سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
6. باب فِي حُسْنِ الْعِشْرَةِ
باب: حسن معاشرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4792
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:" أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمَّا اسْتَأْذَنَ؟ قُلْتَ: بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطْتَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے کنبے کا برا شخص ہے“ جب وہ اندر آ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کشادہ دلی سے ملے اور اس سے باتیں کیں، جب وہ نکل کر چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب اس نے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے کنبے کا برا شخص ہے، اور جب وہ اندر آ گیا تو آپ اس سے کشادہ دلی سے ملے“ آپ نے فرمایا: ”عائشہ! اللہ تعالیٰ کو فحش گو اور منہ پھٹ شخص پسند نہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17755) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
وله شاھد حسن عند أحمد (6/258)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4792 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4792
فوائد ومسائل:
1) قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں کہ یہ شخص عیینہ بن حسن فزاری تھا جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں مسلمان ہوا تھا، مگر دورِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں مرتدین سے جا ملا اور پھر اسے قیدی بنا کر لایا گیا تھا۔
2) علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص علی الاعلان فسق و فجور و ظلم کا مرتکب ہو تا ہے یا کسی بدعت کا داعی ہے، اس کی غیبت کرنا جائز ہے۔
اور اس قسم کے لوگوں کے شر سے بچنے کے لیئے ان کے ساتھ مدارات یعنی رواداری کا معاملہ کرنا مباح ہے، بشرطیکہ دین میں مُدَا ہَنت لازم نہ آتی ہو۔
3) مدارات اور مُدَاہَنت میں فرق یہ ہے کہ دینی یا دنیاوی فوائد کے لیئے کسی کے ساتھ اپنے شخصی اور دنیاوی حقوق نظر انداز کر دینا مدارات ہوتی ہے۔
یہ ایک جائز امر ہے، بلکہ نعض دفع مستحب ہے۔
جبکہ مُدَاہَنت یہ ہے کہ انسان کسی کے ساتھ محض دنیاوی مفادات کے لیئے دین کے تقاضوں کو نظر انداز کر دے۔
یہ کسی صورت میں جائز نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4792