(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عمرو بن ابي سلمة ، عن زهير ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب الناس يوم الجمعة، فراى عليهم ثياب النمار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما على احدكم إن وجد سعة ان يتخذ ثوبين لجمعته سوى ثوبي مهنته". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ زُهَيْرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَرَأَى عَلَيْهِمْ ثِيَابَ النِّمَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدَ سَعَةً أَنْ يَتَّخِذَ ثَوْبَيْنِ لِجُمُعَتِهِ سِوَى ثَوْبَيْ مِهْنَتِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھاری دار چادریں پہنے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا مشکل ہے کہ تم میں سے جو صاحب وسعت ہو وہ جمعہ کے لیے اپنے عام کپڑے کے علاوہ دوسرے دو کپڑے بنا لے“۔
It was narrated from ‘Aishah that the Prophet (ﷺ) delivered a sermon to the people one Friday, and he saw them wearing woollen clothes. The Messenger of Allah (ﷺ) said:
“There is nothing wrong with any one of you, if he can afford it, buying two garments for Friday, other than his daily work clothes.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1096
اردو حاشہ: 1۔ روز مرہ کے کپڑے جن کو پہن کر محنت مزدوری کا کام کیاجاتا ہے۔ وہ ادنیٰ قسم کے ہوتے ہیں۔ جب کہ خاص موقعوں کےلئے بہتر کپڑے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کام کے کپڑوں کی صفائی کا اس قدر اہتمام بھی نہیں کیاجاتا۔ 2۔ جمعے کےلئے الگ تیار کیے ہوئے صاف ستھرے اور عمدہ کپڑے پہننے سے معلوم ہوتا ہےکہ پہننے والے کی نظر میں اس عبادت کی زیادہ اہمیت ہے۔ 3۔ جمعہ مسلمانوں کاہفت روزہ تہوار ہے او ر عیدین سالانہ تہوار مسلمانوں کو چاہیے کہ غیر مسلموں کے تہواروں کواہمیت نہ دیں اور ان میں حصہ نہ لیں۔ بلکہ اسلامی تہواروں کو اہمیت دیں۔ جمعے میں عمدہ لباس پہننا اس اہمیت کا اعتراف اور اظہار ہے۔ 4۔ اگر کوئی شخص الگ لباس نہ بناسکے تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن صفائی کا خاص خیال رکھناچاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1096