Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
7. بَابُ : الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
باب: ظہر اور عصر کی قرات کا بیان۔
حدیث نمبر: 826
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، قَالَ: قُلْنَا لِخَبَّابٍ :" بِأَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ؟ قَالَ: بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ".
ابومعمر کہتے ہیں کہ میں نے خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ لوگ ظہر اور عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کو کیسے پہچانتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ کی داڑھی مبارک (کے بال) کے ہلنے سے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 91 (746)، 96 (760)، 97 (761)، 108 (777)، سنن ابی داود/الصلاة 129 (801)، (تحفة الأشراف: 3517)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/109، 112، 6/395) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 826 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث826  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
سری اور جہری تمام نمازوں میں قراءت ہوتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ (فِي كُلِّ صَلَاةٍ يُقْرَاءُ فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُوْلُ اللهِ صلي الله عليه وسلم أَسْمَعْنَاكُمْ وَمَا أَخْفَي عَنَّا أَخْفَيْنَا عَنْكُمْ) (صحیح البخاري، الأذان، باب القراءۃ فی الفجر، حدیث: 772)
  قراءت ہر نماز میں ہوتی ہے۔
جو کچھ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنایا ہم تمھیں سناتے ہیں۔
اور جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے چھپایا۔
ہم تم سے چھپاتے ہیں۔
یعنی جن رکعتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری قراءت کی ہم بھی جہری قراءت کرتے ہیں۔
اور جن نمازوں یا رکعتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سری قراءت کی ہم بھی سری قراءت کرتے ہیں۔

(2)
سری نمازوں اور رکعتوں میں قراءت کی صورت یہ ہے کہ ہونٹوں کو کلمات کے مطابق حرکت دی جائے۔
محض دل میں پڑھنا کہ ہونٹوں کی حرکت نہ ہو کافی نہیں۔

(3)
نماز میں امام کی طرف نظر اُٹھ جانے سے نماز میں خلل نہیں آتا۔

(4)
سری نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کی حرکت سے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے اندازہ لگایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قراءت کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض اوقات کسی آیت کا کچھ حصہ آواز سے پڑھ دینے سے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو آپ کی قراءت کا علم ہوجاتا تھا۔
دیکھئے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب القراۃ فی العصر، حدیث: 762)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 826   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:156  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مقتدی دوران نماز امام کی طرف دیکھ سکتا ہے، نیز ظہر و عصر میں قرأت کرنا ہوگی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں داڑھی کے حرکت کرنے سے نماز میں کوئی نقص لازم نہیں آتا۔ داڑھی ہو گی تو حرکت کرے گی، افسوس کہ امت مسلمہ نے داڑھی کی توہین کی اور فیشن کے پیچھے پڑ کر ایک فرض کو چھوڑ دیا، داڑھی رکھنا فرض ہے، امر وجوب کا تقاضا کرتا ہے، داڑھی تمام شریعتوں میں فرض تھی۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 156   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 746  
746. حضرت ابومعمر سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت خباب بن ارت ؓ سے سوال کیا: آیا رسول اللہ ﷺ نماز ظہر اور نماز عصر میں کچھ پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ ہم نے پوچھا: آپ لوگ کیسے پہچانتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: آپ کی داڑھی مبارک کے ہلنے کی وجہ سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:746]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلا۔
کیونکہ داڑھی کا ہلنا ان کو بغیر امام کی طرف دیکھے کیونکر معلوم ہوسکتا تھا۔
بہرحال نماز میں نظرامام پر رہے یا مقام سجدہ پر رہے ادھر ادھر نہ جھانکنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 746   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:760  
760. حضرت ابومعمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت خباب بن ارت ؓ سے دریافت کیا: آیا نبی ﷺ ظہر اور عصر میں قراءت کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر ہم نے عرض کیا کہ آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہمیں آپ کی داڑھی مبارک کی جنبش سے پتہ چلتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:760]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات نے کہا ہے کہ محض ڈاڑھی کی حرکت سے قراءت پر استدلال تام نہیں ہے کیونکہ اس سے کچھ پڑھنے کا پتہ چلتا ہے ممکن ہے کہ دعا یا ذکر وغیرہ پڑھتے ہوں لیکن صحابی حضرات خباب بن رات ؓ نے ڈاڑھی کی جنبش کو قراءت کا قرینہ قرار دیا ہے، کیونکہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو جہری نمازوں میں دیکھا تھا کہ یہ محل قراءت کا ہے دعا یا ذکر کا نہیں ہے۔
اس کے ساتھ جب حضرت ابو قتادہ ؓ کی بات کو شامل کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں کبھی کبھی کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے، لیکن بلکہ بعض روایات میں سورۂ لقمان اور سورۂ ذاریات کی آیات سنانے کی صراحت ہے۔
اور ابن خزیمہ کی روایت میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ ﴿١﴾ پڑھنے کی وضاحت ہے۔
(2)
ان شواہد سے معلوم ہوا کہ ڈاڑھی کی حرکت یہاں قراءت ہی کو ظاہر کرتی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر کی نمازوں میں سری قراءت کرتے تھے۔
امام بیہقی ؒ نے لکھا ہے کہ آہستہ قراءت کے لیے ضروری ہے کہ زبان اور ہونٹ حرکت کریں اور انسان خود کو سنا سکے۔
ہونٹ بند کر کے زبان کو حرکت دیے بغیر پڑھنا اس سے ڈاڑھی کو حرکت نہیں ہوتی۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 760   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:777  
777. حضرت ابومعمر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے خباب بن ارت ؓ سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر کی نماز میں قراءت کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ ہم نے دوبارہ عرض کیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلتا تھا؟ انہوں نے فرمایا: آپ کی داڑھی مبارک کی جنبش کی وجہ سے ہمیں معلوم ہو جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:777]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث اس امر پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر کی نماز میں آہستہ قراءت کرتے تھے، کیونکہ حضرت خباب بن ارت ؓ نے اس کے متعلق خبر دی ہے اور ڈاڑھی کی حرکت کو اس کی علامت قرار دیا ہے۔
یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
(عمدةالقاري: 495/4) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کی ڈاڑھی مبارک لمبی اور گھنی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 777