(مرفوع) قال ابو داود: قرئ على الحارث بن مسكين وانا شاهد، اخبركم اشهب، قال: سئل مالك: عن قوله: لا صفر، قال: إن اهل الجاهلية كانوا يحلون صفر يحلونه عاما، ويحرمونه عاما، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا صفر، (مرفوع) قَالَ أَبُو دَاوُد: قُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ، أَخْبَرَكُمْ أَشْهَبُ، قَالَ: سُئِلَ مَالِكٌ: عَنْ قَوْلِهِ: لَا صَفَرَ، قَالَ: إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يُحِلُّونَ صَفَرَ يُحِلُّونَهُ عَامًا، وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَفَرَ،
ابوداؤد کہتے ہیں حارث بن مسکین پر پڑھا گیا، اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبر دی ہے کہ امام مالک سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «لا صفر» کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: جاہلیت میں لوگ «صفر» کو کسی سال حلال قرار دے لیتے تھے اور کسی سال اسے (محرم کا مہینہ قرار دے کر) حرام رکھتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صفر»(اب ایسا) نہیں ہے“۔
Abu Dawud said: Malik was asked about the meaning of his saying: There is no safar. He replied: The people of pre-Islamic Arabia used to make the month of safar lawful (for war). They made it lawful in one year and unlawful in another year. The Prophet ﷺ said: There is no safar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3904
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا عدوى ولا طيرة، ويعجبني الفال الصالح والفال الصالح الكلمة الحسنة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِي الْفَأْلُ الصَّالِحُ وَالْفَأْلُ الصَّالِحُ الْكَلِمَةُ الْحَسَنَةُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، اور نہ بد شگونی کوئی چیز ہے، اور فال نیک سے مجھے خوشی ہوتی ہے اور فال نیک بھلی بات ہے“۔
Muhammad bin al-Musaffa said to us on the authority of Baqiyyah. He said: I asked Muhammad bin Rashid about the meaning of the word hamah. He replied: The pre-Islamic Arabs used to say: When anyone dies and is buried, a bird comes forth from his grave. I asked: What did he mean by safar ? He said: I heard that the pre-Islamic Arabs used to take evil omen from safar. So the Prophet ﷺ said: There is no safar. Muhammad (b. Rashid) said: We heard someone say: It is a pain in the stomach. They said that it was infection. Hence he said: There is no safar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3905
(مرفوع) حدثنا محمد بن المصفى، حدثنا بقية قال: قلت لمحمد يعني ابن راشد، قوله هام، قال: كانت الجاهلية تقول: ليس احد يموت، فيدفن، إلا خرج من قبره هامة، قلت: فقوله" صفر" قال: سمعت ان اهل الجاهلية يستشئمون بصفر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا صفر"، قال محمد: وقد سمعنا من يقول هو وجع ياخذ في البطن، فكانوا يقولون هو يعدي، فقال:" لا صفر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قال: قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ، قَوْلُهُ هَامَ، قَالَ: كَانَت الْجَاهِلِيَّةُ تَقُولُ: لَيْسَ أَحَدٌ يَمُوتُ، فَيُدْفَنُ، إِلَّا خَرَجَ مِنْ قَبْرِهِ هَامَةٌ، قُلْتُ: فَقَوْلُهُ" صَفَرَ" قَالَ: سَمِعْتُ أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ يَسْتَشْئِمُونَ بِصَفَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَفَرَ"، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ سَمِعْنَا مَنْ يَقُولُ هُوَ وَجَعٌ يَأْخُذُ فِي الْبَطْنِ، فَكَانُوا يَقُولُونَ هُوَ يُعْدِي، فَقَالَ:" لَا صَفَرَ".
بقیہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن راشد سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «هام» کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے: جو آدمی مرتا ہے اور دفن کر دیا جاتا ہے تو اس کی روح قبر سے ایک جانور کی شکل میں نکلتی ہے، پھر میں نے پوچھا آپ کے قول «لا صفر» کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے سنا ہے کہ جاہلیت کے لوگ «صفر» کو منحوس جانتے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صفر» میں نحوست نہیں ہے۔ محمد بن راشد کہتے ہیں: میں نے کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہے: «صفر» پیٹ میں ایک قسم کا درد ہے، لوگ کہتے تھے: وہ متعدی ہوتا ہے (یعنی ایک کو دوسرے سے لگ جاتا ہے) تو آپ نے فرمایا: ” «صفر» کوئی چیز نہیں ہے“۔
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، عن سهيل، عن رجل، عن ابي هريرة،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سمع كلمة فاعجبته، فقال: اخذنا فالك من فيك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ سُهَيلٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ كَلِمَةً فَأَعْجَبَتْهُ، فَقَالَ: أَخَذْنَا فَأْلَكَ مِنْ فِيكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات سنی جو آپ کو بھلی لگی تو آپ نے فرمایا: ”ہم نے تیری فال تیرے منہ سے سن لی (یعنی انجام بخیر ہے ان شاء اللہ)“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15501)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/388) (صحیح)»
(مقطوع) حدثنا يحيى بن خلف، حدثنا ابو عاصم، حدثنا ابن جريج، عن عطاء، قال: يقول:" وجع ياخذ في البطن، الناس الصفر، قلت: فما الهامة؟، قال: يقول الناس: الهامة التي تصرخ هامة الناس وليست بهامة الإنسان إنما هي دابة". (مقطوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: يَقُولُ:" وَجَعٌ يَأْخُذُ فِي الْبَطْنِ، النَّاسُ الصَّفَرُ، قُلْتُ: فَمَا الْهَامَةُ؟، قَالَ: يَقُولُ النَّاسُ: الْهَامَةُ الَّتِي تَصْرُخُ هَامَةُ النَّاسِ وَلَيْسَتْ بِهَامَةِ الْإِنْسَانِ إِنَّمَا هِيَ دَابَّةٌ".
عطاء سے روایت ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ صفر ایک قسم کا درد ہے جو پیٹ میں ہوتا ہے تو میں نے پوچھا: ہامہ کیا ہے؟ کہا: لوگ کہتے تھے: الو جو بولتا ہے وہ لوگوں کی روح ہے، حالانکہ وہ انسان کی روح نہیں بلکہ وہ ایک جانور ہے (اگلے لوگ جہالت سے اسے انسان کی روح سمجھتے تھے)۔
Narrated Ata: People said: safar is a pain within the belly. I asked: What is hamah ? He said: People said (believed) that hamah which is an owl or a nightbird and which shrieks is the spirit of men. It is not the spirit of men. It is an animal.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3908
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، وابو بكر بن شيبة المعنى، قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن حبيب بن ابي ثابت، عن عروة بن عامر، قال احمد، القرشي قال:" ذكرت الطيرة عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: احسنها الفال ولا ترد مسلما فإذا راى احدكم ما يكره، فليقل اللهم لا ياتي بالحسنات إلا انت، ولا يدفع السيئات إلا انت، ولا حول ولا قوة إلا بك". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَأبُو بَكْرِ بْنُ شَيْبَةَ الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ أَحْمَدُ، الْقُرَشِيُّ قَالَ:" ذُكِرَتِ الطِّيَرَةُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلَا تَرُدُّ مُسْلِمًا فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُ، فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ".
عروہ بن عامر قرشی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طیرہ (بدشگونی) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی سب سے اچھی قسم نیک فال، اور اچھا (شگون) ہے، اور فال (شگون) کسی مسلمان کو اس کے ارادہ سے باز نہ رکھے پھر جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے ناگوار ہو تو وہ یہ دعا پڑھے: «اللهم لا يأتي بالحسنات إلا أنت ولا يدفع السيئات إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا بك»”اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائی نہیں پہنچا سکتا اور سوائے تیرے کوئی برائیوں کو روک بھی نہیں سکتا اور برائی سے باز رہنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت و قوت صرف تیری توفیق ہی سے ملتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9899) (ضعیف)» (اس کے راوی عروہ قرشی تابعی ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے)
Narrated Urwah ibn Amir al-Qurashi: When taking omens was mentioned in the presence of the Prophet ﷺ, he said: The best type is the good omen, and it does not turn back a Muslim. If one of you sees anything he dislikes, he should say: O Allah, no one brings good things except Thee, and no one averts evil things except Thee and there is no might and power but in Allah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3909
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان الثوري وحبيب عنعنا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 140
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، عن قتادة، عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كان لا يتطير من شيء، وكان إذا بعث عاملا سال عن اسمه، فإذا اعجبه اسمه فرح به ورئي بشر ذلك في وجهه، وإن كره اسمه رئي كراهية ذلك في وجهه، وإذا دخل قرية سال عن اسمها، فإن اعجبه اسمها فرح ورئي بشر ذلك في وجهه، وإن كره اسمها رئي كراهية ذلك في وجهه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ لَا يَتَطَيَّرُ مِنْ شَيْءٍ، وَكَانَ إِذَا بَعَثَ عَامِلًا سَأَلَ عَنِ اسْمِهِ، فَإِذَا أَعْجَبَهُ اسْمُهُ فَرِحَ بِهِ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهُ رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِذَا دَخَلَ قَرْيَةً سَأَلَ عَنِ اسْمِهَا، فَإِنْ أَعْجَبَهُ اسْمُهَا فَرِحَ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهَا رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے فال بد (بدشگونی) نہیں لیتے تھے اور جب آپ کسی عامل کو بھیجتے تو اس کا نام پوچھتے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا نام پسند آتا تو اس سے خوش ہوتے اور خوشی آپ کے چہرے پر نظر آتی اور اگر وہ پسند نہ آتا تو یہ ناپسندیدگی آپ کے چہرے پر دکھائی پڑتی، اور جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام پوچھتے اگر وہ نام اچھا لگتا تو اس سے خوش ہوتے اور یہ خوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر دکھائی پڑتی اور اگر وہ ناپسند ہوتا تو یہ ناپسندیدگی آپ کے چہرے پر دکھائی پڑتی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 1993)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/347) (صحیح)»
Narrated Buraydah ibn al-Hasib: The Prophet ﷺ did not take omens from anything, but when he sent out an agent he asked about his name. If it pleased him, he was glad about it, and his cheerfulness on that account was visible in his face. If he disliked his name, his displeasure on that account was visible in his face. When he entered a village, he asked about its name, and if it pleased him, he was glad about it, and his cheerfulness on that account was visible in his face. But if he disliked its name, his displeasure on that account was visible in his face.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3910
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة عنعن ولبعض الحديث شاهد عند الضياء في المختارة بلفظ ”كان يتفأل ولا يتطير ويعجبه الإسم الحسن“ (144/12 ح169) وھو حسن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 140
سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”مردے کی روح جانور کی شکل میں نہیں نکلتی، اور نہ کسی کی بیماری کسی کو لگتی ہے، اور نہ کسی چیز میں نحوست ہے، اور اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی“۔
Narrated Saad ibn Malik: The Prophet ﷺ said: There is no hamah, no infection and no evil omen; if there is in anything an evil omen, it is a house, a horse, and a woman.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3911
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (4586)
(مرفوع) حدثنا القعنبي، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن حمزة، وسالم ابني عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الشؤم في الدار والمراة والفرس"، قال ابو داود: قرئ على الحارث بن مسكين وانا شاهد، اخبرك ابن القاسم، قال: سئل مالك عن الشؤم في الفرس والدار، قال: كم من دار سكنها ناس، فهلكوا ثم سكنها آخرون، فهلكوا؟ فهذا تفسيره فيما نرى والله اعلم، قال ابو داود: قال عمر رضي الله عنه: حصير في البيت خير من امراة لا تلد. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ، وَسَالِمٍ ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الشُّؤْمُ فِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ، أَخْبَرَكَ ابْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: سُئِلَ مَالِكٌ عَنِ الشُّؤْمِ فِي الْفَرَسِ وَالدَّارِ، قَالَ: كَمْ مِنْ دَارٍ سَكَنَهَا نَاسٌ، فَهَلَكُوا ثُمَّ سَكَنَهَا آخَرُونَ، فَهَلَكُوا؟ فَهَذَا تَفْسِيرُهُ فِيمَا نَرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: حَصِيرٌ فِي الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنَ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نحوست گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ ابن قاسم نے آپ کو خبر دی ہے کہ امام مالک سے گھوڑے اور گھر کی نحوست کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: بہت سے گھر ایسے ہیں جس میں لوگ رہے تو وہ مر گئے پھر دوسرے لوگ رہنے لگے تو وہ بھی مر گئے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہی اس کی تفسیر ہے، واللہ اعلم۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گھر کی ایک چٹائی بانجھ عورت سے اچھی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 47 (2858)، النکاح 17 (5093)، الطب 43 (5753)، 54 (5772)، صحیح مسلم/السلام 34 (2225)، سنن الترمذی/الأدب 58 (2824)، سنن النسائی/الخیل 4 (3599)، سنن ابن ماجہ/النکاح 55 (1995)، (تحفة الأشراف: 6864، 18276، 6699)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان 8 (22)، مسند احمد (2/8، 36، 115، 126) (صحیح)» (اس حدیث میں «الشؤم» کا لفظ آیا ہے، اور بعض روایتوں میں «إنما الشؤم» ہے جبکہ صحیحین وغیرہ میں ابن عمر سے «إن کان الشؤم» ثابت ہے، جس کے شواہد سعد بن أبی وقاص (کما تقدم: 3921)، سہل بن سعد (صحیح البخاری/5095)، وجابر (صحیح مسلم/2227) کی احادیث میں ہیں، اس لئے بعض اہل علم نے پہلے لفظ کو شاذ قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: الصحیحة: 799، 789، 1857)۔
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہی روایت صحیح مسلم میں کئی سندوں سے اس طرح ہے: ”اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی“ اور یہی مطلب اس عام روایت کا بھی ہے، اس کی وضاحت سعد بن مالک کی پچھلی روایت سے بھی ہو رہی ہے، اور وہ جو دیگر روایات میں ہے، جیسے حدیث نمبر (۳۹۲۴) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ظاہر کو حقیقت سمجھ بیٹھیں اور ان کا عقیدہ خراب ہو جائے اسی لئے اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم دیا جیسے کوڑھی سے بھاگنے کا حکم دیا، حالانکہ آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم خود فرمایا ہے کہ: ”چھوت کی کوئی حقیقت نہیں“۔
It was narrated from Abdullah bin Umar that the Messenger of Allah ﷺ said: "An omen is in a dwelling, a woman or a horse. " Abu Dawud said: This tradition was read out to al-Harith bin Miskin and I was witness. It was said to him that Ibn Qasim told him that Malik was asked about evil omen in a horse and in a house. He replied: There are many houses in which people lived and perished and again others lived therein and they also perished. This is its explanation so far as we know. Allah knows best. Abu Dawud said: Umar (ra) said: A mat in a house better than a woman who does not give birth to a child.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3911
قال الشيخ الألباني: شاذ والمحفوظ إن كان الشؤم
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5093) صحيح مسلم (2225)
فروہ بن مسیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک زمین ہے جسے ابین کہا جاتا ہے یہی ہمارا کھیت ہے جہاں سے ہمیں غلہ ملتا ہے لیکن یہ وبا والی زمین ہے یا کہا کہ اس کی وبا سخت ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس زمین کو اپنے سے علیحدہ کر دے کیونکہ اس کے ساتھ وبا لگی رہنے سے ہلاکت ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11024)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/451) (ضعیف الإسناد)» (فروة کے شاگرد مبہم ہیں)
Yahya ibn Abdullah ibn Buhayr said that he was informed by one who had heard Farwah ibn Musayk tell that he said: Messenger of Allah! we have land called Abyan, which is the land where we have our fields and grow our crops, but it is very unhealthy. The Prophet ﷺ said: Leave it, for destruction comes from being near disease.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3912
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يحيي بن عبد اللّٰه بن بحير: مستور (تق: 7579) وشيخه مجهول لم يسم انوار الصحيفه، صفحه نمبر 140