عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا اور راوی نے ایک واقعہ ذکر کیا، اس میں ہے: تو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوئے اور ہم نے آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم (2647)، (تحفة الأشراف: 7298) (ضعیف)» (اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں)
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون , اخبرنا خالد , عن حصين , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن اسيد بن حضير رجل من الانصار , قال:" يحدث القوم وكان فيه مزاح بينا يضحكهم , فطعنه النبي صلى الله عليه وسلم في خاصرته بعود , فقال: اصبرني , فقال: اصطبر , قال: إن عليك قميصا وليس علي قميص , فرفع النبي صلى الله عليه وسلم عن قميصه , فاحتضنه وجعل يقبل كشحه , قال: إنما اردت هذا يا رسول الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ , أَخْبَرَنَا خَالِدٌ , عَنْ حُصَيْنٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ , قال:" يُحَدِّثُ الْقَوْمَ وَكَانَ فِيهِ مِزَاحٌ بَيْنَا يُضْحِكُهُمْ , فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَاصِرَتِهِ بِعُودٍ , فَقَالَ: أَصْبِرْنِي , فَقَالَ: اصْطَبِرْ , قَالَ: إِنَّ عَلَيْكَ قَمِيصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيصٌ , فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَمِيصِهِ , فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ كَشْحَهُ , قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ".
اسید بن حضیرانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور وہ مسخرے والے آدمی تھے لوگوں کو ہنسا رہے تھے کہ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوکھ میں لکڑی سے ایک کونچہ دیا، تو وہ بولے: اللہ کے رسول! مجھے اس کا بدلہ دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”بدلہ لے لو“ تو انہوں نے کہا: آپ تو قمیص پہنے ہوئے ہیں میں تو ننگا تھا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اٹھا دی، تو وہ آپ سے چمٹ گئے، اور آپ کے پہلو کے بوسے لینے لگے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میرا منشأ یہی تھا۔
Narrated Usayd ibn Hudayr,: Abdur Rahman ibn Abu Layla, quoting Usayd ibn Hudayr, a man of the Ansar, said that while he was given to jesting and was talking to the people and making them laugh, the Prophet ﷺ poked him under the ribs with a stick. He said: Let me take retaliation. He said: Take retaliation. He said: You are wearing a shirt but I am not. The Prophet ﷺ then raised his shirt and the man embraced him and began to kiss his side. Then he said: This is what I wanted, Messenger of Allah!
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5205
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (4685) وله لون الآخر عند الحاكم (3/288 ح5262 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا محمد بن عيسى بن الطباع , حدثنا مطر بن عبد الرحمن الاعنق , حدثتني ام ابان بنت الوازع بن زارع , عن جدها زارع , وكان في وفد عبد القيس , قال:" لما قدمنا المدينة , فجعلنا نتبادر من رواحلنا , فنقبل يد النبي صلى الله عليه وسلم ورجله , قال: وانتظر المنذر الاشج حتى اتى عيبته , فلبس ثوبيه , ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم , فقال له: إن فيك خلتين يحبهما الله: الحلم والاناة , قال: يا رسول الله , انا اتخلق بهما ام الله جبلني عليهما؟ قال: بل الله جبلك عليهما , قال: الحمد لله الذي جبلني على خلتين يحبهما الله ورسوله". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنُ الطَّبَّاعِ , حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْنَقُ , حَدَّثَتْنِي أُمُّ أَبَانَ بِنْتُ الْوَازِعِ بْنِ زَارِعٍ , عَنْ جِدِّهَا زَارِعٍ , وَكَانَ فِي وَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ , قَالَ:" لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ , فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا , فَنُقَبِّلُ يَدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَهُ , قَالَ: وَانْتَظَرَ الْمُنْذِرُ الْأَشَجُّ حَتَّى أَتَى عَيْبَتَهُ , فَلَبِسَ ثَوْبَيْهِ , ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لَهُ: إِنَّ فِيكَ خَلَّتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ: الْحِلْمُ وَالْأَنَاةُ , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنَا أَتَخَلَّقُ بِهِمَا أَمْ اللَّهُ جَبَلَنِي عَلَيْهِمَا؟ قَالَ: بَلِ اللَّهُ جَبَلَكَ عَلَيْهِمَا , قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَبَلَنِي عَلَى خَلَّتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ".
زارع سے روایت ہے، وہ وفد عبدالقیس میں تھے وہ کہتے ہیں جب ہم مدینہ پہنچے تو اپنے اونٹوں سے جلدی جلدی اترنے لگے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اور پیروں کا بوسہ لینے لگے، اور منذر اشج انتظار میں رہے یہاں تک کہ وہ اپنے کپڑے کے صندوق کے پاس آئے اور دو کپڑے نکال کر پہن لیے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: ”تم میں دو خصلتیں ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں: ایک بردباری اور دوسری وقار و متانت“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ دونوں خصلتیں جو مجھ میں ہیں میں نے اختیار کیا ہے؟ (کسبی ہیں)(یا وہبی) اللہ نے مجھ میں پیدائش سے یہ خصلتیں رکھی ہیں، آپ نے فرمایا: بلکہ اللہ نے پیدائش سے ہی تم میں یہ خصلتیں رکھی ہیں، اس پر انہوں نے کہا: اللہ تیرا شکر ہے جس نے مجھے دو ایسی خصلتوں کے ساتھ پیدا کیا جن دونوں کو اللہ اور اس کے رسول پسند فرماتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3617)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/206) (صحیح)» (البانی صاحب نے پہلے فقرے کی تحسین کی ہے، اور ہاتھ اور پاؤں چومنے کو ضعیف کہا ہے، بقیہ بعد کی حدیث کی تصحیح کی ہے، یعنی شواہد کے بناء پر، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 3؍ 282)
Narrated al-Wazi ibn Zari: Umm Aban, daughter of al-Wazi ibn Zari, quoting his grandfather, who was a member of the deputation of AbdulQays, said: When we came to Madina, we raced to be first to dismount and kiss the hand and foot of the Messenger of Allah ﷺ. But al-Mundhir al-Ashajj waited until he came to the bundle of his clothes. He put on his two garments and then he went to the Prophet ﷺ. He said to him: You have two characteristics which Allah likes: gentleness and deliberation. He asked: Have I acquired them or has Allah has created (them) my nature? He replied: No, Allah has created (them) in your nature. He then said: Praise be to Allah Who has created in my nature two characteristics which Allah and His Messenger like.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5206
قال الشيخ الألباني: حسن دون ذكر الرجلين
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أم أبان لم أجد من وثقھا فھي: مجهولة كما في التحرير(8700) وللهيثمي كلام مشوش في المجمع (390/9) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 181
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو پکارا: اے ابوذر! میں نے کہا: میں حاضر ہوں حکم فرمائیے اللہ کے رسول! میں آپ پر فدا ہوں۔
Narrated Abu Dharr: The Prophet ﷺ addressed me, saying: O Abu Dharr! I replied: At thy service and at thy pleasure, Messenger of Allah! may I be ransom for thee.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5207
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حماد بن أبي سليمان عنعن وحديث البخاري (6268) و مسلم (94 بعد 921) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 181
(مرفوع) حدثنا سلمة بن شبيب , حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن قتادة او غيره , ان عمران بن حصين , قال:" كنا نقول في الجاهلية انعم الله بك عينا وانعم صباحا , فلما كان الإسلام , نهينا عن ذلك" , قال عبد الرزاق , قال معمر: يكره ان يقول الرجل: انعم الله بك عينا , ولا باس ان يقول انعم الله عينك". (مرفوع) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ أَوْ غَيْرِهِ , أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ , قَالَ:" كُنَّا نَقُولُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا وَأَنْعِمْ صَبَاحًا , فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ , نُهِينَا عَنْ ذَلِكَ" , قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ مَعْمَرٌ: يُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ: أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا , وَلَا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَيْنَكَ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں کہا کرتے تھے: «أنعم الله بك عينا وأنعم صباحا»”اللہ تمہاری آنکھ ٹھنڈی رکھے اور صبح خوشگوار بنائے“ لیکن جب اسلام آیا تو ہمیں اس طرح کہنے سے روک دیا گیا۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ معمر کہتے ہیں: «أنعم الله بك عينا» کہنا مکروہ ہے اور «أنعم الله عينك» کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10836) (ضعیف الإسناد)» (قتادہ مدلس ہیں اور «أنَّ» سے روایت کئے ہیں نیز معمر نے شک سے روایت کیا ہے، قتادہ یا کسی اور سے)
Narrated Imran ibn Husayn: In the pre-Islamic period we used to say: "May Allah make the eye happy for you, " and "Good morning" but when Islam came, we were forbidden to say that. AbdurRazzaq said on the authority of Mamar: It is disapproved that a man should say: "May Allah make the eye happy for you, " but there is no harm in saying: "May Allah make your eye happy.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5208
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة لم يسمع من عمران بن حصين رضي اللّٰه عنه (انظر تحفة الأشراف 186/8) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 181
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل , حدثنا حماد , عن ثابت البناني , عن عبد الله بن رباح الانصاري , قال: حدثنا ابو قتادة ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان في سفر له , فعطشوا , فانطلق سرعان الناس , فلزمت رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الليلة , فقال: حفظك الله بما حفظت به نبيه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيِّ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ فِي سَفَرٍ لَهُ , فَعَطِشُوا , فَانْطَلَقَ سَرْعَانُ النَّاسِ , فَلَزِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ , فَقَالَ: حَفِظَكَ اللَّهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ".
عبداللہ بن رباح انصاری کہتے ہیں کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے، لوگ پیاسے ہوئے تو جلدباز لوگ آگے نکل گئے، لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی اس رات رہا (آپ کو چھوڑ کر نہ گیا) تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تیری حفاظت فرمائے جس طرح تو نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (437)، (تحفة الأشراف: 12091) (صحیح)»
Abu Qatadah said: The Prophet ﷺ was on journey. The people became thirsty, and they went quickly. I guarded the Messenger of Allah ﷺ on that night. He said: May Allah guard you for the reason you have guarded His Prophet!
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5209
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل , حدثنا حماد , عن حبيب بن الشهيد , عن ابي مجلز , قال:" خرج معاوية على ابن الزبير وابن عامر , فقام ابن عامر وجلس ابن الزبير , فقال معاوية لابن عامر: اجلس , فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من احب ان يمثل له الرجال قياما فليتبوا مقعده من النار". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ , عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ , قَالَ:" خَرَجَ مُعَاوِيَةُ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنِ عَامِرٍ , فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ وَجَلَسَ ابْنُ الزُّبَيْرِ , فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِابْنِ عَامِرٍ: اجْلِسْ , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
ابومجلز کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ابن زبیر اور ابن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے، معاویہ نے ابن عامر سے کہا: بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو یہ چاہے کہ لوگ اس کے سامنے (با ادب) کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب 13 (2755)، (تحفة الأشراف: 11448)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/91، 93، 100) (صحیح)»
Narrated Muawiyah: Abu Mijlaz said: Muawiyah went out to Ibn az-Zubayr and Ibn Amir. Ibn Amir got up and Ibn az-Zubayr remained sitting. Muawiyah said to Ibn Amir: Sit down, for I heard the Messenger of Allah ﷺ say: Let him who likes people to stand up before him prepare his place in Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5210
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (4699) وللحديث شاھد قوي عند الطبراني (19/362)
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس ایک چھڑی کا سہارا لیے ہوئے تشریف لائے تو ہم سب کھڑے ہو گئے، آپ نے فرمایا: ”عجمیوں کی طرح ایک دوسرے کے احترام میں کھڑے نہ ہوا کرو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الدعاء 2 (3836)، (تحفة الأشراف: 4934)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/253، 256) (ضعیف)» (اس کے راوی ابوالدبس مجہول، اور ابومرزوق لین الحدیث ہیں لیکن بیٹھے ہوئے آدمی کے لئے باادب کھڑے رہنے کی ممانعت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے صحیح مسلم میں مروی ہے)
Narrated Abu Umamah: The Messenger of Allah ﷺ came out to us leaning on a stick. We stood up to show respect to him. He said: Do not stand up as foreigners do for showing respect to one another.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5211
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن النهي عن فعل فارس في م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (3836) أبو مرزوق لين (تق: 8353) و أبو العدبس: مجهول (تق: 8248) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 181
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا إسماعيل , عن غالب , قال: إنا لجلوس بباب الحسن إذ جاء رجل , فقال حدثني ابي , عن جدي , قال:" بعثني ابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: ائته , فاقرئه السلام , قال: فاتيته , فقلت: إن ابي يقرئك السلام , فقال: عليك السلام وعلى ابيك السلام". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل , عَنْ غَالِبٍ , قَالَ: إِنَّا لَجُلُوسٌ بِباب الْحَسَنِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ , فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ جَدِّي , قَالَ:" بَعَثَنِي أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: ائْتِهِ , فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ , قَالَ: فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ , فَقَالَ: عَلَيْكَ السَّلَامُ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ".
غالب کہتے ہیں کہ ہم حسن کے دروازے پر بیٹھے تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میرے باپ نے میرے دادا سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: مجھے میرے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور کہا: ”آپ کے پاس جاؤ اور آپ کو میرا سلام کہو“ میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا: میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تم پر اور تمہارے والد پر بھی سلام ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (2934)، (تحفة الأشراف: 15711)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/366) (ضعیف)» (اس کی سند میں کئی مجاہیل ہیں، البانی نے اسے حسن کہا ہے، صحیح ابی داود، 3؍ 482، جبکہ (2934) نمبر کی سابقہ حدیث (جو اس سند سے مفصل ہے) پر ضعف کا حکم لگایا ہے)
Narrated A man: Ghalib said: When we were sitting at al-Hasan's door, a man came along. He said: My father told me on the authority of my grandfather, saying: My father sent me to the Messenger of Allah ﷺ and said: Go to him and give him a greeting. So I went to him and said: My father sends you a greeting. He said: Upon you and upon your father be peace.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5212
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال المنذري:”ھذا الإسنادفيه مجاهيل“ (عون المعبود 528/4) وانظرالحديث السابق (2934) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 181
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جبرائیل تجھے سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: «وعليه السلام ورحمة الله»”ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو“۔