(موقوف) حدثنا محمد بن رمح ، حدثنا الليث بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن عمار بن ياسر ، انه قال:" سقط عقد عائشة فتخلفت لالتماسه، فانطلق ابو بكر إلى عائشة، فتغيظ عليها في حبسها الناس، فانزل الله عز وجل الرخصة في التيمم، قال:" فمسحنا يومئذ إلى المناكب"، قال: فانطلق ابو بكر إلى عائشة، فقال: ما علمت إنك لمباركة. (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ:" سَقَطَ عِقْدُ عَائِشَةَ فَتَخَلَّفَتْ لِالْتِمَاسِهِ، فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهَا فِي حَبْسِهَا النَّاسَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الرُّخْصَةَ فِي التَّيَمُّمِ، قَالَ:" فَمَسَحْنَا يَوْمَئِذٍ إِلَى الْمَنَاكِبِ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ: مَا عَلِمْتُ إِنَّكِ لَمُبَارَكَةٌ.
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ٹوٹ کر گر گیا، وہ اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور ان پہ ناراض ہوئے، کیونکہ ان کی وجہ سے لوگوں کو رکنا پڑا، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی اجازت والی آیت نازل فرمائی، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت مونڈھوں تک مسح کیا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، اور کہنے لگے: مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنی بابرکت ہو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ثابت ہوئی، اسی طرح اس حدیث سے اور اس کی بعد کی احادیث سے مونڈھوں تک کا مسح ثابت ہوتا ہے، لیکن یہ منسوخ ہے، اب حکم صرف منہ اور پہنچوں تک مسح کرنے کا ہے، جیسا کہ آگے آنے والی احادیث سے ثابت ہے۔
It was narrated that 'Ammar bin Yasir said:
"Aishah dropped a necklace and stayed behind to look for it. Abu Bakr went to 'Aishah and got angry with her for keeping the people waiting. Then Allah revealed the concession allowing dry ablution, so we wiped our arms up to the shoulders. Abu Bakr went to 'Aishah and said: 'I did not know that you are blessed.'"
وضاحت: ۱؎: یعنی ساری زمین پر نماز کی ادائیگی صحیح ہے، اور پاک کرنے والی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک قسم کی زمین پر تیمم صحیح ہے، اور نبی اکرم ﷺ سے دیوار پر تیمم کرنا ثابت ہے، لیکن شافعی اور احمد اور ابوداؤد کے یہاں زمین سے مٹی مراد ہے، اور مالک، ابوحنیفہ، عطاء، اوزاعی اور ثوری کا قول ہے کہ تیمم زمین پر اور زمین کی ہر چیز پر درست ہے،مگر امام مسلم کی ایک روایت میں «تربت» کا لفظ ہے، اور ابن خزیمہ کی روایت میں «تراب» کا، اور امام احمد اور بیہقی نے باسناد حسن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: «و جعل التراب لي طهوراً» یعنی مٹی میرے لئے پاک کرنے والی کی گئی، اس سے ان لوگوں کی تائید ہوئی ہے، جو تیمم کو مٹی سے خاص کرتے ہیں، اور زمین کے باقی اجزاء سے تیمم کو جائز نہیں کہتے، اور قرآن میں جو «صعید» کا لفظ ہے اس سے بھی بعضوں نے مٹی مراد لی ہے، اور لغت والوں کا اس میں اختلاف ہے، بعضوں نے کہا: «صعید» روئے زمین کو کہتے ہیں، پس وہ زمین کے سارے اجزاء کو عام ہو گا، ایسی حالت میں احتیاط یہ ہے کہ تیمم پاک مٹی ہی سے کیا جائے، تاکہ سب لوگوں کے نزدیک درست ہو، «واللہ اعلم» ۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، انها استعارت من اسماء قلادة فهلكت،" فارسل النبي صلى الله عليه وسلم اناسا في طلبها، فادركتهم الصلاة فصلوا بغير وضوء، فلما اتوا النبي صلى الله عليه وسلم شكوا ذلك إليه، فنزلت آية التيمم"، فقال اسيد بن حضير: جزاك الله خيرا، فوالله ما نزل بك امر قط إلا جعل الله لك منه مخرجا، وجعل للمسلمين فيه بركة. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً فَهَلَكَتْ،" فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنَاسًا فِي طَلَبِهَا، فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلَاةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ، فَلَمَّا أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ، فَنَزَلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ"، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ: جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ لَكِ مِنْهُ مَخْرَجًا، وَجَعَلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةً.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریۃً لیا، اور وہ کھو گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھونڈنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی، جب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو آپ سے اس کی شکایت کی، تو اس وقت تیمم کی آیت نازل ہوئی، اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! جب بھی آپ کو کوئی مشکل پیش آئی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس سے نجات کا راستہ پیدا فرما دیا، اور مسلمانوں کے لیے اس میں برکت رکھ دی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جیسے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام تراشی اور بہتان کا نازیبا واقعہ پیش آیا تھا تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی عفت و پاکدامنی ظاہر کر دی، اور مومنات کے لئے احکام معلوم ہوئے، اسید رضی اللہ عنہ کا مقصد کلام یہ تھا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہمیشہ ہی رہی ہے، اور ہر تکلیف و آزمائش میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔
It was narrated from 'Aishah that:
She borrowed a necklace from Asma', and she lost it. The Prophet sent some people to look for it, and the time for prayer came so they prayed without ablution. When they came to the Prophet they complained to him about that, then the Verse of dry ablution was revealed. Usaid bin Hudair said: "May Allah reward you with good, for by Allah, nothing ever happens to you but Allah grants you a way out and blesses the Muslims thereby."
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ذر ، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى ، عن ابيه ، ان رجلا اتى عمر بن الخطاب، فقال: إني اجنبت فلم اجد الماء، فقال عمر: لا تصل، فقال عمار بن ياسر : اما تذكر يا امير المؤمنين" إذ انا وانت في سرية فاجنبنا فلم نجد الماء، فاما انت فلم تصل، واما انا فتمعكت في التراب فصليت، فلما اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: إنما كان يكفيك وضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيديه إلى الارض، ثم نفخ فيهما ومسح بهما وجهه وكفيه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا تُصَلِّ، فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ : أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ" إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدِ الْمَاءَ، فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ فَصَلَّيْتُ، فَلَمَّا أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ نَفَخَ فِيهِمَا وَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ".
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا“، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان دونوں میں پھونک ماری، اور اپنے چہرے اور دونوں پہنچوں پر اسے مل لیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: تیمم یہی ہے کہ زمین پر ایک بار ہاتھ مار کر منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کرے، اور جنابت سے پاکی کا طریقہ حدث کے تیمم کی طرح ہے، اور عمر رضی اللہ عنہ کو باوصف اتنے علم کے اس مسئلہ کی خبر نہ تھی، اسی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو، یہ دونوں جلیل القدر صحابہ جنبی کے لئے تیمم جائز نہیں سمجھتے تھے، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ کبھی بڑے عالم دین پر معمولی مسائل پوشیدہ رہ جاتے ہیں، ان دونوں کے تبحر علمی اور جلالت شان میں کسی کو کلام نہیں ہے، لیکن حدیث اور قرآن کے خلاف ان کا قول بھی ناقابل قبول ہے، پھر کتاب و سنت کے دلائل کے سامنے دوسرے علماء کے اقوال کی کیا حیثیت ہے، اس قصہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں صرف رسول اکرم ﷺ کے اسوہ سے مطلب ہے۔
It was narrated from Sa'eed bin 'Abdur-Rahman bin Abza from his father, that:
A man came to 'Umar bin khattab and said: "I became impure following sexual emission and cannot find any water." 'Umar said to him: "Do not pray." But 'Ammar bin Yasir said: "Do you not remember, O Commander of the Believers, when you and I were on a military expedition and we became sexually impure and could not find water? As for you, you did not pray, but I rolled in the dust and then prayed. When I came to the Prophet and told him what had happened, he said: 'It would have been enough for you (to do this).' (Then demonstrating) the Prophet struck the ground with his hands, then blew on hem, and wiped his face and palms with them."
حکم اور سلمہ بن کہیل نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے تیمم کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کو اس طرح کرنے کا حکم دیا، پھر عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے، اور انہیں جھاڑ کر اپنے چہرے پر مل لیا۔ حکم کی روایت میں «يديه» اور سلمہ کی روایت میں «مرفقيه» کا لفظ ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5160، ومصباح الزجاجة: 230) (صحیح)» (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف الحفظ ہیں، اصل حدیث شواہد و طرق سے ثابت ہے لیکن «مرفقیہ» کا لفظ منکر ہے)
وضاحت: ۱؎: «يديه» یعنی دونوں ہاتھوں پر مل لیا، اور سلمہ بن کہیل کی روایت میں «مرفقيه» یعنی کہنیوں تک مل لیا کا لفظ ہے، جو منکر اور ضعیف ہے، جیسا کہ تخریج سے پتہ چلا «مرفقيه» کا لفظ منکر ہے، لہذا اس سے استدلال درست نہیں، اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ کہنیوں تک مسح کرنے میں احتیاط ہے بلکہ احتیاط اسی میں ہے جو صحیح حدیث میں آیا ہے۔
It was narrated from Hakam and Salamah in Kuhail that:
They asked 'Abdullah bin Abi Awfa about dry ablution. He said: "The Prophet commanded 'Ammar to do like this;' and he struck the ground with his palms, shook the dust off and wiped his face. (Da'if)Hakam said, "and his hands," Salamah said, "and his elbows."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح دون رواية مرفقيه فإنها منكرة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد ابن أبي ليلي: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 399
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیمم کیا، تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا، تو انہوں نے اپنی ہتھیلیاں مٹی پر ماریں اور ہاتھ میں کچھ بھی مٹی نہ لی، پھر اپنے چہروں پر ایک بار مل لیا، پھر دوبارہ اپنی ہتھیلیوں کو مٹی پر مارا، اور اپنے ہاتھوں پر مل لیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بعض علماء نے اس حدیث سے دلیل لی ہے، اور تیمم میں دو بار ہتھیلی کو مٹی پر مار کر چہرے اور ہاتھوں پر ملنے کی بات کہی ہے، لیکن صحیحین میں اس کے خلاف مروی ہے، اور ایک ہی بار منقول ہے، اور امام احمد نے باسناد صحیح عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تیمم ایک بار ہے چہرہ کے لئے اور دونوں ہتھیلیوں کے لئے“۔ اور شاید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پہلی بار میں ہاتھ میں مٹی نہ لگنے کی وجہ سے دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارا، ورنہ عمار بن یاسر کی ایک ضربہ والی واضح حدیث کی بنا پر جمہور علماء اور عام اہل حدیث کا مذہب ایک ضربہ ہی ہے، جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا۔ (نیز ملاحظہ ہو: نیل الأوطار۱/۳۳۲)
It was narrated from 'Ammar bin Yasir that:
When they did dry ablution with the Messenger of Allah, he commanded the Muslims to strike the dust with the palms of their hands, and they did not pick up any dust. Then they wiped their faces once, then they struck the dust with their palms once again and wiped their hands.
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا عبد الحميد بن حبيب بن ابي العشرين ، حدثنا الاوزاعي ، عن عطاء بن ابي رباح ، قال: سمعت ابن عباس يخبر،" ان رجلا اصابه جرح في راسه على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم اصابه احتلام، فامر بالاغتسال فاغتسل فكز فمات، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" قتلوه قتلهم الله افلم يكن شفاء العي السؤال"، قال عطاء: وبلغنا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لو غسل جسده وترك راسه حيث اصابه الجراح". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الْعِشْرِينِ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُخْبِرُ،" أَنَّ رَجُلًا أَصَابَهُ جُرْحٌ فِي رَأْسِهِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَصَابَهُ احْتِلَامٌ، فَأُمِرَ بِالِاغْتِسَالِ فَاغْتَسَلَ فَكُزَّ فَمَاتَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَفَلَمْ يَكُنْ شِفَاءَ الْعِيِّ السُّؤَالُ"، قَالَ عَطَاءٌ: وَبَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَوْ غَسَلَ جَسَدَهُ وَتَرَكَ رَأْسَهُ حَيْثُ أَصَابَهُ الْجِرَاحُ".
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ بتا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کے سر میں زخم ہو گیا، پھر اسے احتلام ہوا، تو لوگوں نے اسے غسل کا حکم دیا، اس نے غسل کر لیا جس سے اسے ٹھنڈ کی بیماری ہو گئی، اور وہ مر گیا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے، کیا عاجزی (لاعلمی کا علاج مسئلہ) پوچھ لینا نہ تھا“۔ عطاء نے کہا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کاش وہ اپنا جسم دھو لیتا اور اپنے سر کا زخم والا حصہ چھوڑ دیتا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5904، ومصباح الزجاجة: 231)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 127 (337)، سنن الدارمی/الطہارة 70 (779) (حسن)» (عطاء کا قول: «وبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم» ضعیف ہے کیونکہ انہوں نے واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 364)
وضاحت: ۱؎: مصباح الزجاجۃ (ط۔ مصریہ) میں آخر متن میں «لأجزه» ہے۔
It was narrated that 'Ata' bin Abu Rabah said:
"I heard Ibn 'Abbas saying that a man was injured in the head at the time of the Messenger of Allah, then he had a wet dream. He was told to have a bath, so he took the bath, became rigid and stiff, and died. News of that reached the Messenger of Allah and he said: 'They have killed him, may Allah kill them! Is not the cure for a lack of knowledge to ask questions?'"'Ata' said: "We heard that the Messenger of Allah said: 'If only he had washed his body and left his head alone where the wound was.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن دون بلاغ عطاء
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (336) السند مرسل: وأما حديث ابن عباس فصحيح،أخرجه أبو داود (337) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 399
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، عن الاعمش ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن كريب مولى ابن عباس، حدثنا ابن عباس ، عن خالته ميمونة ، قالت:" وضعت للنبي صلى الله عليه وسلم غسلا فاغتسل من الجنابة، فاكفا الإناء بشماله على يمينه فغسل كفيه ثلاثا، ثم افاض على فرجه، ثم دلك يده في الارض، ثم مضمض واستنشق، وغسل وجهه ثلاثا، وذراعيه ثلاثا، ثم افاض الماء على سائر جسده، ثم تنحى فغسل رجليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ ، قَالَتْ:" وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا فَاغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى فَرْجِهِ، ثُمَّ دَلَكَ يَدَهُ فِي الأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفَاضَ الْمَاءَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا، آپ نے غسل جنابت کیا اور برتن کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر انڈیلا، اور دونوں ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پہ پانی بہایا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، اور اپنا چہرہ اور بازو تین تین بار دھویا، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر غسل کی جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔
وضاحت: ۱؎: یہ غسل کا مسنون طریقہ ہے، اور اس کی روشنی میں ضروری ہے کہ سارے بدن پر پانی پہنچائے، یا پانی میں ڈوب جائے، کلی کرنی اور ناک میں پانی ڈالنا بھی ضروری ہے، اور جس قدر ممکن ہو بدن کا ملنا بھی ضروری ہے، باقی امور آداب اور سنن سے متعلق ہیں۔
Ibn 'Abbas narrated that his maternal aunt Maimunah said:
"I put out some water for the Prophet to take a bath, and he bathe to cleanse himself from impurity following sexual activity. He tilted the vessel with his left hand, pouring water into his right, and washed his hands three times. Then he pourd water over his private parts, then he rubbed his hands on the ground. Then he rinsed his mouth and nose, and washed his face three times, and his forearms three times. Then he poured water over the rest of his body, then he moved aside and washed his feet."
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا صدقة بن سعيد الحنفي ، حدثنا جميع بن عمير التيمي ، قال: انطلقت مع عمتي وخالتي، فدخلنا على عائشة فسالناها كيف" كان يصنع رسول الله صلى الله عليه وسلم عند غسله من الجنابة؟ قالت: كان يفيض على كفيه ثلاث مرات، ثم يدخلها في الإناء، ثم يغسل راسه ثلاث مرات، ثم يفيض على جسده، ثم يقوم إلى الصلاة"، واما نحن فإنا نغسل رؤسنا خمس مرار من اجل الضفر. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ سَعِيدٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْرٍ التَّيْمِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ عَمَّتِي وَخَالَتِي، فَدَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ فَسَأَلْنَاهَا كَيْفَ" كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ غُسْلِهِ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ قَالَتْ: كَانَ يُفِيضُ عَلَى كَفَّيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يُدْخِلُهَا فِي الْإِنَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ رَأْسَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ يَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ"، وَأَمَّا نَحْنُ فَإِنَّا نَغْسِلُ رُؤْسَنَا خَمْسَ مِرَارٍ مِنْ أَجْلِ الضَّفْرِ.
جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، ہم نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پر تین مرتبہ پانی ڈالتے، پھر انہیں برتن میں داخل کرتے، پھر اپنا سر تین مرتبہ دھوتے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوتے، لیکن ہم عورتیں تو اپنے سر کو چوٹیوں کی وجہ سے پانچ بار دھوتی تھیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 98 (241)، (تحفةالأشراف: 16053)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 17 (67)، مسند احمد (6/273)، سنن الدارمی/الطہارة 67 (775) (ضعیف جدا)» (سند میں جمیع بن عمیر رافضی اور واضع حدیث ہے، نیز صدقہ بن سعید کے یہاں عجائب وغرائب ہیں)
Jumai' bin 'Umair At-Taimi said:
"I went out with my paternal aunt and maternal aunt and we entered upon 'Aishah. We asked her: 'What did the Messenger of Allah do when he had the bath to cleanse himself from sexual impurity?' She said: 'He used to pour water on his hand three times, then he would put them in the vessel and wash his face three times, then he would pour water over his body, then he would get up and perform prayer. As for us, we would wash our heads five times because of our braided hair.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (241) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 399