سنن ابي داود
أبواب السلام
ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
166. باب فِي قِيَامِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ
باب: ایک شخص دوسرے شخص کے احترام میں کھڑا ہو جائے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 5229
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ , عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ , قَالَ:" خَرَجَ مُعَاوِيَةُ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنِ عَامِرٍ , فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ وَجَلَسَ ابْنُ الزُّبَيْرِ , فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِابْنِ عَامِرٍ: اجْلِسْ , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
ابومجلز کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ابن زبیر اور ابن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے، معاویہ نے ابن عامر سے کہا: بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو یہ چاہے کہ لوگ اس کے سامنے (با ادب) کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب 13 (2755)، (تحفة الأشراف: 11448)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/91، 93، 100) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (4699)
وللحديث شاھد قوي عند الطبراني (19/362)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 5229 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5229
فوائد ومسائل:
1۔
مجوسی اور دیگر اہل جاہلیت اپنے بڑے کا احترام اسی طرح کرتے تھی بلکہ اب تک ان کی یہی عادت ہے کہ بڑے کو احترام دینے کے لئے یہ لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب تک وہ خود نہ بیٹھ جائے یا بیٹھنے کا کہے نہیں، نہیں بیٹھتے ہیں۔
شرع اسلامی میں اس انداز سے احترام کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔
2: ہاں اگر کوئی محبت سے ازخود کھڑا ہو جائے بالخصوص جب آگے بڑھ کر مصافحہ اور معانقہ کرنا ہو تو کوئی حرج نہیں، جیسے گزشتہ باب فی القیام، حدیث٥٢١٥ میں گزرا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5229
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2755
´آدمی کا آدمی کے (اعزاز و تکریم کے) لیے کھڑا ہونا (یعنی قیام تعظیمی) مکروہ ہے۔`
ابومجلز کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ باہر نکلے، عبداللہ بن زبیر اور ابن صفوان انہیں دیکھ کر (احتراماً) کھڑے ہو گئے۔ تو معاویہ رضی الله عنہ نے کہا تم دونوں بیٹھ جاؤ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2755]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ ادب وتعظیم کی خاطرکسی کے لیے کھڑا ہونا مکروہ ہے،
البتہ کسی معذورشخص کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے،
نیز اگر کسی آنے والے کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کو لے کرمجلس میں آئے اور بیٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیساکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ کے لیے کرتی تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2755