عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ رہو! میں ہر خلیل (جگری دوست) کی دلی دوستی سے بری ہوں، اور اگر میں کسی کو خلیل (جگری دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا، بیشک تمہارا یہ ساتھی اللہ کا خلیل (مخلص دوست ہے)“۱؎۔ وکیع کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھی سے اپنے آپ کو مراد لیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: خلیل ایسا جگری دوست ہے کہ جس کے سوا دل میں کسی کی جگہ نہ رہے، اس لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا خلیل (جگری دوست) میرا اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ میرے دل میں اس کی محبت نے ذرہ برابر جگہ نہ چھوڑی کہ اب کسی کی محبت دل میں آ سکے، اور اگر ذرا بھی دل میں گنجائش ہوتی تو میں ابوبکر کو اس میں اس خصوصی دوستی والے جذبہ میں جگہ دیتا، اس حدیث سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی، اور معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ رسول اللہ ﷺ کے جگری دوستی اور خصوصی محبت کے قابل اور مستحق ہیں۔
It was narrated that 'Abdullah said:
"The Messenger of Allah said: 'I have no need of the friendship of any Khalil (close friend) but if I were to have taken anyone as a close friend, I would have taken Abu Bakr as a close friend, but your companion is the close friend of Allah,'" (One of the narrators) Waki' said: (by the phrase 'your companion'), he was referring to himself.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کسی بھی مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے فائدہ پہنچایا“۔ ابوہریرہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا: اللہ کے رسول! میں اور میرا مال سب صرف آپ ہی کا ہے، اے اللہ کے رسول! ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال و دولت اور جاہ و شخصیت سے اسلام کو بڑی تقویت ملی، چنانچہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انہوں نے ابتدائے اسلام میں اور مسلمانوں کی فقر و مسکنت اور قلت تعداد کی حالت میں چالیس ہزار درہم مسلمانوں کی تائید و تقویت میں خرچ کئے، اور قریش سے سات غلاموں کو آزاد کرایا، بلال اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہما انہی میں سے تھے، اور آپ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ اس پر معترض ہوئے تو آپ نے کہا کہ میں اللہ عز وجل کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں اور آیت: «فأما من أعطى واتقى (۵) وصدق بالحسنى (۶)»(سورة الليل: 5-6) اسی باب میں نازل ہوئی۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسلام کی خدمت، کتاب و سنت کی نشر و اشاعت اور اہل علم و دین کی تائید و تقویت میں حصہ لے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان پرور زندگی میں ہمارے لئے بڑی عبرت اور موعظت کا سامان ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"The Messenger of Allah said: 'The wealth of none of you has benefited me as much as the wealth of Abu Bakr.'" Abu Bakr wept and said: 'O Messenger of Allah, I and my wealth are only for you, O Messenger of Allah.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الأعمش مدلس وعنعن وللحديث شاھد ضعيف عند الترمذي (3661) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 378
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سفيان ، عن الحسن بن عمارة ، عن فراس ، عن الشعبي ، عن الحارث ، عن علي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابو بكر، وعمر سيدا كهول اهل الجنة من الاولين، والآخرين، إلا النبيين، والمرسلين، لا تخبرهما يا علي ما داما حيين". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ، وَالْآخِرِينَ، إِلَّا النَّبِيِّينَ، وَالْمُرْسَلِينَ، لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ مَا دَامَا حَيَّيْنِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے ادھیڑ عمر والے جنتیوں کے سردار ہوں گے، علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/ المنا قب 16 (3666)، (تحفة الأشراف: 10035)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ادھیڑ عمر والے جنتیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ادھیڑ عمر ہو کر مرے ہیں کیونکہ جنت میں کوئی ادھیڑ عمر کا نہیں ہو گا سب جوان ہوں گے، «كهول» جمع ہے «كهل» کی، اور «كهل» مردوں میں وہ ہے جس کی عمر تیس سے متجاوز ہو گئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک، اور اس سے مراد یہ ہے کہ جو مسلمان اس عمر تک پہنچ کر انتقال کر گئے ہیں یہ دونوں یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جنت میں ان کے سردار ہوں گے، یا کہولت سے کنایہ کیا عقل و شعور اور فہم و فراست کی پختگی پر یعنی جو دانا اور فہمیدہ لوگ جنت میں ہوں گے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ان کے سردار ہوں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر نبی، نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا اور انبیاء کے بعد شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) سب سے افضل ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر نبی معصوم نہیں ہو سکتا اور معلوم ہوا کہ نبی کے بعد خلافت کے مستحق یہی ہیں اس لئے کہ جب جنت میں یہ سردار ہوں گے تو دنیا کی سرداری میں کیا شک رہا، مگر واقع میں نبی اکرم ﷺ نے انہیں جنتیوں کا سردار فرمایا ہے، جہنمیوں کا نہیں، اس لئے گمراہ اور جاہل ان کی سرداری کا انکار کرتے ہیں۔
It was narrated that 'Ali said:
"The Messenger of Allah said: 'Abu Bakr and 'Umar are the leaders of the mature people of Paradise, and the first and the last, except for the Prophets and Messengers, but do not tell them about that, O 'Ali, as long as they are still alive.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا الحسن بن عمارة: متروك والحارث الأعور: ضعيف وحديث الترمذي (3666) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 378
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلند درجے والوں کو (جنت میں) نیچے درجہ والے دیکھیں گے جس طرح چمکتا ہوا ستارہ آسمان کی بلندیوں میں دیکھا جاتا ہے، اور ابوبکرو عمر بھی انہیں میں سے ہیں، اور ان میں سب سے فائق و برتر ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المنا قب 16 (3658)، (تحفة الأشراف: 4206)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الحروف والقراء ات 1 (3987)، مسند احمد (3/27، 72، 93، 98) (صحیح)» (اس سند میں عطیة العوفی ضعیف ہیں، امام ترمذی نے اسے حسن کہاہے، اور سنن ابی داود کا سیاق اس سے مختلف ہے (3978)، شیخ البانی نے شواہد کی بناء پر اس کی تصحیح کی ہے، صحیح ابن ماجہ: 96)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کے درجات کی بلندی کا علم ہوتا ہے۔
It was narrated that Abu Sa'eed Al-Khudri said:
"The Messenger of Allah said: 'The people of the highest degrees of Paradise will be seen by those beneath them as a rising star is seen on the horizon. Abu Bakr and 'Umar will be among them, and how blessed they are!'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن قال ابي رحمه الله: وله شاھد حسن عند الطبراني في الاوسط (6/ 7 ح 6003 وسنده حسن، نسخه اخريٰ: ح 6006) قلت يعني معاذ: وله شاھد حسن عند البزار (البحر الزخار: 17/ 84 ح 9619 وسنده حسن) وامالي ابن منده (6) ولفظه: ’’إن الرجل من أهل الجنة ليشرف علي أهل الجنة كأنه كوكب دري، وإن أبا بكر، وعمر منهم، وأنعما‘‘
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں جانتا کہ کب تک میں تمہارے درمیان رہوں، پس میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کی جانب اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 16 (3662، 3663)، (تحفة الأشراف: 3317)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/382، 385، 399، 402) (صحیح)»
It was narrated that Hudhaifah bin Yaman said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'I do not know how long I will stay among you, so follow the example of these two after I am gone,' and he pointed to Abu Bakr and `Umar."
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابن المبارك ، عن عمر بن سعيد بن ابي حسين ، عن ابن ابي مليكة ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: لما وضع عمر على سريره، اكتنفه الناس يدعون، ويصلون، او قال: يثنون، ويصلون عليه قبل ان يرفع وانا فيهم، فلم يرعني إلا رجل قد زحمني، واخذ بمنكبي، فالتفت فإذا علي بن ابي طالب، فترحم على عمر، ثم قال: ما خلفت احدا احب إلي ان القى الله بمثل عمله منك، وايم الله، إن كنت لاظن ليجعلنك الله عز وجل مع صاحبيك، وذلك اني كنت اكثر ان اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ذهبت انا، وابو بكر، وعمر، ودخلت انا، وابو بكر، وعمر، وخرجت انا، وابو بكر، وعمر، فكنت اظن ليجعلنك الله مع صاحبيك". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: لَمَّا وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ، اكْتَنَفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ، وَيُصَلُّونَ، أَوْ قَالَ: يُثْنُونَ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَجُلٌ قَدْ زَحَمَنِي، وَأَخَذَ بِمَنْكِبِي، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، ثُمَّ قَالَ: مَا خَلَّفْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، وَايْمُ اللَّهِ، إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ لَيَجْعَلَنَّكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَعَ صَاحِبَيْكَ، وَذَلِكَ أَنِّي كُنْتُ أَكْثَرُ أَنْ أَسْمَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" ذَهَبْتُ أَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَكُنْتُ أَظُنُّ لَيَجْعَلَنَّكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ".
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو (وفات کے بعد) ان کی چارپائی پہ لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا، اور دعا کرنے لگے، یا کہا: تعریف کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے دعا کرنے لگے، میں بھی انہیں میں تھا، تو مجھے صرف اس شخص نے خوف زدہ کیا جو لوگوں کو دھکا دے کر میرے پاس آیا، اور میرا کندھا پکڑ لیا، میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے کہا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، پھر بولے: میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا جس کا عمل آپ کے عمل سے زیادہ مجھے عزیز و پیارا ہو کہ میں اس عمل کو لے کر اللہ سے ملوں، اور قسم ہے اللہ کی! میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ رکھے گا، اس وجہ سے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر فرماتے ہوئے سنتا تھا: ”میں اور ابوبکرو عمر گئے، میں اور ابوبکرو عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکرو عمر نکلے“، لہٰذا میں آپ کے ان باتوں کی وجہ سے یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ (جنت میں) رکھے گا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے عمر رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت معلوم ہوئی، اور معلوم ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان سے خاص محبت تھی، وہ ان کے جنازے کو گھیرے ہوئے تھے، اور ان کے لئے دعا ئے خیر کر رہے تھے، اور معلوم ہوا کہ علی اور شیخین (ابوبکر و عمر) رضی اللہ عنہم کے دلوں میں کسی طرح کا بغض و حسد اور کینہ نہ تھا جیسا کہ روافض اور شیعہ وغیرہ کا خیال باطل ہے، اور معلوم ہوا کہ شیخین نبی کریم ﷺ کے دوست اور رفیق تھے کہ اکثر آپ ﷺ نشست و برخاست اور جمیع حالات میں ان کی معیت اور رفاقت بیان فرماتے تھے، اور مرنے کے بعد بھی قیامت تک تینوں ایک ہی جگہ یعنی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں مدفون ہیں، اور جنت میں بھی بفضل الٰہی ساتھ ساتھ ہوں گے۔
It was narrated that Ibn Abi Mulaikah said:
"I heard Ibn 'Abbas say: 'When 'Umar was placed on his bed (i.e., his bier), the people around him gathered around him, praying and invoking blessings upon him,' or he said, 'praising him and invoking blessings upon him before (the bier) was lifted up, and I was among them. No one alarmed me except a man who crowded against me and seized me by the shoulder. I turned and saw that it was 'Ali bin Abu Talib. He prayed for mercy for 'Umar, then he said: "You have not left behind anyone who it is more beloved to me to meet Allah with the like of his deeds than yourself. By Allah, I think that Allah will most certainly unite you with your two companions, and that is because I often heard the Messenger of Allah saying: 'Abu Bakr, 'Umar and I went; Abu Bakr, 'Umar and I came in; Abu Bakr, 'Umar and I went out.' So I think that Allah will most certainly join you to your two companions."
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرو عمر کے درمیان نکلے، اور فرمایا: ”ہم اسی طرح قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 16 (3669)، (تحفة الأشراف: 7499) (ضعیف)» (سند میں راوی سعید بن مسلمہ منکر الحدیث ہیں)
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکرو عمر انبیاء و رسل کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں جنت کے ادھیڑ لوگوں کے سردار ہوں گے“۔
It was narrated from 'Awn bin Abi Juhaifah that his father said:
"The Messenger of Allah said: 'Abu Bakr and 'Umar are the leaders of the mature people of Paradise, the first and the last, except for the Prophets and the Messengers.'"
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ“، عرض کیا گیا: مردوں میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے والد (ابوبکر)“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے بڑے چہیتے اور محبوب تھے، اور جو آپ ﷺ کا چہیتا اور محبوب ہو وہ اللہ تعالیٰ کا چہیتا اور محبوب ہے۔
It was narrated that Anas said:
"It was said: 'O Messenger of Allah, which of the people is most beloved to you?' He said: "Aishah.' It was asked, 'And among men?' He said: 'Her father.'"
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا؟ کہا: ابوبکر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: ابوعبیدہ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المنا قب 14، (3657)، (تحفة الأشراف: 16212)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/218) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خلاصہ یہ ہے کہ محبت کے مختلف وجوہ و اسباب ہوتے ہیں، چنانچہ نبی ﷺ کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت بیٹی ہونے کے اعتبار سے اور ان کے زہد و عبادت کی وجہ سے تھی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت زوجیت، دینی بصیرت، اور فہم و فراست کے سبب تھی، اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت اسلام میں سبقت، دین کی بلندی، علم کی زیادتی، شریعت کی حفاظت اور اسلام کی تائید کے سبب تھی، شیخین کے یہ کمالات و مناقب کسی پر پوشیدہ نہیں، اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے محبت اس لئے تھی کہ ان کے ہاتھ پر متعدد فتوحات اسلام ہوئیں۔
It was narrated that 'Abdullah bin Shaqiq said:
"I said to 'Aishah: 'Which of the (Prophet's) Companions was most beloved to him?' She said: 'Abu Bakr.' I said: 'Then which of them?' She said: ''Umar.' I said: 'Then which of them?' She said: 'Abu 'Ubaidah.'"