(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إسماعيل، اخبرنا سفيان، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، انه سمعه يحدث، عن ابي هريرة، قال: قال ناس:" يا رسول الله، انرى ربنا يوم القيامة؟ قال: هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة؟ , قالوا: لا، قال: هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة؟ , قالوا: لا، قال: والذي نفسي بيده، لا تضارون في رؤيته إلا كما تضارون في رؤية احدهما". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِسْمَاعِيل، أخبرنا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ نَاسٌ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ لَيْسَتْ فِي سَحَابَةٍ؟ , قَالُوا: لَا، قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ فِي سَحَابَةٍ؟ , قَالُوا: لَا، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں دوپہر کے وقت سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں دقت محسوس کرتے ہو، جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو؟“ لوگوں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہیں اللہ کے دیدار میں کوئی دقت نہ ہو گی مگر اتنی ہی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں ہوتی ہے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اور چونکہ ان کے دیکھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی اسی طرح اللہ کے دیدار میں بھی دقت نہ ہو گی۔
Abu Hurairah said: The people asked: Messenger of Allah! Shall we see our lord, the Exalted, on the Day of resurrection? He replied: Do you feel any trouble in seeing the sun at noon when it is not in the cloud? They said: No. He asked: Do you feel any trouble in seeing the moon on the night when it is full and not in the cloud? They replied: No. He said: By him in whose hand my soul is, you will not feel any trouble in seeing him except as much as you feel in seeing any of them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4712
هل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا يا رسول الله قال هل تضارون في القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فإنكم ترونه يوم القيامة كذلك يجمع الله الناس فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه فيتبع من كان يعبد الشمس ويتبع من كان يعب
هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة قالوا لا قال فهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة قالوا لا قال فوالذي نفسي بيده لا تضارون في رؤية ربكم إلا كما تضارون في رؤية أحدهما قال فيلقى العبد فيقول أي فل ألم أكرمك وأسودك وأزوجك
هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة قالوا لا قال هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة قالوا لا قال والذي نفسي بيده لا تضارون في رؤيته إلا كما تضارون في رؤية أحدهما
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6573
´دنیا کی آنکھ سے کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا` «. . . قَالَ أُنَاسٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ . . .» ”. . . کچھ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/بَابُ الصِّرَاطُ جَسْرُ جَهَنَّمَ:: 6573]
تخريج الحديث: [114۔ البخاري فى: 10 كتاب الاذان: 129 باب فضل السجود 6573 مسلم 182 عبدالرزاق 20856]
لغوی توضیح: «تــمَــارُونَ» کا اصل معنی ہے تم جھگڑتے ہو یعنی تمہیں کوئی مشکل پیش آتی ہے۔ «الطَّوَاغِيتَ» جمع ہے طاغوت کی، اس سے شیطان یا بت یا گمراہی کی بنیاد مراد ہے۔ «ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ» جہنم کے درمیان۔ «يَجُوزُ» مسافت طےکرے گا۔ «السَّعْدَان» کانٹے دار بوٹی۔ «يُوْبَقُ» ہلاک کیے جائیں گے۔ «يُخَرْدَلُ» چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔ «امْتَحَشُوْا» جل جائیں گے۔ «قَشَبَنِيْ» مجھے زہر آلود کر دے گی، مجھے ہلاک کر دے گی۔ «الْاَمَانِيّ» تمنائیں، آرزوئیں۔
فھم الحدیث: ان احادیث میں یہ ثبوت ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی آنکھوں میں ایسی قوت پیدا کر دیں گے جس سے وہ اپنے پروردگار کو بآسانی دیکھ سکیں گے۔ اور جس آیت مبارکہ میں یہ ارشاد ہے کہ «لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ»[الانعام: 103]”اسے (یعنی اللہ عزوجل کو) کسی کی نگاہ محیط نہیں ہو سکتی۔“ اس کا تعلق دنیا سے ہے، یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی تمنا کی تو اللہ نے پہاڑ کے سامنے تجلی ظاہر کی جس سے وہ پہاڑ ہی ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 114
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث178
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں چودھویں رات کو چاند دیکھنے میں مشقت ہوتی ہے“؟ صحابہ نے کہا: جی نہیں، فرمایا: ”اسی طرح قیامت کے دن تمہیں اپنے رب کی زیارت میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔“[سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 178]
اردو حاشہ: حدیث میں لفظ تَضَامُّونَ وارد ہے۔ اس کا مفہوم بھیڑ اور ازدحام کی وجہ سے مشقت اور تکلیف کا پیش آنا ہے۔ جب بہت سے لوگ ایک چیز کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوں، تو جو لوگ اس کے قریب ہوتے ہیں، وہ آسانی سے دیکھ لیتے ہیں جب کہ پیچھے ہونے والے لوگ آسانی سے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ صورت اس وقت پیش آتی ہے جب وہ چیز چھوٹی ہو اور انسانوں کے ہجوم میں چھپ جائے۔ چاند بڑا اور بلند ہونے کی وجہ سے بھیڑ میں چھپ نہیں سکتا، اس لیے دیکھنے والوں کی تعداد جتنی بھی ہو، آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی زیارت میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی، جس طرح پورا چاند دیکھنے میں دشواری پیش نہیں آتی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 178
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7438
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،صحابہ کرام(رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے پوچھا،اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج کودیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے۔؟"انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا:نہیں آپ نے فرمایا:"چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کو ئی زحمت ہوتی ہے؟"انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا:" مجھے اس ذات... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7438]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) هل تضارون: یہ باب مفاعلہ اور باب تفاعل دونوں سے بن سکتا ہے اور اس کا مادہ ضرر ہے، یعنی باہمی بھیڑ اور ٹکراؤ سے تکلیف نہیں ہوگی۔ (2) تراس: توقوم کا رئیس اور چودھری بنے، (3) تربع: جاہلیت کے دور کے قانون کے مطابق، ان سے غنیمت(لوٹاہوامال) کا چوتھا حصہ وصول کرے یا بقول قاضی عیاض، راحت وآرام کی زندگی گزارے۔ (4) يثني بجيرما استطاع: مقدوربھر اپنی نیکیاں بیان کرے گا، اپنے منہ میاں مٹھوبنےگا۔ (5) ليعذر من نفسه: تاکہ اس کی طرف اس کا عذر اور بہانہ ختم کردے، وہ کوئی عذر پیش نہ کرسکے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان کے ہر قسم کے عذر اور بہانے ختم کردے گا اور انسانوں کے اعمال کی گواہی، عمل کرنے والے اعضاء بھی دیں گے، تاکہ انسان اپنی گواہی سے ہی مجرم ثابت ہوجائے۔