(موقوف) حدثنا حفص بن عمر ابو عمر الضرير، حدثنا حماد بن سلمة، ان سعيد بن إياس الجريري اخبرهم، عن عبد الله بن شقيق العقيلي،عن الاقرع مؤذن عمر بن الخطاب، قال:" بعثني عمر إلى الاسقف فدعوته، فقال له عمر: وهل تجدني في الكتاب؟ قال: نعم، قال: كيف تجدني؟ قال: اجدك قرنا فرفع عليه الدرة، فقال: قرن مه؟ فقال: قرن حديد امين شديد، قال: كيف تجد الذي يجيء من بعدي؟ فقال: اجده خليفة صالحا غير انه يؤثر قرابته، قال عمر: يرحم الله عثمان ثلاثا، فقال: كيف تجد الذي بعده؟ قال: اجده صدا حديد، فوضع عمر يده على راسه، فقال: يا دفراه يا دفراه، فقال: يا امير المؤمنين إنه خليفة صالح، ولكنه يستخلف حين يستخلف والسيف مسلول والدم مهراق"، قال ابو داود: الدفر النتن. (موقوف) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيَّ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ،عَنِ الْأَقْرَعِ مُؤَذِّنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ:" بَعَثَنِي عُمَرُ إِلَى الْأُسْقُفِّ فَدَعَوْتُهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: وَهَلْ تَجِدُنِي فِي الْكِتَابِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُنِي؟ قَالَ: أَجِدُكَ قَرْنًا فَرَفَعَ عَلَيْهِ الدِّرَّةَ، فَقَالَ: قَرْنٌ مَهْ؟ فَقَالَ: قَرْنٌ حَدِيدٌ أَمِينٌ شَدِيدٌ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي يَجِيءُ مِنْ بَعْدِي؟ فَقَالَ: أَجِدُهُ خَلِيفَةً صَالِحًا غَيْرَ أَنَّهُ يُؤْثِرُ قَرَابَتَهُ، قَالَ عُمَرُ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُثْمَانَ ثَلَاثًا، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي بَعْدَهُ؟ قَالَ: أَجِدُهُ صَدَأَ حَدِيدٍ، فَوَضَعَ عُمَرُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ: يَا دَفْرَاهُ يَا دَفْرَاهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهُ خَلِيفَةٌ صَالِحٌ، وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْلَفُ حِينَ يُسْتَخْلَفُ وَالسَّيْفُ مَسْلُولٌ وَالدَّمُ مُهْرَاقٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الدَّفْرُ النَّتْنُ.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مؤذن اقرع کہتے ہیں مجھے عمر نے ایک پادری کے پاس بلانے کے لیے بھیجا، میں اسے بلا لایا، تو عمر نے اس سے کہا: کیا تم کتاب میں مجھے (میرا حال) پاتے ہو؟ وہ بولا: ہاں، انہوں نے کہا: کیسا پاتے ہو؟ وہ بولا: میں آپ کو قرن پاتا ہوں، تو انہوں نے اس پر درہ اٹھایا اور کہا: قرن کیا ہے؟ وہ بولا: لوہے کی طرح مضبوط اور سخت امانت دار، انہوں نے کہا: جو میرے بعد آئے گا تم اسے کیسے پاتے ہو؟ وہ بولا: میں اسے نیک خلیفہ پاتا ہوں، سوائے اس کے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دے گا، عمر نے کہا: اللہ عثمان پر رحم کرے، (تین مرتبہ) پھر کہا: ان کے بعد والے کو تم کیسے پاتے ہو؟ وہ بولا: وہ تو لوہے کا میل ہے (یعنی برابر تلوار سے کام رہنے کی وجہ سے ان کا بدن اور ہاتھ گویا دونوں ہی زنگ آلود ہو جائیں گے) عمر نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، اور فرمایا: اے گندے! بدبودار (تو یہ کیا کہتا ہے) اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! وہ ایک نیک خلیفہ ہو گا لیکن جب وہ خلیفہ بنایا جائے گا تو حال یہ ہو گا کہ تلوار بے نیام ہو گی، خون بہہ رہا ہو گا، (یعنی اس کی خلافت فتنہ کے وقت ہو گی)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «الدفر» کے معنی «نتن» یعنی بدبو کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10408) (ضعیف الإسناد)» (عیسائی پادری کے قول کا کیا اعتبار؟)
Narrated Umar ibn al-Khattab: Al-Aqra, the muadhdhin (announcer) of Umar ibn al-Khattab said: Umar sent me to a bishop and I called him. Umar said to him: Do you find me in the Book? He said: Yes. He asked: How do you find me? He said: I find you (like a) castle. Then he raised a whip to him, saying: What do you mean by castle? He replied: An iron castle and severely trustworthy. He asked: How do you find the one who will come after me? He said: I find him a pious caliph, except that he will prefer his relatives. Umar said: May Allah have mercy on Uthman: He said it three times. He then asked: How do you find the one who will come after him? He replied: I find him like rusty iron. Umar then put his hand on his head, and said: O filthy! O filthy! He said: Commander of the Faithful! He is a pious caliph, but when he is made caliph, the sword will be unsheathed and blood will be shed. Abu Dawud said: Al-dafr means filth or evil smell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4639
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح الأقرع مؤذن عمر بن الخطاب: ثقة، وحماد بن سلمة سمع من الجريري قبل اختلاطه
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، قال: انبانا. ح حدثنا مسدد، قال: حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن عمران بن حصين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير امتي القرن الذين بعثت فيهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، والله اعلم اذكر الثالث ام لا، ثم يظهر قوم يشهدون ولا يستشهدون، وينذرون ولا يوفون، ويخونون ولا يؤتمنون، ويفشو فيهم السمن". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا. ح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لَا، ثُمَّ يَظْهَرُ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلَا يُوفُونَ، وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَفْشُو فِيهِمُ السِّمَنُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں“ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، ”پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا ۱؎“۔
وضاحت: وضاحت ۱؎: کیونکہ جواب دہی کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہے گا، عیش وآرام کے عادی ہو جائیں گے اور دین و ایمان کی فکر جاتی رہے گی جو ان کے مٹاپے کا سبب ہوگی۔
Imran bin Husain reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: the best of my people is the generation in which I have been sent, then their immediate followers, then their immediate followers. Allah knows best whether he mentioned the third or not. After them will be people who will give testimony without being asked, who will make vows which they do not fulfill, who will be treacherous and not to be trusted, among whom fatness will appear.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4640
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2535) ورواه البخاري (2651) من طريق آخر
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسبوا اصحابي فوالذي نفسي بيده لو انفق احدكم مثل احد ذهبا ما بلغ مد احدهم ولا نصيفه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد (پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے ایک مد یا نصف مد کے برابر بھی نہ ہو گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا شان ورود یہ ہے کہ ایک بار عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ کہا سنی ہو گئی جس پر خالد نے عبدالرحمن کو کچھ نامناسب الفاظ کہہ دیئے، جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا، اس سے پتہ چلا کہ مخصوص اصحاب کے مقابلہ میں دیگر صحابہ کرام کا یہ حال ہے تو غیر صحابی کا کیا ذکر، غیر صحابی کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا صحابی کے ایک مُد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا، اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام عالی کا پتہ چلتا ہے، اور یہیں سے ان بدبختوں کی بدبختی اور بدنصیبی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جن کے مذہب کی بنیاد صحابہ کرام کو سب وشتم کا نشانہ بنانا اور تبرا بازی کو دین سمجھنا ہے۔
Abu Saeed (al-Khudri) reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Do not revile my Companions; by him in whose hand my soul is, if one of you contributed the amount of gold equivalent to Uhud, it would not amount to as much as the mudd of one of them, or half of it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4641
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3673) صحيح مسلم (2541)
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زائدة بن قدامة الثقفي، حدثنا عمر بن قيس الماصر، عن عمرو بن ابي قرة، قال:" كان حذيفة بالمدائن، فكان يذكر اشياء قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم لاناس من اصحابه في الغضب، فينطلق ناس ممن سمع ذلك من حذيفة، فياتون سلمان فيذكرون له قول حذيفة، فيقول سلمان: حذيفة اعلم بما يقول، فيرجعون إلى حذيفة، فيقولون له: قد ذكرنا قولك لسلمان فما صدقك ولا كذبك، فاتى حذيفة سلمان وهو في مبقلة، فقال: يا سلمان ما يمنعك ان تصدقني بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال سلمان: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغضب، فيقول في الغضب لناس من اصحابه، ويرضى فيقول في الرضا لناس من اصحابه: اما تنتهي حتى تورث رجالا حب رجال، ورجالا بغض رجال، وحتى توقع اختلافا وفرقة، ولقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب فقال: ايما رجل من امتي سببته سبة او لعنته لعنة في غضبي، فإنما انا من ولد آدم اغضب كما يغضبون، وإنما بعثني رحمة للعالمين، فاجعلها عليهم صلاة يوم القيامة، والله لتنتهين او لاكتبن إلى عمر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ، قَالَ:" كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ، فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ، فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ، فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُ سَلْمَانُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُونَ لَهُ: قَدْ ذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلَا كَذَّبَكَ، فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ، فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْضَبُ، فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَيَرْضَى فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ: أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى تُوَرِّثَ رِجَالًا حُبَّ رِجَالٍ، وَرِجَالًا بُغْضَ رِجَالٍ، وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلَافًا وَفُرْقَةً، وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَقَالَ: أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي، فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ، وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ".
عمرو بن ابی قرہ کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے اور وہ ان باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے بعض لوگوں سے غصہ کی حالت میں فرمائی تھیں، پھر ان میں سے کچھ لوگ جو حذیفہ سے باتیں سنتے چل کر سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا تذکرہ کرتے تو سلمان رضی اللہ عنہ کہتے: حذیفہ ہی اپنی کہی باتوں کو بہتر جانتے ہیں، تو وہ لوگ حذیفہ کے پاس لوٹ کر آتے اور ان سے کہتے: ہم نے آپ کی باتوں کا تذکرہ سلمان سے کیا تو انہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی اور نہ تکذیب، یہ سن کر حذیفہ سلمان کے پاس آئے، وہ اپنی ترکاری کے کھیت میں تھے کہنے لگے: اے سلمان! ان باتوں میں میری تصدیق کرنے سے آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں؟ تو سلمان نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ کبھی غصے میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے اور کبھی خوش ہوتے تو خوشی میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے، تو کیا آپ اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک کہ بعض لوگوں کے دلوں میں بعض لوگوں کی محبت اور بعض دوسروں کے دلوں میں بعض کی دشمنی نہ ڈال دیں اور ان کو اختلاف میں مبتلا نہ کر دیں، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: ”میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو (اے اللہ) میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے“ اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب (امیر المؤمنین) کو لکھ بھیجوں گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4507)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/437، 439) (صحیح)»
Amr bin Abl Qurrah said: Hudhaifah was in al-Mada’in. He used to mention things which the Messenger of Allah ﷺ said to some people from among his Companions in anger. The people who heard from Hudhaifah would go to Salman and tell him what Hudhaifah said. Salman would say: Hudhaifah knows best what he says. Then they would come to Hudhaifah and tell him: We mentioned Salman what you said, but he neither testified you nor falsified you. So Hudhaifah came to salman who was in his vegetable farm, and said: Salman, what prevents you from testifying me of what I heard from the Messenger of Allah ﷺ ? Salman said: The Messenger of Allah ﷺ sometimes would be angry, and said in anger something to some of his Companions; he would be sometimes pleased and said in pleasure something to some of his Companions. Would you not stop until you create love of some people in the hearts of some people, and hatred of some people in the hearts of some people, and until you generate disagreement and dissension? You know that the Messenger of Allah ﷺ addressed, saying: If I abused any person of my people, or cursed him in my anger. I am one of the children of Adam: I become angry as they become angry. He (Allah) has sent me as a mercy for all worlds. (O Allah!) make them (Abuse or curse) blessing for them on the day of judgment! I swear by Allah. You should stop (mentioning these traditions), otherwise I shall writ to Umar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4642
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، قال: حدثني الزهري، حدثني عبد الملك بن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، عن ابيه، عن عبد الله بن زمعة، قال:" لما استعز برسول الله صلى الله عليه وسلم وانا عنده في نفر من المسلمين، دعاه بلال إلى الصلاة، فقال: مروا من يصلي للناس، فخرج عبد الله بن زمعة فإذا عمر في الناس وكان ابو بكر غائبا، فقلت: يا عمر قم فصل بالناس فتقدم فكبر، فلما سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم صوته وكان عمر رجلا مجهرا، قال: فاين ابو بكر؟ يابى الله ذلك والمسلمون يابى الله ذلك والمسلمون، فبعث إلى ابي بكر فجاء بعد ان صلى عمر تلك الصلاة، فصلى بالناس". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ:" لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، دَعَاهُ بِلَالٌ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ: مُرُوا مَنْ يُصَلِّي لِلنَّاسِ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ فَإِذَا عُمَرُ فِي النَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَقُلْتُ: يَا عُمَرُ قُمْ فَصَلِّ بِالنَّاسِ فَتَقَدَّمَ فَكَبَّرَ، فَلَمَّا سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ وَكَانَ عُمَرُ رَجُلًا مُجْهِرًا، قَالَ: فَأَيْنَ أَبُو بَكْرٍ؟ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ، فَبَعَثَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَجَاءَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى عُمَرُ تِلْكَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ".
حارث بن ہشام عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سخت ہوئی اور میں آپ ہی کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا تو بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کے لیے بلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی سے کہو جو لوگوں کو نماز پڑھائے“ عبداللہ بن زمعہ نکلے تو دیکھا کہ لوگوں میں عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ موقع پر موجود نہ تھے، میں نے کہا: اے عمر! اٹھیے نماز پڑھائیے، تو وہ بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہا، وہ بلند آواز شخص تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی آواز سنی تو فرمایا: ”ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی، اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی“ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، وہ عمر کے نماز پڑھا چکنے کے بعد آئے تو انہوں نے لوگوں کو (پھر سے) نماز پڑھائی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5295)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/322) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے خلافت صدیقی کا صاف اشارہ ملتا ہے کیونکہ امامت صغریٰ امامت کبریٰ کا پیش خیمہ ہے۔
Narrated Abdullah ibn Zam'ah: When the illness of the Messenger of Allah ﷺ became serious while I was with him among a group of people, Bilal called him for prayer. He said: Ask someone to lead the people in prayer. So Abdullah ibn Zam'ah went out and found that Umar was present among the people and Abu Bakr was not there. I said: Umar, get up and lead the people in prayer. So he came forward and uttered "Allah is Most Great". When the Messenger of Allah ﷺ heard his voice, as Umar had a loud voice, he said: Where is Abu Bakr? Allah does not allow that, and the Muslims too; Allah does not allow that, and the Muslims too. So he sent for Abu Bakr. He came after Umar had led the people in that prayer. He then led the people in prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4643
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے انہیں یہی بات بتائی اور کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو آپ نکلے یہاں تک کہ حجرے سے اپنا سر نکالا، پھر فرمایا: ”نہیں، نہیں، نہیں، ابن ابی قحافہ (یعنی ابوبکر) کو چاہیئے کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ غصے میں فرما رہے تھے۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by Abdullah bin Zam’ah through a different chain. He said: When the Prophet ﷺ heard Umar’s voice, Ibn Zam’ah said: The Prophet ﷺ came out until he took out his head of his apartment. He then said: No, no, no; the son of Abu Quhafah should lead the people in prayer. He said it angrily.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4644
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (6660)
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا“۔ حماد کی روایت میں ہے: ”شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: یہ پیشین گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح سچ ثابت ہوئی کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اور ایک عظیم فتنہ کو ختم کر دیا یہ سال اتحاد ملت کا سال تھا۔
Narrated Abu Bakrah: The Messenger of Allah ﷺ said to al-Hasan ibn Ali. This son of mine is a Sayyid (chief), and I hope Allah may reconcile two parties of my community by means of him. Hammad's version has: And perhaps Allah may reconcile two large parties of Muslims by means of him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4645
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد، اخبرنا هشام، عن محمد، قال: قال حذيفة" ما احد من الناس تدركه الفتنة، إلا انا اخافها عليه إلا محمد بن مسلمة، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا تضرك الفتنة". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ" مَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ تُدْرِكُهُ الْفِتْنَةُ، إِلَّا أَنَا أَخَافُهَا عَلَيْهِ إِلَّا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا تَضُرُّكَ الْفِتْنَةُ".
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں میں کوئی ایسا نہیں جس کو فتنہ پہنچے اور مجھے اس کے فتنے میں پڑنے کا خوف نہ ہو، سوائے محمد بن مسلمہ کے کیونکہ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کوئی فتنہ ضرر نہ پہنچائے گا“۔
Narrated Hudhayfah: There is no one who will be overtaken by trial regarding whom I do not fear except Muhammad ibn Maslamah, for I heard the Messenger of Allah ﷺ say: Trial will not harm you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4646
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ھشام بن حسان مدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 164
(موقوف) حدثنا عمرو بن مرزوق، اخبرنا شعبة، عن الاشعث بن سليم، عن ابي بردة، عن ثعلبة بن ضبيعة، قال:" دخلنا على حذيفة، فقال: إني لاعرف رجلا لا تضره الفتن شيئا، قال: فخرجنا فإذا فسطاط مضروب، فدخلنا فإذا فيه محمد بن مسلمة فسالناه عن ذلك، فقال: ما اريد ان يشتمل علي شيء من امصاركم حتى تنجلي عما انجلت". (موقوف) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ ضُبَيْعَةَ، قَالَ:" دَخَلْنَا عَلَى حُذَيْفَةَ، فَقَالَ: إِنِّي لَأَعْرِفُ رَجُلًا لَا تَضُرُّهُ الْفِتَنُ شَيْئًا، قَالَ: فَخَرَجْنَا فَإِذَا فُسْطَاطٌ مَضْرُوبٌ، فَدَخَلْنَا فَإِذَا فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: مَا أُرِيدُ أَنْ يَشْتَمِلَ عَلَيَّ شَيْءٌ مِنْ أَمْصَارِكُمْ حَتَّى تَنْجَلِيَ عَمَّا انْجَلَتْ".
ثعلبہ بن ضبیعہ کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو آپ نے کہا: میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے فتنے کچھ بھی ضرر نہ پہنچا سکیں گے، ہم نکلے تو دیکھا کہ ایک خیمہ نصب ہے، ہم اندر گئے تو اس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ملے، ہم نے ان سے پوچھا (کہ آبادی چھوڑ کر خیمہ میں کیوں ہیں؟) تو فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہارے شہروں کی کوئی برائی مجھ سے چمٹے، اس لیے جب تک فتنہ فرو نہ ہو جائے اور معاملہ واضح اور صاف نہ ہو جائے شہر کو نہیں جاؤں گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3381) (صحیح)» (اس کے راوی ثعلبہ یا ضبیعہ مجہول ہیں لیکن سابقہ حدیث کی تقویت سے صحیح ہے)
Thalabah bin Dubaiah said: We entered upon Hudhaifah. He said: I know a man whom the trails will not harm. We came out and found that a tent was pitched. We entered and found in it Muhammad bin Maslamah. We asked him about it. He said: I do not intent that any place of your towns should occupy me until that which is prevailing is removed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4647
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ثعلبة بن ضبيعة ھو ضبيعة بن حصين: مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده انوار الصحيفه، صفحه نمبر 164
ضبیعہ بن حصین ثعلبی سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3381) (صحیح)» (ثعلبہ بن ضبیعہ اور ضبیعہ بن حصین ایک ہی ہیں جو مجہول ہیں اور سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)