(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، وسهل بن ابي سهل ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من ابواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على قدر منازلهم، الاول فالاول، فإذا خرج الإمام طووا الصحف واستمعوا الخطبة، فالمهجر إلى الصلاة كالمهدي بدنة، ثم الذي يليه كمهدي بقرة، ثم الذي يليه كمهدي كبش، حتى ذكر الدجاجة والبيضة"، زاد سهل في حديثه: فمن جاء بعد ذلك فإنما يجيء بحق إلى الصلاة. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ مَلَائِكَةٌ يَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ مَنَازِلِهِمْ، الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا الصُّحُفَ وَاسْتَمَعُوا الْخُطْبَةَ، فَالْمُهَجِّرُ إِلَى الصَّلَاةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَمُهْدِي بَقَرَةٍ، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَمُهْدِي كَبْشٍ، حَتَّى ذَكَرَ الدَّجَاجَةَ وَالْبَيْضَةَ"، زَادَ سَهْلٌ فِي حَدِيثِهِ: فَمَنْ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ فَإِنَّمَا يَجِيءُ بِحَقٍّ إِلَى الصَّلَاةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے متعین ہوتے ہیں، وہ لوگوں کے نام ان کے درجات کے مطابق لکھتے رہتے ہیں، جو پہلے آتے ہیں ان کا نام پہلے (ترتیب وار) لکھتے ہیں، اور جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں، لہٰذا جمعہ کے لیے سویرے جانے والا ایک اونٹ قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا گائے قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا مینڈھا قربان کرنے والے کے مانند ہے“ یہاں تک کہ آپ نے مرغی اور انڈے (کی قربانی) کا بھی ذکر فرمایا اور سہل نے اپنی حدیث میں اتنا زیادہ بیان کیا کہ جو کوئی اس کے (خطبہ شروع ہو چکنے کے) بعد آئے تو وہ صرف اپنا فریضہ نماز ادا کرنے کے لیے آیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اور فرض ادا کرنے کے لئے آنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ عذاب سے بچ جائے گا، لیکن اس کو ثواب اور درجے نہ ملیں گے جیسے ان لوگوں کو ملتے ہیں جو سویرے آتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے لیے جو جتنا جلدی مسجد میں پہنچے گا اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا، اور جتنی دیر کر ے گا اتنے ہی اس کے ثواب میں کمی آتی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجمعة 7 (850)، سنن النسائی/الإمامة 59 (865)، الجمعة 13 (1386)، (تحفة الأشراف: 13138، ومصباح الزجاجة: 385)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة، 31 (929)، بدء الخلق 6 (3211)، سنن الترمذی/الجمعة 6 (499)، موطا امام مالک/الجمعة 1 (1)، مسند احمد (2/239، 259، 280، 505، 512)، سنن الدارمی/الصلاة 3 9 1 (1585) (صحیح)» (صرف ابن ماجہ میں «قدر منازلهم» کا لفظ ہے، دوسروں نے یہ لفظ نہیں ذکر کیا ہے)
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“When Friday comes, angels stand at every door of the mosque and record the names of the people who come, in order of arrival. When the Imam comes out, they close their records and listen to the sermon. The first one who comes to the prayer is like one who sacrifices a camel; the one who comes after him is like one who sacrifices a cow; the one who comes after him is like one who sacrifices a ram,” (and so on) until he made mention of a hen and an egg. Sahl added in his Hadith: “And whoever comes after that comes only to do his duty with regard to the prayer.”
إذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الأول فالأول ومثل المهجر كمثل الذي يهدي بدنة ثم كالذي يهدي بقرة ثم كبشا ثم دجاجة ثم بيضة فإذا خرج الإمام طووا صحفهم ويستمعون الذكر
إذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الأول فالأول فإذا جلس الإمام طووا الصحف وجاءوا يستمعون الذكر ومثل المهجر كمثل الذي يهدي البدنة ثم كالذي يهدي بقرة ثم كالذي يهدي الكبش ثم كالذي يهدي الدجاجة ثم كالذي يهدي البيضة
إنما مثل المهجر إلى الصلاة كمثل الذي يهدي البدنة ثم الذي على إثره كالذي يهدي البقرة ثم الذي على إثره كالذي يهدي الكبش ثم الذي على إثره كالذي يهدي الدجاجة ثم الذي على إثره كالذي يهدي البيضة
تقعد الملائكة يوم الجمعة على أبواب المسجد يكتبون الناس على منازلهم فالناس فيه كرجل قدم بدنة وكرجل قدم بقرة وكرجل قدم شاة وكرجل قدم دجاجة وكرجل قدم عصفورا وكرجل قدم بيضة
إذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على منازلهم الأول فالأول فإذا خرج الإمام طويت الصحف واستمعوا الخطبة فالمهجر إلى الصلاة كالمهدي بدنة ثم الذي يليه كالمهدي بقرة ثم الذي يليه كالمهدي كبشا حتى ذكر الدجاجة والبيضة
إذا كان يوم الجمعة قعدت الملائكة على أبواب المسجد فكتبوا من جاء إلى الجمعة فإذا خرج الإمام طوت الملائكة الصحف قال فقال رسول الله المهجر إلى الجمعة كالمهدي بدنة ثم كالمهدي بقرة ثم كالمهدي شاة ثم كالمهدي بطة ثم كالمهدي دجاجة ثم كالمهدي
إذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على قدر منازلهم الأول فالأول فإذا خرج الإمام طووا الصحف واستمعوا الخطبة فالمهجر إلى الصلاة كالمهدي بدنة ثم الذي يليه كمهدي بقرة ثم الذي يليه كمهدي كبش حتى ذكر الدجاجة والبيضة
إذا كان يوم الجمعة، كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على منازلهم، الأول فالأول، فإذا خرج الإمام طويت الصحف، واستمعوا الخطبة، فالمهجر إلى الجمعة كالمهدي بدنة، ثم الذي يليه كالمهدي بقرة، ثم الذي يليه كالمهدي كبشا، حتى ذكر الدجاجة والبيضة
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1092
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) اللہ کے ہاں نماز جمعہ کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے۔ کہ اس میں حاضر ہونے والوں کے نام لکھنے کےلئے خاص طور پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔
(2) پہلے آنے والوں کا درجہ بھی اللہ کے ہاں زیادہ ہے۔ اس لئے ان کا ثواب بھی زیادہ ہے۔
(3) یہ خاص ثواب ان لوگوں کو ملتا ہے۔ جوخطبہ سننے سے پہلے مسجد میں پہنچ جاتے ہیں۔ خطبہ شروع ہونے کے بعد آنے والوں کوخطبہ سننے کا ثواب ملےگا۔ اور نماز جمعہ کا ثواب بھی ملے گا۔ لیکن وہ خاص ثواب نہیں ملے گا۔ جو جلدی آنے والوں کے لئے مخصوص ہے۔
(4) خطبہ سننا بھی ایک عظیم نیکی ہے۔ حتیٰ کہ فرشتے بھی خطبہ توجہ سے سنتے ہیں۔
(5) خطبہ سننے کے دوران میں فرشتے نام لکھنا بند کردیتے ہیں۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ خطبے کے دوران میں کوئی غیر متعلقہ حرکت کرنا درست نہیں۔
(6) بعض روایات میں (المُھْدِی) کے بجائے (کَأَنَّمَا قَرَّبَ) کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، الجمعة، باب فضل الجمعة، حدیث: 881) اس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر جس طرح اونٹ، گائے، دنبے اور بکرے وغیرہ کی قربانی دی جاتی ہے۔ مرغی اور انڈے کی قربانی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ رائے درست نہیں کیونکہ عید کی قربانی کےلئے اضحیة اور اضاحی کا لفظ خاص ہے۔ جس سے فعل ضحی آتا ہے۔ قَرَّبَ سے مراد اللہ کا قرب حاصل کرنے کےلئے کوئی چیز پیش کرنا ہے۔ وہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانور قربان کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ اور صدقے کے طور پر جانور، نقد رقم، خوراک یا کوئی بھی چیز پیش کرنا ہوسکتا ہے۔ جس کا أضیحة سے کوئی تعلق نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1092
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 865
´نماز کے لیے اول وقت میں جانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اول وقت میں نماز کے لیے جانے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اونٹ کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو بھیڑ کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو مرغی کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو انڈے کی قربانی کرتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 865]
865 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث میں نماز سے مراد نماز جمعہ ہے۔ مصنف نے عام نماز کو بھی نماز جمعہ پر محمول کیا ہے کیونکہ بعض روایات سے ہر نماز میں جلدی آنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ لو یعلمون ما فی التھجیر۔۔ الخ [سنن النسائي، الأذان، حدیث: 672] ➋ روایت میں لفظ «يُهْدِي» ہے جس سے مراد جانور کو حرم بھیجنا ہے تاکہ وہاں ذبح ہو اور تقرب حاصل ہو۔ یہاں مجازاً صدقے کے معنیٰ میں ہے کیونکہ مرغی اور انڈا قربان نہیں کیے جاتے، البتہ ان سے ثواب ضرور حاصل ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے قربانی والا معنیٰ کر کے اس حدیث سے مرغی کی قربانی ثابت کی ہے مگر انڈے کو کیسے اور کہاں سے ذبح کیا جائے گا؟ اس قسم کے مضحکہ خیز مسائل سے جمہور اہل علم کی مخالفت کرنا اور اپنے آپ کو تماشا بنانا ہے۔ سیاق و سباق اور مجموعی تناظر سے ہٹ کر صرف لفظوں سے استدلال بسا اوقات گمراہی کا موجب بن جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جمہور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے منہج اور تعبیر کو مدنظر رکھا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 865
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1386
´جمعہ کے لیے مسجد سویرے جانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے (اس دن) مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو جمعہ کے لیے آتا ہے اسے لکھتے ہیں، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر لپیٹ دیتے ہیں“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک گائے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بکری کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بطخ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک مرغی کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1386]
1386۔ اردو حاشیہ: ➊ ”فرشتے“ یہ مخصوص فرشتے ہیں جو صرف جمعے سے قبل آنے والوں کے نام اور ثواب لکھنے کے لیے مقرر ہیں۔ (عموماً اعمال لکھنے والے فرشتے تو ہر وقت لکھتے رہتے ہیں۔) پھر یہ خطبہ بھی سنتے ہیں۔ اس سے جمعۃ المبارک کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، اسی لیے اس دن کو قرآن مجید میں ”شاہد“ کہا گیا ہے اور اگر اس سے عام ”کراما کاتبین“ مراد ہوں تو پھر جمعۃ المبارک کے لیے خطبے سے پہلے آنے والوں کے لیے مخصوص رجسٹر ہوں گے جنھیں خطبہ شروع ہونے سے قبل بند کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پہلے آنے والوں کی عظیم فضیلت ہے کہ ان کی حاضری کے لیے فرشتے دروازوں پر آکر بیٹھتے ہیں۔ «ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾ ۔ ➋ ”سب سے پہلے آنے والا“ بعض علماء کا خیال ہے کہ فرشتوں نے خطبے سے پہلے کچھ اوقات مقرر کر رکھے ہوں گے۔ ان اوقات کے لحاظ سے لوگوں کے درجات بنتے ہوں گے ورنہ ظاہراً تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آنے والے صرف چھ سات افراد کے نام لکھے جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ ممکن ہے بیک وقت کئی افراد داخل ہوں، لہٰذا اوقات کا تقرر ہو گا مگر ان اوقات کی تفصیل کسی حدیث میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے۔ جمعے کے لیے جلدی نکلنا بالاتفاق مستحب ہے لیکن اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ حدیث میں وارد پانچ گھڑیوں سے مراد کیا ہے؟ کیا پانچ یا چھ گھڑیوں سے مقصود صرف وقت کے چند اجزاء ہیں یا وہ معروف گھڑیاں ہیں جن میں دن رات 24 گھنٹوں میں تقسیم ہوتے ہیں؟ جمہور علماء و فقہاء اس سے مراد معروف زمانی ساعات (گھنٹے) لیتے ہیں۔ امام شافعی، امام احمد، سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ ایک دن میں بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اس کی تائید حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ جمعے کے دن کی بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے۔ [سنن أبي داود، لاصلاة، حدیث: 1048، و صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 963] اس لحاظ سے ان کے ہاں سورج کے بلند ہونے سے پہلی گھڑی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس طرح زوال شمس تک، وقت کے اس دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کر لیا جائے، خواہ پہلی گھڑی گھنٹے پر مشتمل ہو یا سوا یا ڈیڑھ گھنٹے پر کیونکہ گرمی سردی کے اعتبار سے وقت کے لحاظ سے گھڑیوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن دن کبھی بارہ گھڑیوں سے کم نہیں ہوتا۔ اس طرح پہلی گھڑی میں آنے والے افراد، خواہ تعداد میں زیادہ ہی ہوں، وہ اونٹ کی قربانی کا ثواب پائیں گے۔ اسی طرح ترتیب وار دیگر گھڑیوں میں آنے والے حضرات بھی اسی حساب سے ثواب میں شریک ہوں گے۔ ”الساعۃ“ کے عرف میں بھی یہی معنیٰ متبادر ہیں۔ دوسرا موقف امام مالک رحمہ اللہ اور بعض شوافع کا ہے۔ ان کے نزدیک احادیث میں وارد ساعات سے مراد معروف گھڑیاں نہیں بلکہ زوال کے بعد چند لحظات یا لمحات ہیں، یعنی زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے یہ چند اجزاء یا لمحات ہوتے ہیں جن میں فرشتے آنے والوں کے ترتیب وار نام لکھتے ہیں۔ اس دعوے کی ان کے پاس چند دلیلیں ہیں: پہلی دلیل: حدیث میں لفظ «راح»(فعل ماضی) استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ بعد از زوال جانے یا روانہ ہونے کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعد از زوال جلدی نکلنے کی ترغیب ہے نہ کہ دن کے آغاز میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ راح صرف بعد از زوال جانے پر نہیں بولا جاتا، بلکہ مطلق جانے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ جانا کسی وقت بھی ہو، یہ اہل حجاز کی لغت ہے، جیسا کہ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا ہے، لہٰذا سفر دن کے آغازم یں یا آخر میں یا رات کے وقت ہو، اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے، اس کی بعد از زوال وقت کے ساتھ تخصیص درست نہیں۔ دوسری دلیل: حدیث میں وارد لفظ «الھجر» ہے، نیز اس حدیث میں بجائے ساعات کے لفظ «ثم» استعمال ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے بعد آئیں، اور اس میں گھڑیو کا ذکر نہیں ہے۔ اور «المھجر، تھجیر» سے مشتق ہے جس کے معنی عین دوپہر کا وقت ہیں جسے عربی میں الھاجرۃ کہتے ہیں۔ اس سے بھی پتہ چلا کہ آغاز دن مراد نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جن روایات میں ساعات کا ذکر ہے، وہ مفصل ہیں اور لفظ «ثم» کے ساتھ منقول حدیث مبہم ہے۔ قاعدے کی رو سے مجمل کو مفصل پر محمول کیا جاتا ہے، یعنی جو وضاحت مفصل میں ہوتی ہے، اسے ہی لینا ضروری ہے، اس لیے الساعات کی تصریح سے منقول روایات مقدم ہیں، نیز سب طرق و روایات میں صرف لفظ «الھجر» ہی نہیں آتا بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض میں لفظ «غدا» اور بعض میں «المتعجل»”جلدی کرنے والے“ کے الفاظ وغیرہ بھی ہیں۔ اس سے لفظ «المھجر» کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، نیز لغت میں یہ لفظ تبکیر و تعجیل کے معنی میں بھی آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس کے معنی میں عین دوپہر یا شدید دھوپ میں نکلنے کے بھی آتے ہیں لیکن لغت کی روشنی میں تبکیر و تعجیل کے معنی سے بھی مفر نہیں، بلکہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں اسی مؤخر الذکرمعنی میں استعمال ہوا ہے۔ تیسری دلیل: لفظ «الساعة» معروف گھنٹے کے معنی میں نہیں بلکہ زمانے یا وقت کے ایک جز یا حصے پر بولا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ”گھڑی“ کے کیے جاتے ہیں، یہ عام ہے، خواہ تھوڑے وقت کو محیط ہو یا زیادہ کو، اسی لیے اس کے معنی لمحے یا لحظات کیے جاتے ہیں۔ اس کا جواب تین طرح دیا جا سکتا ہے: ➊ شرعاً ایک دن کے بارہ گھڑیوں میں تقسیم ہونے کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ سنن ابی داود کی حدیث میں ہے۔ زیر بحث مسئلے میں اس سے تائید لی جا سکتی ہے۔ ➋ عرف میں بھی الساعۃ کے متبادر معنیٰ یہی ہیں جو جمہور مراد لیتے ہیں۔ ➌ اگر الساعات سے مراد چھٹی گھڑی کے چند لمحات یا لحظے ہی ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ گھڑیوں کے ذکر کے کیا معنیٰ ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ گھڑیاں ہیں جو بارہ گھڑیوں کا حصہ ہیں۔ جن پر، گرمی ہو یا سردی، ایک دن محیط ہوتا ہے۔ چوتھی دلیل: اگر احادیث میں وارد ساعات سے مراد چند لمحے یا لحظات مراد نہ ہوں تو اس سے ان گھڑیوں کی طوالت لازم آتی ہے، یعنی ان گھڑیوں کا دورانیہ لمبا ٹھہرتا ہے جس سے، سابق اور لاحق، یعنی پہلے اور بعد میں آنے والوں کا فرق ختم ہو جاتا ہے، اور ان گھڑیوں میں یکے بعد دیگرے آنے والوں کی فضیلت میں برابری اور یکسانیت لازم آتی ہے، مثلاً: پہلی گھڑی اگر ایک یا سوا گھنٹے پر مشتمل ہو تو ممکن ہے اس گھڑی میں وہ چار یا آٹھ دس آدمی یکے بعد دیگرے آئیں۔ اسی طرح باقی گھڑیوں میں بھی یہ ہوتا ہے یا اس کا قوی امکان ہے۔ کیا اس گھڑی میں آنے والے ان تمام افراد کو اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے یا صرف ان کو جو ان میں سے پہلے آئے اور بس؟ اسی اعتراض سے بچنے کے یے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ ان سے مراد چند لمحات یا لحظات لیتے ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اگرچہ پہلی گھڑی میں یکے بعد دیگرے آنے والے تمام افراد نفس اونٹ کی قربانی کا ثواب تو پاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، لیکن اس سے ہر لحاظ سے اونٹ کی قربانی میں تمام افراد کی برابری اور یکسانیت لازم نہیں آتی، وہ اس طرح کہ جو سب سے پہلے آئے اسے خوب موٹے تازے فربے اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کم تر اور جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کمزور یا کم تر اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، یعنی مذکورہ تفاوت اور فرق یا اختلاف مراتب نفس اونٹ وغیرہ کی ذات کی بنا پر تو نہ ہو بلکہ ان کی صفات میں ہو اور برابری صرف اونٹ وغیرہ کی ذات کی حد تک ہو جیسا کہ ذکر ہوا، اور یہی بات درست ہے۔ حدیث کو اس طرح سمجھنے سے اشکال و اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ پانچویں دلیل: اہل مدینہ کا عمل اس کے برعکس تھا۔ وہ آغاز دن ہی سے نہیں آتے تھے بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی یہ عمل نہ تھا، اس لیے اگر حدیث میں وارد لفظ الساعات سے جمہور والی گھڑیاں مراد لی جائیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نیکی کی شدید رغبت و حرص کے باوجود اول النہار حاضر نہ ہوتے تھے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ساعات سے مراد زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے چند مختصر لمحے یا لحظے ہی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل مدینہ کل امت نہیں کہ ان کا اتفاق یا عدم عمل قابل حجت اور اجماع کی حیثیت کا حامل ہو۔ پھر اول النہار مسجد کی طرف جانا بھی تو کوئی واجبی عمل نہیں، بلکہ بعض دیگر امور دینی یا دیگر مصالح اس عمل سے کہیں زیادہ اہمیت و فضیلت کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے اسے ترک کیا جا سکتا ہے اور یہ جائز ہے۔ اس سے یہ نہیں نکلتاکہ اس درجہ تعجیل ان کے ہاں مکروہ یا ناجائز تھی۔ یقیناًً جو آدمی نماز فجر پڑھ کر اسی جگہ ذکراذکار میں مشغول رہے اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت پڑھ لے، وہ اس آدمی سے جو صرف اشراق ہی پڑھتا ہے، کہیں زیادہ فضیلت اور ثواب کا حامل ہے۔ اسی طرح وہ آدمی، جو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد غسل وغیرہ کرے اور تیار ہو، اور اشراق پڑھ کر نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا رہے، یقیناًً اس شخص کی نسبت یہ کہیں زیادہ فضیلت پاتا ہے جو خطیب کے آنے سے صرف چند لمحے قبل مسجد میں پہنچتا ہے، جبکہ احادیث کی روشنی میں اس طرح انتظار کرنے والے کو بدستور نماز کی حالت میں شمار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ ایسے آدمی کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے اعمال کی مشروعیت عمومی دلائل و احادیث سے اخذ ہوتی ہے۔ کی صحابی یا تابعی کے عدم عمل یا ان کے متعلق عدم نقل کی بنا پر اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔ چھٹی دلیل: اگر حدیث میں موجود الساعات کو فلکی ساعات، یعنی گھنٹوں کے معنیٰ میں لیا جائے تو اس صورت میں خطیب کا قبل از زوال نکلنا لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ آفتاب کے بلند ہونے سے امام کے خروج سے قبل تک، وقت کے دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کیا جائے تو پانچویں گھڑی کے بعد خروجِ امام کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ یہ چھٹی گھڑی کا ابتدائی اور قبل از زوال کا وقت ہوتا ہے۔ اور جمہور کے نزدیک قبل از زوال نماز جمعہ درست نہیں۔ لیکن جن کے نزدیک یہ جائز ہے ان کے لیے یہ حدیث قابل اعتراض نہیں بلکہ ان کے حق میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں امام کے اول النہار نکلنے کا ذکر نہیں ہے ہو سکتا ہے پہلی گھڑی نہانے اور جمعے کی تیاری وغیرہ کے لیے ہو۔ اور مسجد میں آنا دوسری گھڑی کے آغاز میں ہو۔ اس طرح دن کے اعتبار سے یہ دوسری گھڑی ہو گی اور جانے کے اعتبار سے پہلی۔ بنابریں پانچویں گھڑی کے آخری لحظے زوال کے ابتدائی لمحات ہوں گے۔ [فتح الباري: 368/2] الغرض مذکورہ معروضات سے واضح ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف مرجوح ہے۔ جمہور علماء کے دلائل قوی اور قرین قیاس ہیں۔ اگرچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حدیث میں منقول ساعات کی واضح طور پر تحدید مشکل ہے لیکن فریق مخالف کے مقابلے میں جمہور کی رائے ہی مضبوط ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: [إحکام الأحکام شرح عمدة الأحکام لابن دقیق العبد، مع حاشیة العدة: 531-522/2، وزاد المعاد: 407-399/1 بتحقیق شعیب الأرناؤط، و فتح الباري: 370-366/2، رقم الحدیث: 881، و مرعاة المفاتیح: 295-293/2، طبعه أولی، و موسوعه فقھیه از حسین بن عوده: 362/2] ➌ رجسٹر بند ہونے کے بعد آنے والے سبقت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں مگر انہیں جمعے کی حاضری، خطبے کے سماع، نماز میں شرکت اور ذکر و دعا وغیرہ کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن درجات میں فرق پڑ جاتا ہے۔ ➍ بعض لوگ اس حدیث سے اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ مرغی کی قربانی بھی جائز ہے لیکن اگر اس استدلال کو درست سمجھ لیا جائے تو پھر انڈے کی قربانی کا جواز بھی تسلیم کرنا پڑے گا، جسے یہ خود بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بنابریں یہ استدلال درست نہیں۔ اس حدیث میں مذکورہ چیزوں کی قربانی سے مراد وہ اجر و ثواب ہے جو ان چیزوں کے صدقہ کرنے سے ملتا ہے، اسی لیے بعض لوگ «مھدی» کے معنیٰ ہی ”صدقہ کرنے والا“ کرتے ہیں۔ بہرحال جو معنیٰ بھی کیے جائیں، اس سے مرغی یا انڈے کی قربانی کا جواز کشید کرنا یکسر غلط ہے۔ ➎ ادنیٰ سی چیز بھی اللہ کی راہ میں دینے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ اخلاص کے ساتھ دی ہوئی معمولی سی چیز بھی عنداللہ بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ن فرمایا: ”آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے (کے صدقے) کے ساتھ ہی۔“[صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1417]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1386
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1388
´جمعہ کے لیے مسجد سویرے جانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعۃ المبارک کے دن فرشتے مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب کے مطابق لکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی تو اس آدمی کی طرح ہوں گے جس نے اعلیٰ درجے کا اونٹ صدقہ کیا، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کا اونٹ صدقہ کیا، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے اعلیٰ درجے کی گائے صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی گائے صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے اعلیٰ درجے کی بکری صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی بکری صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے بہترین مرغی صدقہ کی اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی مرغی صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے قیمتی چڑیا صدقہ کی اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے عام چڑیا صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے بہترین انڈہ صدقہ کیا اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے عام انڈہ صدقہ کیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1388]
1388۔ اردو حاشیہ: ➊ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ آنے والوں کے اجروں میں فرق اوقات و ساعات کے لحاظ سے ہے، یعنی اونٹ کے ثواب کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ اس دوران میں جتنے لوگ بھی آئیں گے سب کو اونٹ کا ثواب ملے گا، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت کے دوران میں بھی پہلے آنے والے اعلیٰ اونٹ کے صدقے کے ثواب کے مستحق قرار پائیں اور آخر میں آنے والے ادنیٰ اونٹ کے۔ درمیان میں آنے والے درمیانے درجے کے اونٹ کا۔ اسی طرح باقی جانوروں کا حساب ہے۔ جوں جوں تاخیر ہوتی جائے گی، ثواب کم ہوتا جائے گا۔ واللہ أعلم۔ ➋ مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس میں «عصفور»(چڑیا کا ذکر) منکر ہے۔ محفوظ «دجاجة»(مرغی) کا لفظ ہے۔ باقی روایت قابل حجت ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے عصفور کو منکر اور دجاجہ کے لفظ کو محفوظ قرار دیتے ہوئے باقی روایت کو حسن صحیح کہا ہے۔ بنابریں دلائل کی رو سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحیح سنن النسائي للألباني، رقم: 1386، و ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي: 164-162/16]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1388
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:963
963- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب جمعہ کا دن آتا ہے، تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر ایک دروازے پر فرشتے موجود ہوتے ہیں جو لوگوں کی آمد کے اعتبار سے ان کے نام نوٹ کرتے ہیں۔ پہلے آنے والوں کا نام پہلے کانام پہلے لکھا جاتا ہے، پھر امام آجاتا ہے، تو (فرشتوں کے) صحیفے لپیٹ لیے جاتے ہیں اور وہ خطہ سننے لگتے ہیں، تو جمعے کے دن جلدی جانے والا اس طرح ہے جیسے وہ اونٹ کی قربانی کرتا ہے، پھر اس کے بعد والا اس طرح ہے جیسے وہ گائے کی قربانی کرتا ہے، پھراس کے بعد والا اس طرح ہے جیسے وہ دنبے کی قربانی کرتا ہے، یہاں تک کہ راوی نے مرغی ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:963]
فائدہ: اس حدیث میں جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے جلدی آنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 962
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 929
929. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، پہلے اور اس کے بعد آنے والوں کے ثواب کو لکھتے رہتے ہیں۔ صبح سویرے آنے والے کو اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح، اس کے بعد گائے ذبح کرنے والے کی مثل، پھر مینڈھا قربانی کرنے والے کی طرح، اس کے بعد مرغی اور اس کے بعد انڈا اللہ کی راہ میں دینے کا ثواب ملتا ہے لیکن جب امام خطبے کے لیے برآمد ہوتا ہے تو فرشتے اپنے دفاتر لپیٹ کر ذکر الہٰی سننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:929]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں بہ سلسلہ ذکر ثواب مختلف جانوروں کے ساتھ مرغی اور انڈے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے متعلق حضرت مولانا شیخ الحدیث عبید اللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: والمشکل ذکر الدجاجة والبیضة لأن الھدي لا یکون منھما وأجیب بأنه من باب المشاکلة أي من تسمیة الشيئ باسم قرینة والمراد بلإھداءھنا التصدق لما دل علیه لفظ قرب في روایة أخریٰ وھو یجوز بھما۔ (مرعاة ج: 2ص293) یعنی مرغی اور انڈے کا بھی ذکر آیا حالانکہ ان کی قربانی نہیں ہوتی، اس کا جواب دیا گیا کہ یہاں یہ ذکر باب مشاکلہ میں ہے یعنی کسی چیز کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کے قرین کا نام ہو یہاں قربانی سے مراد صدقہ کرنا ہے جس پر بعض روایات میں آمدہ لفظ قرب دلالت کرتا ہے اور قربت میں رضائے الہی حاصل کرنے کے لیے ان ہر دو چیزوں کو بھی خیرات میں دیا جا سکتا ہے۔ حضرت امام المحدثین نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ نمازیوں کو خطبہ کان لگا کر سننا چاہیے کیونکہ فرشتے بھی کان لگا کرخطبہ سنتے ہیں۔ شافعیہ کے نزدیک خطبہ کی حالت میں کلام کرنا مکروہ ہے لیکن حرام نہیں ہے۔ حنفیہ کے نزدیک خطبے کے وقت نماز اور کلام دونوں منع ہیں۔ بعضوں نے کہا کہ دنیا کا بے کار کلام منع ہے مگر ذکر یا دعا منع نہیں ہے اور امام احمد ؒ کا یہ قول ہے کہ جو خطبہ سنتا ہو یعنی خطبہ کی آواز اس کو پہنچتی ہو اس کو منع ہے جو نہ سنتا ہو اس کو منع نہیں۔ شوکانی نے اہلحدیث کا مذہب یہ لکھا ہے کہ خطبے کے وقت خاموش رہے۔ سید علامہ نے کہا تحیۃ المسجد مستثنیٰ ہے جو شخص مسجد میں آئے اور خطبہ ہو رہا ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد کی پڑھ لے۔ اسی طرح امام کا کسی ضرورت سے بات کرنا جیسے صحیح احادیث میں وارد ہے۔ مسلم کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ (تحیۃ المسجد) کی ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ لے۔ یہی اہلحدیث اور امام احمد کی دلیل ہے کہ خطبہ کی حالت میں تحیۃ المسجد پڑھ لینا چاہیے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ امام خطبہ کی حالت میں ضرورت سے بات کر سکتا ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔ ہلکی پھلکی کا مطلب یہ کہ قرات کو طول نہ دے۔ یہ مطلب نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ لے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 929
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:929
929. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، پہلے اور اس کے بعد آنے والوں کے ثواب کو لکھتے رہتے ہیں۔ صبح سویرے آنے والے کو اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح، اس کے بعد گائے ذبح کرنے والے کی مثل، پھر مینڈھا قربانی کرنے والے کی طرح، اس کے بعد مرغی اور اس کے بعد انڈا اللہ کی راہ میں دینے کا ثواب ملتا ہے لیکن جب امام خطبے کے لیے برآمد ہوتا ہے تو فرشتے اپنے دفاتر لپیٹ کر ذکر الہٰی سننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:929]
حدیث حاشیہ: (1) شاہ ولی اللہ ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق فرشتے غور اور توجہ سے خطبۂ جمعہ سنتے ہیں دیگر لوگوں کو بطریق اولی کان لگا کر سننا چاہیے، کیونکہ انسان کو عبادت کے لیے مکلف قرار دیا گیا ہے جبکہ فرشتے اللہ کی عبادت کے مکلف نہیں ہیں۔ (2) حاضرین کو کب گفتگو سے باز رہنا چاہیے؟ حدیث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جب امام خطبہ شروع کرے تو لوگوں کا گفتگو وغیرہ میں مصروف ہونا ناجائز ہے، کیونکہ بغور سننے کی تاکید آغاز خطبہ کے بعد ہو سکتی ہے جبکہ احناف کا موقف ہے کہ جب امام برآمد ہو تو اس وقت گفتگو میں مصروف ہونا ناجائز ہے۔ اس سلسلے میں ایک ضعیف حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جس کی اسنادی حیثیت ہم آئندہ بیان کریں گے۔ (فتح الباري: 523/2) اس حدیث کے پیش نظر خطبۂ جمعہ سننا واجب ہے، البتہ امام بوقت ضرورت دوران خطبہ میں کسی کو کوئی بات یا کام کہہ سکتا ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 929
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3211
3211. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جب جمعے کادن ہوتاہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے مقرر ہوجاتے ہیں جو پہلے پہلے آنے والوں کانام لکھتے ہیں۔ پھر جب امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے صحیفے لپیٹ کر خطبہ سننے کے لے آجاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3211]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو جمعہ کے دن مسجد میں آنے والوں کا نام لکھتے ہیں اور انھیں اللہ کےحضور پیش کرتے ہیں، لیکن جب خطبہ شروع کرنے کے لیے امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنی ڈیوٹی ختم کردیتے ہیں۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آغاز خطبہ کے وقت یا اس کے بعد آنے والے لوگ جمعہ کے اضافی ثواب سے محروم رہتے ہیں، اس لیے ہمیں اس پہلو پر خاص غور کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3211