(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا معاوية بن صالح ، حدثنا ربيعة بن يزيد ، عن قزعة ، قال: سالت ابا سعيد الخدري عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ليس لك في ذلك خير، قلت: بين رحمك الله، قال:" كانت الصلاة تقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر فيخرج احدنا إلى البقيع، فيقضي حاجته، ويجيء فيتوضا، فيجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الركعة الاولى من الظهر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ قَزَعَةَ ، قَال: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَيْسَ لَكَ فِي ذَلِكَ خَيْرٌ، قُلْتُ: بَيِّنْ رَحِمَكَ اللَّهُ، قَالَ:" كَانَتِ الصَّلَاةُ تُقَامُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فَيَخْرُجُ أَحَدُنَا إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقْضِي حَاجَتَهُ، وَيَجِيءُ فَيَتَوَضَّأُ، فَيَجِدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنَ الظُّهْرِ".
قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: تمہارے لیے اس میں کوئی خیر نہیں ۱؎، میں نے اصرار کیا کہ آپ بیان تو کیجئیے، اللہ آپ پہ رحم کرے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز ظہر کی اقامت کہی جاتی اس وقت ہم میں سے کوئی بقیع جاتا، اور قضائے حاجت (پیشاب پاخانہ) سے فارغ ہو کر واپس آتا، پھر وضو کرتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی پہلی رکعت میں پاتا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ علم عمل کے لئے ہے، اگر تم اس پر عمل نہ کر سکے تو وہ تمہارے خلاف قیامت کے دن حجت ہو گا۔ ۲؎: مسجد نبوی سے مشرقی سمت میں بقیع غرقد نامی علاقہ ہے، جس جگہ مقبرہ ہے، یہاں مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ آدمی قضاء حاجت کے لئے اتنا دور جاتا اور نماز نبوی اتنی لمبی ہوتی کہ واپس آ کر پہلی رکعت پا جاتا، شاید رسول اکرم ﷺ کبھی کبھی لمبی قراءت کرتے تھے، ورنہ آپ نے نماز ہلکی پڑھانے کا حکم دیا ہے۔
It was narrated that Qaza’ah said:
“I asked Abu Sa’eed Al-Khudri about the prayer of the Messenger of Allah (ﷺ). He said: ‘There is nothing good in that for you.’* I said: ‘Explain it, may Allah have mercy on you.’ He said: ‘The Iqamah would be given for the Zuhr prayer for the Messenger of Allah (ﷺ), then one of us would go out to Al- Baqi’, relieve himself, then come back and perform ablution, and he would find the Messenger of Allah (ﷺ) still in the first Rak’ah of Zuhr.’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث825
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بقیع اس جگہ کانام ہے۔ جسے آجکل جنت البقیع کہتے ہیں۔ یہ مدینہ کا قبرستان ہے۔ رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں اس کے ایک حصے میں قبریں تھیں۔ باقی خالی میدان تھا۔ اس وقت مسجد نبوی ﷺ کی عمارت بھی تھوڑے سے رقبے پر بنی ہوئی تھی۔
(2) اس میں تیرے لئے بھلائی نہیں مطلب یہ کہ علم کا مقصد عمل کرنا ہے۔ اور آپ لوگ اس کے مطابق عمل کرکےاتنی لمبی نماز نہیں پڑھ سکتے۔ پھر پوچھنے کا کیا فائدہ؟ (3) پہلی رکعت کوطویل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ لوگ پوری نماز باجماعت کا ثواب حاصل کرلیں۔
(4) اگر نمازی لمبی نماز پڑھنے میں مشقت محسوس نہ کریں۔ تو نماز کو معمول سے زیادہ طول دیا جاسکتا ہے۔ ورنہ مناسبت حد تک تخفیف کرنے کا حکم ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 825
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 974
´ظہر کی پہلی رکعت میں لمبا قیام کرنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز ظہر کھڑی کی جاتی تھی، پھر جانے والا بقیع جاتا اور اپنی حاجت پوری کرتا، پھر وضو کرتا اور واپس آتا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت میں ہوتے، (کیونکہ) آپ اسے خوب لمبی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 974]
974 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرنا مسنون ہے چونکہ یہ کاروبار کا وقت ہوتا ہے، اس لیے جب پہلی رکعت لمبی ہو گی تو زیادہ سے زیادہ لوگ پوری نماز باجماعت اداکرسکیں گے۔ واللہ أعلم۔ ➋ لوگ آپ کے پیچھے بڑے ذوق شوق سے کھڑے ہوتے تھے۔ آپ کی صحبت و مجلس کی برکت سے طویل قیام میں انہیں سرور آتا تھا۔ آپ کی روحانیت بھی ان کا احاطہ کر لیتی تھی، اس لیے آپ کو اتنا لمبا قیام مناسب تھا۔ آپ کبھی مختصر قیام بھی کرتے تھے۔ دوسرے ائمہ کے لیے نمازیوں کے مناسب حال قیام کرنے کا ارشاد ہے۔ قرأت لمبی بھی ہو اور مخفی بھی، تو یہ اکتاہٹ اور بے زاری پیدا کرتی ہے جو نماز کی روح کے منافی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 974
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1021
حضرت قزعہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے پاس (استفادہ کے لیے) بہت سے لوگ موجود تھے تو جب لوگ منتشر ہوگئے (چلے گئے) میں نے عرض کیا، میں آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال نہیں کروں گا، جن کے بارے میں یہ لوگ آپ سے سوال کر رہے تھے، میں نے کہا، میں آپ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھتا ہوں تو انہوں نے کہا، اس سوال میں تیرے لیے بہتری یا بھلائی نہیں ہے (کیونکہ تم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1021]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بقیع کا فاصلہ، آپﷺ کے دور میں آپﷺ کی مسجد سے تقریباً ایک ایکڑ تھا۔