(موقوف) حدثنا محمد بن رمح ، حدثنا الليث بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن عمار بن ياسر ، انه قال:" سقط عقد عائشة فتخلفت لالتماسه، فانطلق ابو بكر إلى عائشة، فتغيظ عليها في حبسها الناس، فانزل الله عز وجل الرخصة في التيمم، قال:" فمسحنا يومئذ إلى المناكب"، قال: فانطلق ابو بكر إلى عائشة، فقال: ما علمت إنك لمباركة. (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ:" سَقَطَ عِقْدُ عَائِشَةَ فَتَخَلَّفَتْ لِالْتِمَاسِهِ، فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهَا فِي حَبْسِهَا النَّاسَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الرُّخْصَةَ فِي التَّيَمُّمِ، قَالَ:" فَمَسَحْنَا يَوْمَئِذٍ إِلَى الْمَنَاكِبِ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ: مَا عَلِمْتُ إِنَّكِ لَمُبَارَكَةٌ.
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ٹوٹ کر گر گیا، وہ اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور ان پہ ناراض ہوئے، کیونکہ ان کی وجہ سے لوگوں کو رکنا پڑا، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی اجازت والی آیت نازل فرمائی، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت مونڈھوں تک مسح کیا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، اور کہنے لگے: مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنی بابرکت ہو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ثابت ہوئی، اسی طرح اس حدیث سے اور اس کی بعد کی احادیث سے مونڈھوں تک کا مسح ثابت ہوتا ہے، لیکن یہ منسوخ ہے، اب حکم صرف منہ اور پہنچوں تک مسح کرنے کا ہے، جیسا کہ آگے آنے والی احادیث سے ثابت ہے۔
It was narrated that 'Ammar bin Yasir said:
"Aishah dropped a necklace and stayed behind to look for it. Abu Bakr went to 'Aishah and got angry with her for keeping the people waiting. Then Allah revealed the concession allowing dry ablution, so we wiped our arms up to the shoulders. Abu Bakr went to 'Aishah and said: 'I did not know that you are blessed.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث565
اردو حاشہ: (1) خاوند کو مناسب حد تک بیوی کی دلجوئی کرنی چاہیے اگرچہ اس میں کچھ مشقت بھی ہو۔
(2) والدین اپنی اولاد کی غلطی پر زبانی تنبیہ اور جسمانی تادیب سے کام لے سکتے ہیں۔
(3) اس سے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا شرف ظاہر ہوتا ہےکہ ان کی ایک وقتی تکلیف کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو تیمم جیسی سہولت کی نعمت حاصل ہوگئی۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اسی موقع پر حضرت عائشہ کی اسی فضیلت کا اظہار فرمایا تھا۔ دیکھیے: (حدیث: 568)
(5) تیمم میں کندھوں تک ہاتھ پھیرنے کا حکم منسوخ ہے۔ صرف چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کافی ہے جیسا کہ دوسری روایات میں صراحت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 565