انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو یہ بڑی اچھی بات ہے، اس سے فریضہ ادا ہو جائے گا، اور جس نے غسل کیا تو غسل زیادہ بہتر ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «فبها» کا مطلب ہے «فباالرخصة أخذ» یعنی اس نے رخصت کو اختیار کیا ہے اور نعمت کا مطلب «هي الرخصة» یعنی یہ رخصت خوب ہے، اس حدیث سے جمعہ کے غسل کے واجب نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ایک تو وضو پر اکتفا کرنے کی رخصت دی گئی ہے، اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے غسل نہ کر نے کی اجازت نکلتی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1682، ومصباح الزجاجة: 384) (صحیح)» (اس کی سند میں یزید بن ابان ضعیف ہیں، اس لئے حدیث میں وارد یہ ٹکڑا «يجزئ عنه الفريضة» صحیح نہیں ہے، بقیہ حدیث دوسرے شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 540)۔
It was narrated from Anas bin Malik that the Prophet (ﷺ) said:
“Whoever performs ablution on Friday, it is well and good for him, and he has done what is obligatory for him. But whoever takes a bath, bath is better.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح دون يجزىء عنه الفريضة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسماعيل بن مسلم المكي: ضعيف ويزيد الرقاشي: ضعيف وحديث أبي داود (354) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 416
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1091
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مذید لکھا ہے کہ مذکورہ روایت سے ابوداؤد کی روایت کفایت کرتی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے دوسرے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت محققین کے نزدیک قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
(2) غسل کرنا جمعے کی صحت کےلئے شرط نہیں تاہم مستحب (پسندیدہ) امر ہے۔
(3) اگر کسی مصروفیت کی وجہ سے غسل نہ کرسکیں۔ اور جمعے کا وقت ہوجائے تو وضو کرکے جمعہ کےلئے چلے جانا چاہیے۔ کیونکہ خطبہ سننے کی اہمیت غسل سے زیادہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1091