(مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن حماد، ومحمد بن المثنى، واحمد بن سعيد الرباطي، قالوا: اخبرنا وهب بن جرير، قال احمد: كتبناه من نسخته، وهذا لفظه، قال: حدثنا ابي، قال: سمعت محمد بن إسحاق يحدث، عن يعقوب بن عتبة، عن جبير بن محمد بن جبير بن مطعم، عن ابيه، عن جده، قال:" اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم اعرابي، فقال: يا رسول الله، جهدت الانفس، وضاعت العيال، ونهكت الاموال، وهلكت الانعام، فاستسق الله لنا، فإنا نستشفع بك على الله، ونستشفع بالله عليك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ويحك، اتدري ما تقول؟ , وسبح رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما زال يسبح حتى عرف ذلك في وجوه اصحابه، ثم قال: ويحك، إنه لا يستشفع بالله على احد من خلقه، شان الله اعظم من ذلك، ويحك، اتدري ما الله؟ إن عرشه على سماواته لهكذا، وقال باصابعه مثل القبة عليه، وإنه ليئط به اطيط الرحل بالراكب" , قال ابن بشار في حديثه: إن الله فوق عرشه، وعرشه فوق سماواته , وساق الحديث، وقال عبد الاعلى، وابن المثنى، وابن بشار، عن يعقوب بن عتبة، وجبير بن محمد بن جبير، عن ابيه، عن جده، قال ابو داود: والحديث بإسناد احمد بن سعيد هو الصحيح، ووافقه عليه جماعة منهم: يحيى بن معين وعلي بن المديني، ورواه جماعة، عن ابن إسحاق، كما قال احمد ايضا، وكان سماع عبد الاعلى، وابن المثنى، وابن بشار من نسخة واحدة فيما بلغني. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الرِّبَاطِيُّ، قَالُوا: أخبرنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ أَحْمَدُ: كَتَبْنَاهُ مِنْ نُسْخَتِهِ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاق يُحَدِّثُ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جُهِدَتِ الْأَنْفُسُ، وَضَاعَتِ الْعِيَالُ، وَنُهِكَتِ الْأَمْوَالُ، وَهَلَكَتِ الْأَنْعَامُ، فَاسْتَسْقِ اللَّهَ لَنَا، فَإِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِكَ عَلَى اللَّهِ، وَنَسْتَشْفِعُ بِاللَّهِ عَلَيْكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْحَكَ، أَتَدْرِي مَا تَقُولُ؟ , وَسَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا زَالَ يُسَبِّحُ حَتَّى عُرِفَ ذَلِكَ فِي وُجُوهِ أَصْحَابِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، إِنَّهُ لَا يُسْتَشْفَعُ بِاللَّهِ عَلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ، شَأْنُ اللَّهِ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، وَيْحَكَ، أَتَدْرِي مَا اللَّهُ؟ إِنَّ عَرْشَهُ عَلَى سَمَاوَاتِهِ لَهَكَذَا، وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مِثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ، وَإِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أَطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاكِبِ" , قال ابْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ، وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَمَاوَاتِهِ , وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وقَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى، وَابْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ أبو داود: وَالْحَدِيثُ بِإِسْنَادِ أَحْمَدَ بْنِ سَعِيدٍ هُوَ الصَّحِيحُ، ووَافَقَهُ عَلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ: يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَرَوَاهُ جَمَاعَةٌ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، كَمَا قَالَ أَحْمَدُ أَيْضًا، وَكَانَ سَمَاعُ عَبْدِ الْأَعْلَى، وَابْنِ الْمُثَنَّى، وَابْنِ بَشَّارٍ مِنْ نُسْخَةٍ وَاحِدَةٍ فِيمَا بَلَغَنِي.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! لوگ مصیبت میں پڑ گئے، گھربار تباہ ہو گئے، مال گھٹ گئے، جانور ہلاک ہو گئے، لہٰذا آپ ہمارے لیے بارش کی دعا کیجئے، ہم آپ کو سفارشی بناتے ہیں اللہ کے دربار میں، اور اللہ کو سفارشی بناتے ہیں آپ کے دربار میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا برا ہو، سمجھتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ کہنے لگے، اور برابر کہتے رہے یہاں تک کہ اس کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے چہروں پر دیکھا گیا، پھر فرمایا: ”تمہارا برا ہو اللہ کو اس کی مخلوق میں سے کسی کے دربار میں سفارشی نہیں بنایا جا سکتا، اللہ کی شان اس سے بہت بڑی ہے، تمہارا برا ہو! کیا تم جانتے ہو اللہ کیا ہے، اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے (آپ نے انگلیوں سے گنبد کے طور پر اشارہ کیا) اور وہ چرچراتا ہے جیسے پالان سوار کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے، (ابن بشار کی حدیث میں ہے) اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے اوپر ہے، اور اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر ہے“ اور پھر پوری حدیث ذکر کی۔ عبدالاعلی، ابن مثنی اور ابن بشار تینوں نے یعقوب بن عتبہ اور جبیر بن محمد بن جبیر سے ان دونوں نے محمد بن جبیر سے اور محمد بن جبیر نے جبیر بن مطعم سے روایت کی ہے۔ البتہ احمد بن سعید کی سند والی حدیث ہی صحیح ہے، اس پر ان کی موافقت ایک جماعت نے کی ہے، جس میں یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی شامل ہیں اور اسے ایک جماعت نے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے جیسا کہ احمد بن سعید نے بھی کہا ہے، اور عبدالاعلی، ابن مثنی اور ابن بشار کا سماع جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے، ایک ہی نسخے سے ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3196) (ضعیف)» (ابن اسحاق مدلس ہیں، نیز سند میں اختلاف ہے)
Muhammad bin Jubair bin Mutim said from his father on the authority of his grandfather: An A’rab (a nomadic Arab) came to the Messenger of Allah ﷺ and said: People suffering distress, the children are hungry, the crops are withered, and the animals are perished, so ask Allah to grant us rain, for we seek you as our intercessor with Allah, and Allah as intercessor with you. The Messenger of Allah ﷺ said: Woe to you: Do you know what you are saying? Then the Messenger of Allah ﷺ declared Allah’s glory and he continued declaring His glory till the effect of that was apparent in the faces of his Companions. He then said: Woe to you: Allah is not to be sought as intercessor with anyone. Allah’s state is greater than that. Woe to you! Do you know how great Allah is? His throne is above the heavens thus (indicating with his fingers like a dome over him), and it groans on account of Him as a saddle does because of the rider. Ibn Bashshar said in his version: Allah is above the throne, and the throne is above the heavens. He then mentioned the rest of the tradition. Abd al-A’la, Ibn al- Muthana and Ibn Bashshar transmitted it from Ya’qub bin ‘Utbah and Jubair bin Muhammad bin Jubair from his father on the authority of his grandfather. Abu Dawud said: This tradition with the chain of Ahmad bin Saad is sound. It has been approved by the body (of traditionists), which includes Yahya bin Ma’in and Ali bin al-Madani, and a group has transmitted it from Ibn Ishaq, as Ahmad also said. And so far as I have been informed Abd al-A’la, Ibn al-Muthanna, and Ibn Bashshar had heard from the same copy (of the collection of tradition).
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4708
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن وجبير بن محمد: مقبول (تق: 902) أي مجهول الحال ولم يوثقه غير ابن حبان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 165
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: عمدہ گھوڑے کی چال سے جیسا کہ دوسری حدیث میں مروی ہے، اس حدیث کا مقصود حاملین عرش کا طول و عرض اور عظمت و جثہ بتانا ہے، اور ستر کا عدد بطور تحدید نہیں ہے بلکہ اس سے کثرت مراد ہے۔
Jabir bin Abdullah reported the Prophet ﷺ as saying: I have been permitted to tell about one of Allah’s angels who bears the throne that the distance between the lobe of his ear and his shoulder is a journey of seven hundred years.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4709
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (5728) أخرجه ابن طھمان (21 وسنده صحيح/معاذ)
(مرفوع) حدثنا علي بن نصر، ومحمد بن يونس النسائي المعنى، قالا: انبانا عبد الله بن يزيد المقرئ، اخبرنا حرملة يعني ابن عمران، حدثني ابو يونس سليم بن جبير مولى ابي هريرة، قال: سمعت ابا هريرة يقرا هذه الآية:" إن الله يامركم ان تؤدوا الامانات إلى اهلها إلى قوله تعالى سميعا بصيرا سورة النساء آية 58، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع إبهامه على اذنه، والتي تليها على عينه"، قال ابو هريرة: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها ويضع إصبعيه، قال ابن يونس: قال المقرئ: يعني إن الله سميع بصير: يعني ان لله سمعا وبصرا , قال ابو داود: وهذا رد على الجهمية. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ المعنى، قَالَا: أنبأنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، أخبرنا حَرْمَلَةُ يَعْنِي ابْنَ عِمْرَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو يُونُسَ سُلَيْمُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ:" إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى سَمِيعًا بَصِيرًا سورة النساء آية 58، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ إِبْهَامَهُ عَلَى أُذُنِهِ، وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَى عَيْنِهِ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا وَيَضَعُ إِصْبَعَيْهِ، قَالَ ابْنُ يُونُسَ: قَالَ الْمُقْرِئُ: يَعْنِي إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ: يَعْنِي أَنَّ لِلَّهِ سَمْعًا وَبَصَرًا , قال أَبُو دَاوُد: وَهَذَا رَدٌّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابو یونس سلیم بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو آیت کریمہ «إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها *** إلى قوله تعالى *** سميعا بصيرا»”اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچا دو۔۔۔ اللہ سننے اور دیکھنے والا ہے“(سورۃ النساء: ۵۸) تک پڑھتے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے انگوٹھے کو اپنے کان پر اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کو آنکھ پر رکھتے، (یعنی شہادت کی انگلی کو)، ابوہریرہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے پڑھتے اور اپنی دونوں انگلیوں کو رکھتے دیکھا۔ ابن یونس کہتے ہیں: عبداللہ بن یزید مقری نے کہا: یعنی «إن الله سميع بصير» پر انگلی رکھتے تھے، مطلب یہ ہے کہ اللہ کے کان اور آنکھ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ جہمیہ کا رد ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں جہمیہ کا رد بلیغ ہے، جہمیہ اللہ کے لئے صفت سمع و بصر کی نفی کرتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھا اور انگلی رکھ کر ان کی تردید فرما دی، جہمیہ تشبیہ سے بچنے کے لئے ایسا کہتے ہیں، جب کہ اس میں تشبیہ ہے ہی نہیں، مقصود صفت سمع (سننا) صفت بصر (دیکھنا) کا اثبات ہے، یہ مقصود نہیں کہ اس کی آنکھ وکان ہماری آنکھ اور کان جیسے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ کان اس کی عظمت وجلال کے لائق ہیں، بلا کسی کیفیت تشبیہ، وتمثیل اور تعطیل کے سبحانہ تعالیٰ۔
Abu Yunus Sulaim bin Jubair, client of Abu Hurairah, said: I heard Abu Hurairah recite this verse: “Allah doth command you to render back your trusts to those to whom they are due” up to “For Allah is he who heareth and seeth all things”. He said: I saw the Messenger of Allah ﷺ putting his thumb on his ear and finger on his eye. Abu Hurairah said: I saw the Messenger of Allah ﷺ reciting this verse and putting his fingers. Ibn Yunus said that al-Muqri said. “Allah hears and sees” means that Allah has the power of hearing and seeing. Abu Dawud said: This is a refutation of the Jahmiyyah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4710
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، اخبرنا جرير، ووكيع، وابو اسامة، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، عن جرير بن عبد الله، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم جلوسا، فنظر إلى القمر ليلة البدر ليلة اربع عشرة، فقال:" إنكم سترون ربكم كما ترون هذا، لا تضامون في رؤيته، فإن استطعتم ان لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها، فافعلوا، ثم قرا هذه الآية: 0 فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها 0". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أخبرنا جَرِيرٌ، وَوَكِيعٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسًا، فَنَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْلَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا، لَا تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، فَافْعَلُوا، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: 0 فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا 0".
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں شب کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: ”تم لوگ عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے، جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی، لہٰذا اگر تم قدرت رکھتے ہو کہ تم فجر اور عصر کی نماز میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو“ پھر آپ نے یہ آیت «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها»”اور اپنے رب کی تسبیح کرو، سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے“(سورۃ طہٰ: ۱۳۰) پڑھی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: قیامت میں موحدین کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو گا، اہل سنت و الجماعت اور صحابہ و تابعین کا یہی مسلک ہے، جہمیہ و معتزلہ اور بعض مرجئہ اس کے خلاف ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل قرآن و سنت سے موجود نہیں ہے، محض تاویل اور بعض بے بنیاد شبہات کے بل بوتے پر انکار کرتے ہیں، اس باب میں ان کی تردید مقصود ہے۔
Jarir bin Abdullah said: When we are were sitting with the Messenger of Allah ﷺ he looked at the moon on the night when it was full, that is, fourteenth, and said: You will see your Lord as you see this (moon) and have no doubts about seeing him. If, therefore, you can keep from being prevented from prayer before the sun rises and before it sets, do so. He then recited: ”Celebrate the praise of your Lord before the rising of the sun and before its setting”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4711
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4851) صحيح مسلم (633)
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إسماعيل، اخبرنا سفيان، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، انه سمعه يحدث، عن ابي هريرة، قال: قال ناس:" يا رسول الله، انرى ربنا يوم القيامة؟ قال: هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة؟ , قالوا: لا، قال: هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة؟ , قالوا: لا، قال: والذي نفسي بيده، لا تضارون في رؤيته إلا كما تضارون في رؤية احدهما". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِسْمَاعِيل، أخبرنا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ نَاسٌ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ لَيْسَتْ فِي سَحَابَةٍ؟ , قَالُوا: لَا، قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ فِي سَحَابَةٍ؟ , قَالُوا: لَا، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں دوپہر کے وقت سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں دقت محسوس کرتے ہو، جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو؟“ لوگوں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہیں اللہ کے دیدار میں کوئی دقت نہ ہو گی مگر اتنی ہی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں ہوتی ہے ۱؎“۔
Abu Hurairah said: The people asked: Messenger of Allah! Shall we see our lord, the Exalted, on the Day of resurrection? He replied: Do you feel any trouble in seeing the sun at noon when it is not in the cloud? They said: No. He asked: Do you feel any trouble in seeing the moon on the night when it is full and not in the cloud? They replied: No. He said: By him in whose hand my soul is, you will not feel any trouble in seeing him except as much as you feel in seeing any of them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4712
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، اخبرنا حماد. ح واخبرنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، اخبرنا شعبة المعنى، عن يعلى بن عطاء، عن وكيع، قال موسى: ابن عدس، عن ابي رزين، قال موسى: العقيلي، قال: قلت:" يا رسول الله، اكلنا يرى ربه؟ قال ابن معاذ: مخليا به يوم القيامة، وما آية ذلك في خلقه؟ قال: يا ابا رزين، اليس كلكم يرى القمر؟ , قال ابن معاذ: ليلة البدر مخليا به، ثم اتفقا، قلت: بلى، قال: فالله اعظم؟ , قال ابن معاذ: قال: فإنما هو خلق من خلق الله، فالله اجل واعظم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، أخبرنا حَمَّادٌ. ح وأخبرنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، أخبرنا شُعْبَةُ الْمَعْنَى، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ وَكِيعٍ، قَالَ مُوسَى: ابْنِ عُدُسٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ مُوسَى: الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ: قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكُلُّنَا يَرَى رَبَّهُ؟ قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: مُخْلِيًا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَا آيَةُ ذَلِكَ فِي خَلْقِهِ؟ قَالَ: يَا أَبَا رَزِينٍ، أَلَيْسَ كُلُّكُمْ يَرَى الْقَمَرَ؟ , قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: لَيْلَةَ الْبَدْرِ مُخْلِيًا بِهِ، ثُمَّ اتَّفَقَا، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَاللَّهُ أَعْظَمُ؟ , قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: قَالَ: فَإِنَّمَا هُوَ خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ، فَاللَّهُ أَجَلُّ وَأَعْظَمُ".
ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم میں سے ہر ایک اپنے رب کو (قیامت کے دن) بلا رکاوٹ دیکھے گا؟ اور اس کی مخلوق میں اس کی مثال کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابورزین! کیا تم سب چودہویں کا چاند بلا رکاوٹ نہیں دیکھتے؟“ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ تو اور بھی بڑا ہے“ ابن معاذ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، اللہ تو اس سے بہت بڑا اور عظیم ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (180)، (تحفة الأشراف: 11175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جب اس کی مخلوق کو ہر ایک بلا روک ٹوک دیکھ لیتا ہے تو اللہ کو جو اس سے بہت ہی بڑا ہے کیوں نہیں دیکھ سکتا؟۔
Narrated Abu Razin al-Uqayli: I asked: Messenger of Allah! will each one of us see his Lord? Ibn Muadh's version has: "being alone with Him, on the Day of Resurrection? And what sign is there is His creation?" He replied: Abu Razin! does each one of you not see the moon? Ibn Muadh's version has: "on the night when it is full, being alone with it?" Then the agreed version goes: I said: Yes. He said: Allah is more great. Ibn Muadh's version has: It is only part of Allah's creation, but Allah is more glorious and greater.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4713
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (5658) أخرجه ابن ماجه (180 وسنده صحيح)
(قدسي) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، ومحمد بن العلاء: ان ابا اسامة اخبرهم، عن عمر بن حمزة، قال: قال سالم: اخبرني عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يطوي الله السماوات يوم القيامة، ثم ياخذهن بيده اليمنى، ثم يقول: انا الملك، اين الجبارون، اين المتكبرون؟ ثم يطوي الارضين ثم ياخذهن , قال ابن العلاء: بيده الاخرى، ثم يقول: انا الملك، اين الجبارون، اين المتكبرون". (قدسي) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ: أَنَّ أَبَا أُسَامَةَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ: قَالَ سَالِمٌ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَطْوِي اللَّهُ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ، أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟ ثُمَّ يَطْوِي الْأَرَضِينَ ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ , قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ: بِيَدِهِ الْأُخْرَى، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ، أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز اللہ آسمانوں کو لپیٹ دے گا، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا، اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے؟ کہاں ہیں تکبر اور گھمنڈ کرنے والے؟ پھر زمینوں کو لپیٹے گا، پھر انہیں اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا، پھر کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے؟ کہاں ہیں اترانے والے؟“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التوحید 19 (7414تعلیقًا)، صحیح مسلم/صفة القیامة (2788)، (تحفة الأشراف: 6774)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة 14 (198) (صحیح)» ( «شمال» (بایاں ہاتھ) کے ذکر میں عمر بن حمزة متفرد ہیں، جبکہ صحیح احادیث میں رب کے دونوں ہاتھ کو دایاں ہاتھ کہا گیا ہے، ملاحظہ ہو: الصحيحة 3136 تراجع الألباني 124)
Abdullah bin Umar reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Allah will fold the heavens an the day of Resurrection, then seizing them in His right hand he will say: I am the king. Where are the mighty men? Where are the proud men? He will then fold the earths and take them in his other hand (According to the version of Ibn al-Ala), and then say ; I am the King. Where are the mighty men? Where are the proud men?
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4714
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے، میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے معاف کر دوں ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: دونوں احادیث میں اللہ کی صفات کا ذکر ہے جن کا جہمیہ انکار کرتے ہیں، علماء سلف کا مسلک اس بارے میں یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ جس طرح قرآن وسنت میں وارد ہیں ان کو جوں کا توں باقی رکھا جائے نہ ان کا انکار کیا جائے، اور نہ ان کی تاویل کی جائے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی کتاب شرح حدیث النزول دیکھیے جو اس بارے میں دلائل سے پُر اور اپنے باب میں عدیم النظیر ہے۔
Abu Hurairah reported the Prophet ﷺ as saying; Our lord gets down every night to the heaven of this world when a third night remains and says: (Is there anyone) who prays to Me so that I may accept his prayer? (Is there anyone) who asks of Me so that I may give him? (Is there anyone) who asks for my forgiveness so that I may forgive him?
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4715
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1145) صحيح مسلم (758) وانظر الحديث السابق (1315)
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، انبانا إسرائيل، اخبرنا عثمان بن المغيرة، عن سالم، عن جابر بن عبد الله، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرض نفسه على الناس في الموقف، فقال: الا رجل يحملني إلى قومه، فإن قريشا قد منعوني ان ابلغ كلام ربي". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أنبأنا إِسْرَائِيلُ، أخبرنا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ فِي الْمَوْقِفِ، فَقَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو موقف (عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ) میں لوگوں پر پیش کرتے تھے اور فرماتے: ”کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے، قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل القرآن 24 (2925)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (201)، (تحفة الأشراف: 2241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/390)، دی/فضائل 5 (3397) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موسم حج میں مختلف قبائل کے پاس جاتے اور ان میں دین اسلام کی تبلیغ کرتے تھے، اسی کی طرف اشارہ ہے، اس حدیث میں قرآن کو کلام اللہ فرمایا گیا ہے جس سے معتزلہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے جو کلام اللہ کو اللہ کی صفت نہ مان کر اس کو مخلوق کہتے تھے، سلف صالحین نے قرآن کو مخلوق کہنے والے گروہ کی تکفیر کی ہے، جب کہ قرآنی نصوص، احادیث شریفہ اور آثار سلف سے قرآن کا کلام اللہ ہونا، اور کلام اللہ کا صفت باری تعالیٰ ہونا ثابت ہے، اور اس پر سلف کا اجماع ہے۔
Narrated Jabir ibn Abdullah: The Messenger of Allah ﷺ presented himself to the people at Arafat, saying: Is there any man who takes me to his people? The Quraysh have prevented me from preaching the word of my Lord.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4716
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه الترمذي (2925 وسنده صحيح)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میرے جی میں میرا معاملہ اس سے کمتر تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی گفتگو فرمائے گا کہ وہ ہمیشہ تلاوت کی جائے گی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کلام کرے، اور قرآن میں اس کو نازل فرما دے جو ہمیشہ تلاوت کیا جائے، ان کا اشارہ واقعہ افک کی طرف تھا۔