص جمعہ کے لیے اپنے عام استعمال کے کپڑوں کے علاوہ دو کپڑے خرید لے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عام کپڑے اکثر میلے کچیلے یا کم قیمت کے ہوتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جمعہ کا احترام اور اس کی عزت و توقیر کرے، اور اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ اور صاف ستھرے کپڑے پہنے، جیسے کوئی حاکم اور امیر کے دربار میں جاتے وقت اچھا لباس پہننے اور زیب و زینت کا خیال رکھتا ہے۔
It was narrated from ‘Abdullah bin Salam that he heard the Messenger of Allah (ﷺ) saying on the pulpit one Friday:
“There is nothing wrong with anyone of you buying two garments for Friday (prayer), other than his daily work clothes.” (Another chain) from Yusuf bin Abdullah bin Salam that his father said: "The Prophet delivered a sermon to us" and he mentioned that.
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عمرو بن ابي سلمة ، عن زهير ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب الناس يوم الجمعة، فراى عليهم ثياب النمار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما على احدكم إن وجد سعة ان يتخذ ثوبين لجمعته سوى ثوبي مهنته". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ زُهَيْرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَرَأَى عَلَيْهِمْ ثِيَابَ النِّمَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدَ سَعَةً أَنْ يَتَّخِذَ ثَوْبَيْنِ لِجُمُعَتِهِ سِوَى ثَوْبَيْ مِهْنَتِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھاری دار چادریں پہنے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا مشکل ہے کہ تم میں سے جو صاحب وسعت ہو وہ جمعہ کے لیے اپنے عام کپڑے کے علاوہ دوسرے دو کپڑے بنا لے“۔
It was narrated from ‘Aishah that the Prophet (ﷺ) delivered a sermon to the people one Friday, and he saw them wearing woollen clothes. The Messenger of Allah (ﷺ) said:
“There is nothing wrong with any one of you, if he can afford it, buying two garments for Friday, other than his daily work clothes.”
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اچھی طرح وضو کیا، سب سے اچھا کپڑا پہنا، اور اس کے گھر والوں کو اللہ نے جو خوشبو میسر کی اسے لگایا، پھر جمعہ کے لیے آیا اور کوئی لغو اور بیکار کام نہیں کیا، اور دو مل کر بیٹھنے والوں کو الگ الگ کر کے بیچ میں نہیں گھسا ۱؎ تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11959، ومصباح الزجاجة: 389)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/177، 180) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے نہیں گیا۔
It was narrated from Abu Dharr that the Prophet (ﷺ) said:
“Whoever takes a bath on a Friday and does it well, and purifies himself and does it well, and puts on his best clothes, and puts on whatever Allah decrees for him of the perfume of his family, then comes to the mosque and does not engage in idle talk or separate (pushing between) two people; he will be forgiven for (his sins) between that day and the previous Friday.”
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسے عید کا دن قرار دیا ہے، لہٰذا جو کوئی جمعہ کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے، اور تم لوگ اپنے اوپر مسواک کو لازم کر لو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5870، ومصباح الزجاجة: 390)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 32 (113) (حسن)» (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں علی بن غراب اور صالح بن ابی الأخضر ضعیف ہیں، منذری نے اس کو حسن کہا ہے، الترغیب و الترہیب 1/498، نیز ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة: 394 بتحقیق الشہری)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ غسل نماز جمعہ کے لئے مسنون ہے نہ کہ جمعہ کے دن کے لئے، اور بعضوں نے کہا: جمعہ کے دن کے لئے مسنون ہے، پس جس پر جمعہ فرض نہ ہو، جیسے عورت، مریض، مسافر یا نابالغ اور وہ جمعہ کی نماز کے لئے آنے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو اس کو بھی غسل کرنا مستحب ہو گا، اور پہلے قول کے لحاظ سے جن پر جمعہ فرض نہیں ہے ان پر غسل نہیں ہے۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘This day is an ‘Eid (festival) which Allah has ordained for the Muslims. Whoever comes to Friday (prayer), let him take a bath and if he has perfume then let him put some on. And upon you (I urge to use) is the tooth stick.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف سنده ضعيف صالح بن أبي الأخضر لينه الجمهور و علي بن غراب والزهري مدلسان و عنعنا إن صح السند إلي الزهري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 535