ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ حسد سے بچو، اس لیے کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا لیتا ہے، جیسے آگ ایندھن کو کھا لیتی ہے یا کہا گھاس کو (کھا لیتی ہے)۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: Avoid envy, for envy devours good deeds just as fire devours fuel or (he said) "grass. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4885
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جد إبراهيم بن أبي أسيد لا يعرف (تق: 8503) وللحديث شاهد ضعيف في سنن ابن ماجه: 4210 انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، قال: اخبرني سعيد بن عبد الرحمن بن ابي العمياء، ان سهل بن ابي امامة حدثه، انه دخل هو وابوه على انس بن مالك بالمدينة في زمان عمر بن عبد العزيز وهو امير المدينة، فإذا هو يصلي صلاة خفيفة دقيقة كانها صلاة مسافر او قريبا منها فلما سلم، قال ابي: يرحمك الله، ارايت هذه الصلاة المكتوبة او شيء تنفلته؟ , قال: إنها المكتوبة وإنها لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما اخطات إلا شيئا سهوت عنه، فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يقول:" لا تشددوا على انفسكم فيشدد عليكم، فإن قوما شددوا على انفسهم فشدد الله عليهم فتلك بقاياهم في الصوامع والديار ورهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم , ثم غدا من الغد، فقال: الا تركب لتنظر ولتعتبر، قال: نعم، فركبوا جميعا فإذا هم بديار باد اهلها وانقضوا وفنوا خاوية على عروشها، فقال: اتعرف هذه الديار، فقلت: ما اعرفني بها وباهلها، هذه ديار قوم اهلكهم البغي والحسد إن الحسد يطفئ نور الحسنات والبغي يصدق ذلك او يكذبه والعين تزني والكف والقدم والجسد واللسان والفرج يصدق ذلك او يكذبه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْعَمْيَاءِ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي أُمَامَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ هُوَ وَأَبُوهُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِالْمَدِينَةِ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي صَلَاةً خَفِيفَةً دَقِيقَةً كَأَنَّهَا صَلَاةُ مُسَافِرٍ أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ أَبِي: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، أَرَأَيْتَ هَذِهِ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ أَوْ شَيْءٌ تَنَفَّلْتَهُ؟ , قَالَ: إِنَّهَا الْمَكْتُوبَةُ وَإِنَّهَا لَصَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَخْطَأْتُ إِلَّا شَيْئًا سَهَوْتُ عَنْهُ، فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ:" لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدَّدَ عَلَيْكُمْ، فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَار وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ , ثُمَّ غَدَا مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: أَلَا تَرْكَبُ لِتَنْظُرَ وَلِتَعْتَبِرَ، قَالَ: نَعَمْ، فَرَكِبُوا جَمِيعًا فَإِذَا هُمْ بِدِيَارٍ بَادَ أَهْلُهَا وَانْقَضَوْا وَفَنُوا خَاوِيَةٍ عَلَى عُرُوشِهَا، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ هَذِهِ الدِّيَارَ، فَقُلْتُ: مَا أَعْرَفَنِي بِهَا وَبِأَهْلِهَا، هَذِهِ دِيَارُ قَوْمٍ أَهْلَكَهُمُ الْبَغْيُ وَالْحَسَدُ إِنَّ الْحَسَدَ يُطْفِئُ نُورَ الْحَسَنَاتِ وَالْبَغْيُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ وَالْعَيْنُ تَزْنِي وَالْكَفُّ وَالْقَدَمُ وَالْجَسَدُ وَاللِّسَانُ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ.
سہل بن ابی امامہ کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے والد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جب وہ مدینے کے گورنر تھے، مدینے میں انس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو دیکھا، وہ ہلکی یا مختصر نماز پڑھ رہے ہیں، جیسے وہ مسافر کی نماز ہو یا اس سے قریب تر کوئی نماز، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میرے والد نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ بتائیے کہ یہ فرض نماز تھی یا آپ کوئی نفلی نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ فرض نماز تھی، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے، میں اس کے بدلے سجدہ سہو کر لیتا ہوں، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ۲؎ کہ تم پر سختی کی جائے ۳؎ اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کر دی تو ایسے ہی لوگوں کے باقی ماندہ لوگ گرجا گھروں میں ہیں انہوں نے رہبانیت کی شروعات کی جو کہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی تو کہا: کیا تم سواری نہیں کرتے یعنی سفر نہیں کرتے کہ دیکھو اور نصیحت حاصل کرو، انہوں نے کہا: ہاں (کرتے ہیں) پھر وہ سب سوار ہوئے تو جب وہ اچانک کچھ ایسے گھروں کے پاس پہنچے، جہاں کے لوگ ہلاک اور فنا ہو کر ختم ہو چکے تھے، اور گھر چھتوں کے بل گرے ہوئے تھے، تو انہوں نے کہا: کیا تم ان گھروں کو پہنچانتے ہو؟ میں نے کہا: مجھے کس نے ان کے اور ان کے لوگوں کے بارے میں بتایا؟ (یعنی میں نہیں جانتا) تو انس نے کہا: یہ ان لوگوں کے گھر ہیں جنہیں ان کے ظلم اور حسد نے ہلاک کر دیا، بیشک حسد نیکیوں کے نور کو گل کر دیتا ہے اور ظلم اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب اور آنکھ زنا کرتی ہے اور ہتھیلی، قدم جسم اور زبان بھی اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 899) (حسن) (اس میں سعید بن عبدالرحمن لین الحدیث ہیں، شواہد وطرق کی بناء پر حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 3124 وتراجع الألباني 13)»
وضاحت: ۱؎: دشوار اور شاق عمل کر کے جیسے صوم دہر، پوری پوری رات شب بیداری اور عورتوں سے مکمل علیحدگی وغیرہ اعمال۔ ۲؎: یعنی یہ اعمال تم پر فرض قرار دے دئیے جائیں۔
Narrated Anas ibn Malik: Sahl ibn Abu Umamah said that he and his father (Abu Umamah) visited Anas ibn Malik at Madina during the time (rule) of Umar ibn Abdul Aziz when he (Anas ibn Malik) was the governor of Madina. He was praying a very short prayer as if it were the prayer of a traveller or near it. When he gave a greeting, my father said: May Allah have mercy on you! Tell me about this prayer: Is it obligatory or supererogatory? He said: It is obligatory; it is the prayer performed by the Messenger of Allah ﷺ. I did not make a mistake except in one thing that I forgot. He said: The Messenger of Allah ﷺ used to say: Do not impose austerities on yourselves so that austerities will be imposed on you, for people have imposed austerities on themselves and Allah imposed austerities on them. Their survivors are to be found in cells and monasteries. (Then he quoted: ) "Monasticism, they invented it; we did not prescribe it for them. " Next day he went out in the morning and said: will you not go out for a ride, so that you may see something and take a lesson from it? He said: Yes. Then all of them rode away and reached a land whose inhabitants had perished, passed away and died. The roofs of the town had fallen in. He asked: Do you know this land? I said: Who acquainted me with it and its inhabitants? (Anas said: ) This is the land of the people whom oppression and envy destroyed. Envy extinguishes the light of good deeds, and oppression confirms or falsifies it. The eye commits fornication, and the palm of the hand, the foot, body, tongue and private part of the body confirm it or deny it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4886
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن عبد الرحمٰن بن أبي العمياء مقبول (تق: 2353) أي مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده ولبعض الحديث شاهد حسن عند البخاري في التاريخ الكبير (97/4) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا الوليد بن رباح، قال: سمعت نمران يذكر، عن ام الدرداء، قالت: سمعت ابا الدرداء، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن العبد إذا لعن شيئا صعدت اللعنة إلى السماء، فتغلق ابواب السماء دونها ثم تهبط إلى الارض فتغلق ابوابها دونها، ثم تاخذ يمينا وشمالا فإذا لم تجد مساغا رجعت إلى الذي لعن فإن كان لذلك اهلا وإلا رجعت إلى قائلها" , قال ابو داود: قال مروان بن محمد: هو رباح بن الوليد سمع منه وذكر، ان يحيى بن حسان وهم فيه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نِمْرَانَ يَذْكُرُ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا لَعَنَ شَيْئًا صَعِدَتِ اللَّعْنَةُ إِلَى السَّمَاءِ، فَتُغْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ دُونَهَا ثُمَّ تَهْبِطُ إِلَى الْأَرْضِ فَتُغْلَقُ أَبْوَابُهَا دُونَهَا، ثُمَّ تَأْخُذُ يَمِينًا وَشِمَالًا فَإِذَا لَمْ تَجِدْ مَسَاغًا رَجَعَتْ إِلَى الَّذِي لُعِنَ فَإِنْ كَانَ لِذَلِكَ أَهْلًا وَإِلَّا رَجَعَتْ إِلَى قَائِلِهَا" , قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ: هُوَ رَبَاحُ بْنُ الْوَلِيدِ سَمِعَ مِنْهُ وَذَكَرَ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ حَسَّانَ وَهِمَ فِيهِ.
ام الدرداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ابو الدرداء کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے، تو یہ لعنت آسمان پر چڑھتی ہے، تو آسمان کے دروازے اس کے سامنے بند ہو جاتے ہیں پھر وہ اتر کر زمین پر آتی ہے، تو اس کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں گھومتی ہے، پھر جب اسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ اس کی طرف پلٹ آتی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی، اب اگر وہ اس کا مستحق ہوتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ کہنے والے کی طرف ہی پلٹ آتی ہے۔
Abu al-Darda reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: when a man cures anything, the curse goes up to heaven and the gates of heaven are locked against it. Then it comes down to the earth and its gates are locked against it. Then it goes right and left, and if it finds no place of entrance it returns to the thing which was cursed, and if it finds no place of entrance it returns to the thing which was cursed, and if it deserves what was said (it enters it), otherwise it returns to the one who uttered it. Abu Dawud said: Marwan bin Muhammad said: He is Rabah bin al-Walid who heard from him (nimran). He (Marwan bin Muhammad) said: Yahya bin Hussain was confused in it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4887
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نمران بن عتبة الذماري: مجهول (التحرير: 7188) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی لعنت یا اللہ کا غضب یا جہنم کی لعنت کسی پر نہ کیا کرو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر والصلة 48 (1976)، (تحفة الأشراف: 4594)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/15) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یوں نہ کہو: تجھ پر اللہ کی لعنت ہو، یا اللہ کا غضب ہو، یااللہ تجھے جہنم میں داخل کرے، یہ ممانعت اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے کہ آدمی کسی معین شخص پر لعنت بھیجے، اور اگر کسی وصف عام یا وصف خاص کے ساتھ لعنت بھیج رہا ہو مثلاً یوں کہے «لعنة الله على الكافرين»، یا «لعنة الله على اليهود»، یا کسی ایسے متعین کافر پر لعنت بھیج رہا ہو جس کا کفر کی حالت میں مرنا معلوم ہو تو یہ جائز ہے جیسے «لعنة الله على الكافرين»، یا «لعنة الله على أبي جهل» کہنا۔
ام الدرداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ابوالدرداء کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”لعنت کرنے والے نہ سفارشی ہو سکتے ہیں اور نہ گواہ ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البروالصلة 24 (2598)، (تحفة الأشراف: 10980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/448) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے فرد نہیں ہو سکتے، کیونکہ آپ کی امت قیامت کے روز دوسری امتوں پر سفارشی اور گواہ ہو گی۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ہوا پر لعنت کی (مسلم کی روایت میں اس طرح ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا نے ایک شخص کی چادر اڑا دی، تو اس نے اس پر لعنت کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر لعنت نہ کرو، اس لیے کہ وہ تابعدار ہے، اور اس لیے کہ جو کوئی ایسی چیز کی لعنت کرے جس کا وہ اہل نہ ہو تو وہ لعنت اسی کی طرف لوٹ آتی ہے“۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: A man cursed the wind. The narrator Muslim's version has: The wind snatched away a man's cloak during the time of the Prophet ﷺ and he cursed it. The Prophet ﷺ said: Do not curse it, for it is under command, and if anyone curses a thing undeservedly, the curse returns upon him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4890
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1978) قتادة مدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171
(مرفوع) حدثنا ابن معاذ، حدثنا ابي , حدثنا سفيان، عن حبيب، عن عطاء، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" سرق لها شيء فجعلت تدعو عليه، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تسبخي عنه". (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" سُرِقَ لَهَا شَيْءٌ فَجَعَلَتْ تَدْعُو عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُسَبِّخِي عَنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کی کوئی چیز چوری ہو گئی، تو وہ اس پر بد دعا کرنے لگیں، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (چور) سے عذاب کو ہلکا نہ کر“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (6/45، 136)، (تحفة الأشراف: 17377) (ضعیف)» نوٹ: یہی حدیث 1497 میں گزری ہے اس پر حسن کا حکم ہے
Narrated Aishah, Ummul Muminin: Something of her was stolen, and she began to curse him (i. e. the thief). The Messenger of Allah ﷺ said to her: Do not lessen his sin.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4891
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف وانظر الحديث السابق(1497) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا ولا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤ (یعنی ملاقات ترک نہ کرو) اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو، اور کسی مسلمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ملنا جلنا چھوڑے رکھے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 57 (6065)، 62 (6076)، صحیح مسلم/البر والصلة 7 (2559)، (تحفة الأشراف: 1530)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البر والصلة 24 (1935)، مسند احمد (3/199)، موطا امام مالک/ حسن الخلق 4 (14) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حکم ایسی ناراضگی سے متعلق ہے جو مسلمانوں کے درمیان باہمی معاشرتی حقوق میں کوتاہی کی وجہ سے ہوئی ہو، اور اگر دینی امور میں کوتاہی کی وجہ سے ہو تو یہ جائز ہے، بلکہ بدعتیوں اور ہوا پرستوں سے میل جول نہ رکھنا واجب ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لیں، اور حق کی طرف پلٹ نہ آئیں۔
Anas bin Malik reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Do not hate each other ; do not envy each other; do not desert each other; and be the servants of Allah as brethren. It is not allowable for a Muslim to keep apart from his brother for more than three days.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4892
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6075) صحيح مسلم (2559)
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے، اور وہ منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۱؎“۔
Abu Ayyub al-Ansari reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: it is not allowable for a Muslim to keep apart from his brother for more than three days. When they meet, this turns away from him, and that turns away from him. The better of the two is the one who initiates in salutation.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4893
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6077) صحيح مسلم (2560)
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة , واحمد بن سعيد السرخسي، ان ابا عامر اخبرهم، حدثنا محمد بن هلال، قال: حدثني ابي، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يحل لمؤمن ان يهجر مؤمنا فوق ثلاث فإن مرت به ثلاث فليلقه فليسلم عليه فإن رد عليه السلام فقد اشتركا في الاجر وإن لم يرد عليه فقد باء بالإثم" زاد احمد وخرج المسلم من الهجرة. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ , وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ السَّرْخَسِيُّ، أَنَّ أَبَا عَامِرٍ أَخْبَرَهُمْ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَهْجُرَ مُؤْمِنًا فَوْقَ ثَلَاثٍ فَإِنْ مَرَّتْ بِهِ ثَلَاثٌ فَلْيَلْقَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ فَإِنْ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ فَقَدِ اشْتَرَكَا فِي الْأَجْرِ وَإِنْ لَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِالْإِثْمِ" زَادَ أَحْمَدُ وَخَرَجَ الْمُسَلِّمُ مِنَ الْهِجْرَةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مومن کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی مومن کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے، اگر اس پر تین دن گزر جائیں تو وہ اس سے ملے اور اس کو سلام کرے، اب اگر وہ سلام کا جواب دیتا ہے، تو وہ دونوں اجر میں شریک ہیں اور اگر وہ جواب نہیں دیتا تو وہ گنہگار ہوا، اور سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے نکل گیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14803)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/البر والصلة 8 (2561)، مسند احمد (2/392، 456) (ضعیف)»
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: It is not allowable for a believer to keep from a believer for more than three days. If three days pass, he should meet him and give him a salutation, and if he replies to it they will both have shared in the reward; but if he does not reply he will bear his sin (according to Ahmad's version) and the one who gives the salutation will have come forth from the sin of keeping apart.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4894
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ھلال مستور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171