سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
53. باب فِي اللَّعْنِ
باب: لعنت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4906
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَلَاعَنُوا بِلَعْنَةِ اللَّهِ وَلَا بِغَضَبِ اللَّهِ وَلَا بِالنَّارِ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی لعنت یا اللہ کا غضب یا جہنم کی لعنت کسی پر نہ کیا کرو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر والصلة 48 (1976)، (تحفة الأشراف: 4594)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/15) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یوں نہ کہو: تجھ پر اللہ کی لعنت ہو، یا اللہ کا غضب ہو، یااللہ تجھے جہنم میں داخل کرے، یہ ممانعت اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے کہ آدمی کسی معین شخص پر لعنت بھیجے، اور اگر کسی وصف عام یا وصف خاص کے ساتھ لعنت بھیج رہا ہو مثلاً یوں کہے «لعنة الله على الكافرين»، یا «لعنة الله على اليهود»، یا کسی ایسے متعین کافر پر لعنت بھیج رہا ہو جس کا کفر کی حالت میں مرنا معلوم ہو تو یہ جائز ہے جیسے «لعنة الله على الكافرين»، یا «لعنة الله على أبي جهل» کہنا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1976)
قتادة عنعن
ولحديثه شاهد مرسل عند عبد الرزاق (المصنف: 19531)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4906 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4906
فوائد ومسائل:
اس روایت کو بھی بعض محقیقن نے حسن قرار دیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4906
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1976
´لعنت کا بیان۔`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ (کسی پر) اللہ کی لعنت نہ بھیجو، نہ اس کے غضب کی لعنت بھیجو اور نہ جہنم کی لعنت بھیجو“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1976]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے وقت یہ مت کہو کہ تم پر اللہ کی لعنت،
اس کے غضب کی لعنت اور جہنم کی لعنت ہو،
کیوں کہ یہ ساری لعنتیں کفار ومشرکین اور یہود ونصاری کے لیے ہیں،
نہ کہ آپ ﷺ کی امت کے لیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1976