ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل ”لا إله إلا الله“ کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ۲؎، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۳؎“۔
وضاحت: ۱؎: «ارجاء» کے معنی تاخیر کے ہیں اسی سے فرقہ مرجئہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان دہ نہیں، اور کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں، یہ قدیم گمراہ فرقوں میں سے ایک ہے، اس کی تردید میں محدثین کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس کتاب میں بھی ان کا رد و ابطال مقصود ہے، ان کے نزدیک اعمال ایمان کا جزء نہیں، بلکہ ایمان محض تصدیق اور اقرار کا نام ہے، جب کہ اہل سنت و اہل حدیث کے یہاں ایمان کے ارکان تین ہیں، دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور اعضاء و جوارح سے عملی ثبوت فراہم کرنا۔ ۲؎: بعض نسخوں میں «عظم» کے بجائے «اذی» کا لفظ ہے گویا کوئی بھی تکلیف دہ چیز۔ ۳؎: حدیث سے ظاہر ہے کہ اعمال صالحہ سے مومن کو فائدہ اور اعمال بد سے نقصان اور ضرر ہوتا ہے، جب کہ مرجئہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Faith has over seventy branches, the most excellent of which is the declaration that there is no god but Allah, and the humblest of which is the removal of a bone from the road. And modesty is a branch of faith.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4659
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (35) ورواه البخاري (9) من طريق آخر
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثني يحيى بن سعيد، عن شعبة، حدثني ابو جمرة، قال: سمعت ابن عباس، قال: إن وفد عبد القيس لما قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم امرهم بالإيمان بالله، قال:" اتدرون ما الإيمان بالله؟ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وان تعطوا الخمس من المغنم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ، قَالَ:" أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا الْخُمْسَ مِنَ الْمَغْنَمِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے انہیں ایمان باللہ کا حکم دیا اور پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو: ایمان باللہ کیا ہے؟“ وہ بولے: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی شہادت دینی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے رکھنا، اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو“۔
Ibn Abbas said: When the deputation of Abd al-Qais came to the Messenger of Allah ﷺ, he commanded them to believe in Allah. He asked: Do you know what faith in Allah is? They replied: Allah and his Messenger know best. He said: It includes the testimony that there is no god but Allah, and that Muhammad is Allah’s Messenger, the observance of the prayer, the payment of zakat, the fasts of Ramadan, and your giving a fifth of the booty.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4660
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (53) صحيح مسلم (17) وانظر الحديث السابق (3692)
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا ترک کرنا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإیمان 9 (2620)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 77 (1078)، مسند احمد (3/370، 389)، (تحفة الأشراف: 2746)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 35 (82) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کفر اور بندے میں نماز حد فاصل ہے، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، نہیں ادا کرتا ہے تو کافر ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں خیال کرتے تھے سوائے نماز کے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”نماز کا ترک کرنا کفر ہے“، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو نماز چھوڑ دے، امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: تارک نماز مرتد ہے اگرچہ دین سے خارج نہیں ہوتا، اصحاب الرای کا مذہب ہے کہ اس کو قید کیا جائے تاوقتیکہ نماز پڑھنے لگے، امام احمد بن حنبل، اور امام اسحاق بن راہویہ، اور ائمہ کی ایک بڑی جماعت تارک نماز کو کافر کہتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے نماز کا سخت اہتمام کرنا چاہئے، اور عام لوگوں میں اس عظیم عبادت، اور اسلامی رکن کی اہمیت کی تبلیغ کرنی چاہئے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح، حدثنا ابن وهب، عن بكر بن مضر، عن ابن الهاد، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله قال:" ما رايت من ناقصات عقل ولا دين اغلب لذي لب منكن، قالت: وما نقصان العقل والدين؟ قال: اما نقصان العقل: فشهادة امراتين شهادة رجل، واما نقصان الدين: فإن إحداكن تفطر رمضان وتقيم اياما لا تصلي". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:" مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَلَا دِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ، قَالَتْ: وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ: فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ شَهَادَةُ رَجُلٍ، وَأَمَّا نُقْصَانُ الدِّينِ: فَإِنَّ إِحْدَاكُنَّ تُفْطِرُ رَمَضَانَ وَتُقِيمُ أَيَّامًا لَا تُصَلِّي".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقل اور دین میں ناقص ہوتے ہوئے عقل والے پر غلبہ پانے والا میں نے تم عورتوں سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا“(ایک عورت) نے کہا: عقل اور دین میں کیا نقص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقل کا نقص تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، اور دین کا نقص یہ ہے کہ (حیض و نفاس میں) تم میں کوئی نہ روزے رکھتی ہے اور نہ نماز پڑھتی ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 34 (79)، سنن ابن ماجہ/الفتن 19 (4003)، (تحفة الأشراف: 7261)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/66) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اس مدت میں نماز و روزے کے ترک سے ایمان میں نقص ثابت ہوا۔
Abdullah bin Umar reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: I did not see more defective in respect of reason and religion than the wise of you (women). A woman asked: What is the defect of reason and religion ? He replied: The defect of reason is the testimony of two women for one man, and the defect of faith is that one of you does not fast during Ramadan (when one is menstruating), and keep away from prayer for some days.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4662
(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان الانباري، وعثمان بن ابي شيبة المعنى، قالا: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" لما توجه النبي صلى الله عليه وسلم إلى الكعبة، قالوا: يا رسول الله فكيف الذين ماتوا وهم يصلون إلى بيت المقدس؟ فانزل الله تعالى: وما كان الله ليضيع إيمانكم سورة البقرة آية 143". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" لَمَّا تَوَجَّهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْكَعْبَةِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يُصَلُّونَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب (نماز میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف رخ کرنا شروع کیا تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا کیا ہو گا جو مر گئے، اور وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وما كان الله ليضيع إيمانكم»”ایسا نہیں ہے کہ اللہ تمہارے ایمان یعنی نماز ضائع فرما دے“(البقرہ: ۱۴۳)۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیرالقرآن 3 (2964)، (تحفة الأشراف: 6108)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/295، 304، 347) (صحیح) (صحیح بخاری کی براء رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ عکرمہ سے سماک کی روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس آیت میں نماز کو اللہ تعالیٰ نے ایمان قرار دیا ہے، کیونکہ سوال ان صلاتوں کے بارے میں تھا جو بیت اللہ کی طرف رخ کرنے سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے ادا کی گئی تھیں، اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتقال بھی کر چکے تھے تو اللہ نے فرمایا: بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی نمازیں ضائع نہیں کرے گا، پس ایمان سے مراد نماز ہے۔
Ibn Abbas said: when the Prophet ﷺ turned towards the Kaabah (in prayer), the people asked: Messenger of Allah ﷺ! what will happen with those who died while they prayed with their faces towards Jerusalem ? Allah the Exalted, then revealed: “And never would Allah make your faith of no effect. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4663
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شاھد عند البخاري (4486)
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ ہی کے رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کے رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ۱؎“۔
Narrated Abu Umamah: The Prophet ﷺ said: If anyone loves for Allah's sake, hates for Allah's sake, gives for Allah's sake and withholds for Allah's sake, he will have perfect faith.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4664
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (30)
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، قال: واخبرني الزهري، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص، عن ابيه، قال:" اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجالا ولم يعط رجلا منهم شيئا، فقال سعد: يا رسول الله، اعطيت فلانا وفلانا ولم تعط فلانا شيئا وهو مؤمن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: او مسلم حتى اعادها سعد ثلاثا والنبي صلى الله عليه وسلم، يقول: او مسلم ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: إني اعطي رجالا وادع من هو احب إلي منهم لا اعطيه شيئا مخافة ان يكبوا في النار على وجوههم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاص، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالًا وَلَمْ يُعْطِ رَجُلًا مِنْهُمْ شَيْئًا، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ فُلَانًا وَفُلَانًا وَلَمْ تُعْطِ فُلَانًا شَيْئًا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ مُسْلِمٌ حَتَّى أَعَادَهَا سَعْدٌ ثَلَاثًا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أَوْ مُسْلِمٌ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي أُعْطِي رِجَالًا وَأَدَعُ مَنْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُمْ لَا أُعْطِيهِ شَيْئًا مَخَافَةَ أَنْ يُكَبُّوا فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلم ہے“ سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے: ”یا مسلم ہے“ پھر آپ نے فرمایا: ”میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے منہ نہ ڈال دیئے جائیں ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ شخص پکا سچا مومن ہے اگر میں اس کو نہ دوں گا تو بھی اس کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن یہ لوگ جن کو دیتا ہوں ناقص ایمان والے ہیں نہ دوں گا تو ان کے ایمان میں فرق پڑے گا کہ ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں، لہٰذا مصلحتا میں ایسا کرتا ہوں، پتہ چلا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔
Saad bin Abi Waqqas said: The Prophet ﷺ gave some people and did not give anything to a man of them. Saad said: Messenger of Allah! You gave so and so, so and so, but did not give anything to so and so while he is a believer. The Prophet ﷺ said: Or he is a Muslim. Saad repeated it thrice and the Prophet ﷺ then said: I give some people and leave him who is dearer to me than them. I do not give him anything fearing lest he should fall into Hell on his face.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4666
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (27) صحيح مسلم (150)
(موقوف) حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا ابن ثور، عن معمر، قال: وقال الزهري" قل لم تؤمنوا ولكن قولوا اسلمنا سورة الحجرات آية 14، قال: نرى ان الإسلام الكلمة والإيمان العمل". (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ: وَقَالَ الزُّهْرِيُّ" قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا سورة الحجرات آية 14، قَالَ: نَرَى أَنَّ الْإِسْلَامَ الْكَلِمَةُ وَالْإِيمَانَ الْعَمَلُ".
ابن شہاب زہری آیت کریمہ «قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا»”آپ کہہ دیجئیے تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ مسلمان ہوئے“(سورۃ الحجرات: ۱۴) کی تفسیر میں کہتے ہیں: ہم سمجھتے ہیں کہ (اس آیت میں) اسلام سے مراد زبان سے کلمے کی ادائیگی اور ایمان سے مراد عمل ہے۔
Explaining the verse, “say ; You have no faith, but you only say: We have submitted our wills to Allah”, Al-Zuhri said: We think that ISLAM is a word, and faith is an action.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4667
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا عبد الرزاق. ح وحدثنا إبراهيم بن بشار، حدثنا سفيان المعنى، قالا: حدثنا معمر، عن الزهري، عن عامر بن سعد، عن ابيه،" ان النبي صلى الله عليه وسلم قسم بين المسلمين قسما فقلت اعط فلانا، فإنه مؤمن، قال: او مسلم إني لاعطي الرجل العطاء وغيره احب إلي منه مخافة ان يكب على وجهه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ. ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَسْمًا فَقُلْتُ أَعْطِ فُلَانًا، فَإِنَّهُ مُؤْمِنٌ، قَالَ: أَوْ مُسْلِمٌ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ الْعَطَاءَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ مَخَافَةَ أَنْ يُكَبَّ عَلَى وَجْهِهِ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں کچھ تقسیم فرمایا تو میں نے عرض کیا: فلاں کو بھی دیجئیے، وہ بھی مومن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلم ہے، میں ایک شخص کو کچھ عطا کرتا ہوں حالانکہ اس کے علاوہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے (جس کو نہیں دیتا) اس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس کو نہ دوں تو وہ اوندھے منہ (جہنم میں) ڈال دیا جائے“۔
Saad said: The Prophet ﷺ distributed (spoils) among the people I said to him: Give so and so for he is a believer. He said: Or he is a Muslim. I give a man something while another man is dearer to me than him, fearing that he may fall into Hell on his face.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4668
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (27) صحيح مسلم (150) وانظر الحديث السابق (4683)