(مرفوع) حدثنا وهب بن بقية، عن خالد، عن داود، عن بكر: ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث ابا ذر بهذا الحديث، قال ابو داود: وهذا اصح الحديثين. (مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ بَكْرٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا ذَرٍّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَصَحُّ الْحَدِيثَيْنِ.
بکر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر کو بھیجا آگے یہی حدیث مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: دونوں حدیثوں میں یہ زیادہ صحیح ہے۔
Bakr said: The Prophet ﷺ sent Muadh for some of his work. He then transmitted the rest of the tradition mentioned above. Abu Dawud said: This tradition is sounder of the two traditions.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4765
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (4782)
(مرفوع) حدثنا بكر بن خلف، والحسن بن علي، المعنى، قالا: حدثنا إبراهيم بن خالد، حدثنا ابو وائل القاص، قال: دخلنا على عروة بن محمد السعدي فكلمه رجل، فاغضبه، فقام فتوضا، ثم رجع وقد توضا، فقال: حدثني ابي، عن جدي عطية، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الغضب من الشيطان، وإن الشيطان خلق من النار، وإنما تطفا النار بالماء، فإذا غضب احدكم، فليتوضا". (مرفوع) حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ الْقَاصُّ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ السَّعْدِيِّ فَكَلَّمَهُ رَجُلٌ، فَأَغْضَبَهُ، فَقَامَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَجَعَ وَقَدْ تَوَضَّأَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي عَطِيَّةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ، فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَتَوَضَّأْ".
ابووائل قاص کہتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد بن سعدی کے پاس داخل ہوئے، ان سے ایک شخص نے گفتگو کی تو انہیں غصہ کر دیا، وہ کھڑے ہوئے اور وضو کیا، پھر لوٹے اور وہ وضو کئے ہوئے تھے، اور بولے: میرے والد نے مجھ سے بیان کیا وہ میرے دادا عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غصہ شیطان کے سبب ہوتا ہے، اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے، اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تو وضو کر لے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 9903)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/226) (ضعیف)» (عروة بن محمد لین الحدیث ہیں)
Narrated Atiyyah as-Saadi: Abu Wail al-Qass said: We entered upon Urwah ibn Muhammad ibn as-Saadi. A man spoke to him and made him angry. So he stood and performed ablution; he then returned and performed ablution, and said: My father told me on the authority of my grandfather Atiyyah who reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Anger comes from the devil, the devil was created of fire, and fire is extinguished only with water; so when one of you becomes angry, he should perform ablution.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4766
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (5113) عروة بن محمد السعدي وأبوه وثقھما ابن حبان والحاكم والذھبي وغيرھم فحديثھما لا ينزل عن درجة الحسن
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، انها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم في امرين إلا اختار ايسرهما ما لم يكن إثما، فإن كان إثما كان ابعد الناس منه، وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا ان تنتهك حرمة الله تعالى، فينتقم لله بها". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ تَعَالَى، فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ بِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں جب بھی اختیار کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس میں آسان تر کو منتخب کیا، جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاطر کبھی انتقام نہیں لیا، اس صورت کے علاوہ کہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہو تو آپ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے بدلہ لیتے ۱؎۔
Aishah said: The Messenger of Allah ﷺ was never given his choice between two things without taking the easier (or lesser) of them provided it involved no sin, for if it did, no one kept farther away from it than he. And the Messenger of Allah ﷺ never took revenge on his own behalf for anything unless something Allah had forbidden has been transgressed, in which event he took revenge for it for Allah’s sake.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4767
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6126) صحيح مسلم (2327)
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اللہ کے فرمان «خذ العفو»”عفو کو اختیار کرو“ کی تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کے اخلاق میں سے عفو کو اختیار کریں۔
Explaining the Quranic verse “hold to forgiveness”, Abdullah bin Al-Zubair said: The prophet of Allah ﷺ was commanded to hold to forgiveness from the conduct of the people.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4769
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی شخص کے بارے میں کوئی بری بات پہنچتی تو آپ یوں نہ فرماتے: ”فلاں کو کیا ہوا کہ وہ ایسا کہتا ہے؟“ بلکہ یوں فرماتے: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو ایسا اور ایسا کہتے ہیں“۔
Narrated Aishah, Ummul Muminin: When the Prophet ﷺ was informed of anything of a certain man, he would not say: What is the matter with so and so that he says? But he would say: What is the matter with the people that they say such and such?
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4770
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6101) صحيح مسلم (2356)
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا سلم العلوي، عن انس،" ان رجلا دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه اثر صفرة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قلما يواجه رجلا في وجهه بشيء يكرهه، فلما خرج، قال: لو امرتم هذا ان يغسل ذا عنه"، قال ابو داود: سلم ليس هو علويا، كان يبصر في النجوم، وشهد عند عدي بن ارطاة على رؤية الهلال، فلم يجز شهادته. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلْمٌ الْعَلَوِيُّ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّمَا يُوَاجِهُ رَجُلًا فِي وَجْهِهِ بِشَيْءٍ يَكْرَهُهُ، فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَ: لَوْ أَمَرْتُمْ هَذَا أَنْ يَغْسِلَ ذَا عَنْهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَلْمٌ لَيْسَ هُوَ عَلَوِيًّا، كَانَ يُبْصِرُ فِي النُّجُومِ، وَشَهِدَ عِنْدَ عَدِيِّ بْنِ أَرْطَاةَ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلَالِ، فَلَمْ يُجِزْ شَهَادَتَهُ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس پر زردی کا نشان تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ آپ بہت کم کسی ایسے شخص کے روبرو ہوتے، جس کے چہرے پر کوئی ایسی چیز ہوتی جسے آپ ناپسند کرتے تو جب وہ نکل گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش تم لوگ اس سے کہتے کہ وہ اسے اپنے سے دھو ڈالے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سلم علوی (یعنی اولاد علی میں سے) نہیں تھا بلکہ وہ ستارے دیکھا کرتا تھا ۱؎ اور اس نے عدی بن ارطاۃ کے پاس چاند دیکھنے کی گواہی دی تو انہوں نے اس کی گواہی قبول نہیں کی۔
Narrated Anas ibn Malik: A man who had the mark of yellowness on him came to the Messenger of Allah ﷺ. The Messenger of Allah ﷺ rarely mentioned anything of a man which he disliked before him. When he went out, he said: Would that you asked him to wash it from him. Abu Dawud said: Salam is not 'Alawi (from the descendants of Ali). He used to foretell events by stars. He bore witness before Abi bin Arafat to the visibility of moon, but he did not accept his witness.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4771
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (4182) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 166
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا سفيان، عن ابن المنكدر، عن عروة، عن عائشة، قالت:" استاذن رجل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: بئس ابن العشيرة، او بئس رجل العشيرة، ثم قال: ائذنوا له، فلما دخل الان له القول، فقالت عائشة: يا رسول الله، النت له القول وقد قلت له ما قلت، قال: إن شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة من ودعه، او تركه الناس لاتقاء فحشه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ، أَوْ بِئْسَ رَجُلُ الْعَشِيرَةِ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنُوا لَهُ، فَلَمَّا دَخَلَ أَلَانَ لَهُ الْقَوْلَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ وَقَدْ قُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ، قَالَ: إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ وَدَعَهُ، أَوْ تَرَكَهُ النَّاسُ لِاتِّقَاءِ فُحْشِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے خاندان کا لڑکا یا خاندان کا آدمی برا شخص ہے“ پھر فرمایا: اسے اجازت دے دو، جب وہ اندر آ گیا تو آپ نے اس سے نرمی سے گفتگو کی، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس سے نرم گفتگو کی حالانکہ آپ اس کے متعلق ایسی ایسی باتیں کہہ چکے تھے، آپ نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے برا شخص اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہو گا جس سے لوگوں نے اس کی فحش کلامی سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کر لی ہو یا اسے چھوڑ دیا ہو“۔
Aishah said: A man asked permission to see the Prophet ﷺ, and he said: He is a bad son of the tribe, or: He is a bad member of the tribe. He then said: Give him permission. Then when he entered, he spoke to him leniently. Aishah asked: Messenger of Allah! You spoke to him leniently while you said about him what you said! He replied: The one who will have the worst position in Allah’s estimation on the day of resurrection will be the one whom people left alone for fear of his ribaldry.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4773
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6054) صحيح مسلم (2591)
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن عائشة:" ان رجلا استاذن على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: بئس اخو العشيرة، فلما دخل انبسط إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكلمه، فلما خرج، قلت: يا رسول الله، لما استاذن؟ قلت: بئس اخو العشيرة، فلما دخل انبسطت إليه، فقال: يا عائشة، إن الله لا يحب الفاحش المتفحش". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:" أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمَّا اسْتَأْذَنَ؟ قُلْتَ: بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطْتَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے کنبے کا برا شخص ہے“ جب وہ اندر آ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کشادہ دلی سے ملے اور اس سے باتیں کیں، جب وہ نکل کر چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب اس نے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے کنبے کا برا شخص ہے، اور جب وہ اندر آ گیا تو آپ اس سے کشادہ دلی سے ملے“ آپ نے فرمایا: ”عائشہ! اللہ تعالیٰ کو فحش گو اور منہ پھٹ شخص پسند نہیں“۔
Narrated Aishah, Ummul Muminin: A man asked permission to see the Prophet ﷺ, and the Prophet ﷺ said: He is a bad member of the tribe. When he entered, the Messenger of Allah ﷺ treated in a frank and friendly way and spoke to him. When he departed, I said: Messenger of Allah! When he asked permission, you said: He is a bad member of the tribe, but when he entered, you treated him in a frank and friendly way. The Messenger of Allah replied: Aishah! Allah does not like the one who is unseemly and lewd in his language.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4774
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن وله شاھد حسن عند أحمد (6/258)