It was narrated from Abu Hurairah that for the Subh prayer on Fridays, the Messenger of Allah (ﷺ) used to recite ‘Alif-Lam-Mim’. The revelation...’[32:
1] and ‘Has there not been over man...” [76:1]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں «الم تنزيل» اور «هل أتى على الإنسان» پڑھا کرتے تھے۔ اسحاق بن سلیمان کہتے ہیں کہ عمرو بن ابی قیس نے ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی روایت کی ہے مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
It was narrated from ‘Abdullah bin Mas’ud that for the Subh prayer on Fridays, the Messenger of Allah (ﷺ) used to recite “Alif-Lam-Mim. The revelation...” [32:
1] and “Has there not been over man..” [76:1]
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا معاوية بن صالح ، حدثنا ربيعة بن يزيد ، عن قزعة ، قال: سالت ابا سعيد الخدري عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ليس لك في ذلك خير، قلت: بين رحمك الله، قال:" كانت الصلاة تقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر فيخرج احدنا إلى البقيع، فيقضي حاجته، ويجيء فيتوضا، فيجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الركعة الاولى من الظهر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ قَزَعَةَ ، قَال: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَيْسَ لَكَ فِي ذَلِكَ خَيْرٌ، قُلْتُ: بَيِّنْ رَحِمَكَ اللَّهُ، قَالَ:" كَانَتِ الصَّلَاةُ تُقَامُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فَيَخْرُجُ أَحَدُنَا إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقْضِي حَاجَتَهُ، وَيَجِيءُ فَيَتَوَضَّأُ، فَيَجِدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنَ الظُّهْرِ".
قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: تمہارے لیے اس میں کوئی خیر نہیں ۱؎، میں نے اصرار کیا کہ آپ بیان تو کیجئیے، اللہ آپ پہ رحم کرے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز ظہر کی اقامت کہی جاتی اس وقت ہم میں سے کوئی بقیع جاتا، اور قضائے حاجت (پیشاب پاخانہ) سے فارغ ہو کر واپس آتا، پھر وضو کرتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی پہلی رکعت میں پاتا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ علم عمل کے لئے ہے، اگر تم اس پر عمل نہ کر سکے تو وہ تمہارے خلاف قیامت کے دن حجت ہو گا۔ ۲؎: مسجد نبوی سے مشرقی سمت میں بقیع غرقد نامی علاقہ ہے، جس جگہ مقبرہ ہے، یہاں مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ آدمی قضاء حاجت کے لئے اتنا دور جاتا اور نماز نبوی اتنی لمبی ہوتی کہ واپس آ کر پہلی رکعت پا جاتا، شاید رسول اکرم ﷺ کبھی کبھی لمبی قراءت کرتے تھے، ورنہ آپ نے نماز ہلکی پڑھانے کا حکم دیا ہے۔
It was narrated that Qaza’ah said:
“I asked Abu Sa’eed Al-Khudri about the prayer of the Messenger of Allah (ﷺ). He said: ‘There is nothing good in that for you.’* I said: ‘Explain it, may Allah have mercy on you.’ He said: ‘The Iqamah would be given for the Zuhr prayer for the Messenger of Allah (ﷺ), then one of us would go out to Al- Baqi’, relieve himself, then come back and perform ablution, and he would find the Messenger of Allah (ﷺ) still in the first Rak’ah of Zuhr.’”
ابومعمر کہتے ہیں کہ میں نے خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ لوگ ظہر اور عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کو کیسے پہچانتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ کی داڑھی مبارک (کے بال) کے ہلنے سے۔
It was narrated that Abu Ma’mar said:
“I said to Khabbab: ‘How did you recognize that the Messenger of Allah (ﷺ) was reciting in the Zuhr and the ‘Asr?’ He said: ‘From the movement of his beard.’”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے فلاں یعنی عمرو بن سلمہ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کی نماز نہیں دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتے، اور آخری دونوں ہلکی کرتے، اور عصر کی نماز بھی ہلکی کرتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الافتتاح 61 (983)، (تحفة الأشراف: 13484)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/300، 329، 330، 532) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس خیال سے کہ وہ کام کاج اور بازار کا وقت ہوتا ہے، لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“I have never seen anyone whose prayer more closely resembles that of the Messenger of Allah (ﷺ) than so-and-so. He used to lengthen the first two Rak’ah of the Zuhr and shorten the last two Rak’ah, and he used to shorten the ‘Asr.”
(موقوف) حدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا ابو داود الطيالسي ، حدثنا المسعودي ، حدثنا زيد العمي ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال:" اجتمع ثلاثون بدريا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: تعالوا حتى نقيس قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما لم يجهر فيه من الصلاة، فما اختلف منهم رجلان، فقاسوا قراءته في الركعة الاولى من الظهر بقدر ثلاثين آية، وفي الركعة الاخرى قدر النصف من ذلك، وقاسوا ذلك في صلاة العصر على قدر النصف من الركعتين الاخريين من الظهر". (موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ الْعَمِّيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ:" اجْتَمَعَ ثَلَاثُونَ بَدْرِيًّا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: تَعَالَوْا حَتَّى نَقِيسَ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا لَمْ يَجْهَرْ فِيهِ مِنَ الصَّلَاةِ، فَمَا اخْتَلَفَ مِنْهُمْ رَجُلَانِ، فَقَاسُوا قِرَاءَتَهُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنَ الظُّهْرِ بِقَدْرِ ثَلَاثِينَ آيَةً، وَفِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى قَدْرَ النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ، وَقَاسُوا ذَلِكَ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ عَلَى قَدْرِ النِّصْفِ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تیس بدری صحابہ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آؤ ہم سری نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کا اندازہ کریں، تو ان لوگوں نے ظہر کی پہلی رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کا اندازہ تیس آیت کے بہ قدر کیا، اور دوسری رکعت میں اس کے آدھا، اور عصر کی نماز میں ظہر کی پچھلی دونوں رکعتوں کے نصف کے بہ قدر، اس اندازے میں ان میں سے دو شخصوں کا بھی اختلاف نہیں ہوا ا؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4324، ومصباح الزجاجة: 305)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 34 (452)، سنن ابی داود/الصلاة 130 (804)، سنن النسائی/الصلاة 16 (476)، مسند احمد (3/2)، سنن الدارمی/الصلاة 62 (1325) (ضعیف)» (سند میں زید العمی ضعیف راوی ہیں، اور ابوداود اور طیالسی نے مسعودی سے جو مختلط روای ہیں بعد اختلاط روایت کی ہے، لیکن مرفوع حدیث دوسری سند سے صحیح مسلم میں ہے، لفظ قیاس کے بغیر جیسا کہ اوپر کی تخریج میں مذکور ہے)۔
وضاحت: ۱؎: اس باب کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ کبھی کبھی ایک آدھ آیت کو اس طرح پڑھنا کہ پیچھے والے سن لیں درست ہے، سری و جہری میں فرق یہی ہے کہ سری میں اتنا آہستہ پڑھنا کہ خود سنے اور پاس والا بھی، اور جہری کہتے ہیں کہ خود بھی سنے اور دوسرے بھی سنیں، سنت کی پیروی میں کبھی کبھی ایک آدھ آیت سنانا درست ہے۔
It was narrated that Abu Sa’eed Al-Khudri said:
“Thirty of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) who had been at Badr came together and said: ‘Come, let us estimate the length of the recitation of the Messenger of Allah (ﷺ) for the prayer in which Qur’an is not recited out aloud.’ No two men among them disagreed, and they estimated the length of his recitation in the first Rak’ah of the Zuhr to be thirty Verses and in the second Rak’ah to be half of that. They estimated his recitation in ‘Asr to be half of the last two Rak’ah of Zuhr.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن المرفوع منه له طريق آخر عند م دون لفظة القياس
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف زيد العمي: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 407
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں (سری) قراءت فرماتے تھے، اور کبھی کبھی ہمیں کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے ا؎۔
It was narrated from ‘Abdullah bin Abu Qatadah that his father said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) used to recite when leading us in the first two Rak’ah of the Zuhr prayer, and sometimes he would recite such that we could hear the Verse.”
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ظہر کی نماز پڑھاتے تو ہم سورۃ «لقمان» اور سورۃ «ذاريات» کی کئی آیتوں کے بعد کوئی آیت سن لیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الافتتاح 55 (972)، (تحفة الأشراف: 1891) (ضعیف)» (سند میں ابواسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4120)
It was narrated that Bara’ bin ‘Azib said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) used to lead us for the Zuhr, and we would hear him reciting a Verse after the Verses from Surat Luqman (31) and Adh-Dhariyat (51).”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (972) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 407
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں (ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا کہ ان کی والدہ کا نام ”لبابہ“ ہے): انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں «والمرسلات عرفا» پڑھتے سنا۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said, narrating from his mother (one of the narrators) Abu Bakr bin Abu Shaibah said:
“(She was) Lubabah” that she heard the Messenger of Allah (ﷺ) reciting ‘By the winds sent forth one after another...’[Al-Mursalat (77)] in the Maghrib.
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، انبانا سفيان ، عن الزهري ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم" يقرا في المغرب ب الطور"، قال جبير في غير هذا الحديث: فلما سمعته يقرا: ام خلقوا من غير شيء ام هم الخالقون إلى قوله فليات مستمعهم بسلطان مبين سورة الطور آية 35 ـ 38 كاد قلبي يطير. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ ب الطُّورِ"، قَالَ جُبَيْرٌ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ: فَلَمَّا سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ: أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ إِلَى قَوْلِهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ سورة الطور آية 35 ـ 38 كَادَ قَلْبِي يَطِيرُ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں «والطور» پڑھتے سنا۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے ایک دوسری حدیث میں کہا کہ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الطور میں سے یہ آیت کریمہ «أم خلقوا من غير شيء أم هم الخالقون» سے «فليأت مستمعهم بسلطان مبين»، یعنی: ”کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خودبخود پیدا ہو گئے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں و زمینوں کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں، یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ یا ان خزانوں کے یہ داروغہ ہیں، یا کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر سنتے ہیں؟ (اگر ایسا ہے) تو ان کا سننے والا کوئی روشن دلیل پیش کرے“، (سورۃ الطور: ۳۵ -۳۸) تک پڑھتے ہوئے سنا تو قریب تھا کہ میرا دل اڑ جائے گا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ان آیتوں کے عمدہ مضمون کا اثر دل پر ایسا ہوا کہ دل ہی ہاتھ سے جانے کو تھا، سبحان اللہ ایک تو قرآن کا اثر کیا کم ہے، دوسرے نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے آیتوں کی تلاوت، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شفق کے ختم ہونے تک مغرب کا وقت پھیلا ہوا ہے۔
It was narrated from Muhammad bin Jubair bin Mut’im that his father said:
“I heard the Prophet (ﷺ) reciting At-Tur (52) in the Maghrib.” In a different narration, Jubair said: “And when I heard him recite: ‘Were they created by nothing? Or were they themselves the creators?’ up to: ‘Then let their listener produce some manifest proof’,[52:35-38] it was as if my heart were about to take flight.”