(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، وحميد بن عبد الرحمن الرواسي، عن مغيرة بن زياد، عن عبادة بن نسي، عن الاسود بن ثعلبة، عن عبادة بن الصامت، قال:" علمت ناسا من اهل الصفة الكتاب والقرآن، فاهدى إلي رجل منهم قوسا، فقلت: ليست بمال وارمي عنها في سبيل الله عز وجل لآتين رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلاسالنه، فاتيته، فقلت: يا رسول الله، رجل اهدى إلي قوسا ممن كنت اعلمه الكتاب والقرآن، وليست بمال وارمي عنها في سبيل الله، قال: إن كنت تحب ان تطوق طوقا من نار فاقبلها". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ:" عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَسْأَلَنَّهُ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، وَلَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ کے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیتہً دی، میں نے (جی میں) کہا یہ کوئی مال تو ہے نہیں، اس سے میں فی سبیل اللہ تیر اندازی کا کام لوں گا (پھر بھی) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور آپ سے اس بارے میں پوچھوں گا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جن لوگوں کو قرآن پڑھنا لکھنا سکھا رہا تھا، ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی ہے، اور اس کی کچھ مالیت تو ہے نہیں، میں اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں پسند ہو کہ تمہیں آگ کا طوق پہنایا جائے تو اس کمان کو قبول کر لو ۱؎۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 8 (2157)، (تحفة الأشراف: 5068)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/315) (صحیح)» (اس کے راوی سعود مجہول ہیں اور مغیرہ سے وہم ہو جاتا تھا، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 256، والارواء 1493)
وضاحت: ۱؎:صحیح بخاری میں کتاب اللہ کے سلسلہ میں اجرت لینے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں مذکور ہے کہ آپ نے ایک شخص کا نکاح کیا اور قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا، ان روایات کی روشنی میں جمہور علماء کا کہنا ہے کہ تعلیم قرآن، امامت، قضاء اور اذان وغیرہ کی اجرت لی جا سکتی ہے، کیونکہ مذکورہ تینوں روایات سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا کوئی مقابلہ نہیں (کیوں کہ اس کی دونوں سندوں میں متکلم فیہ راوی ہیں)۔
Narrated Ubaydah ibn as-Samit: I taught some persons of the people of Suffah writing and the Quran. A man of them presented to me a bow. I said: It cannot be reckoned property; may I shoot with it in Allah's path? I must come to the Messenger of of Allah ﷺ and ask him (about it). So I came to him and said: Messenger of Allah ﷺ, one of those whom I have been teaching writing and the Quran has presented me a bow, and as it cannot be reckoned property, may I shoot with it in Allah's path? He said: If you want to have a necklace of fire on you, accept it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3409
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (2990) أخرجه ابن ماجه (2157 وسنده حسن)
اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5079) (صحیح)» (اس کی سند میں بقیہ ہیں جو صدوق کے درجہ کے راوی ہیں، یہاں حرف تحدیث کی صراحت ہے، عنعنہ کی حالت میں تدلیس کا اندیشہ ہوتا ہے، نیز مسند احمد (5؍324) ابو المغیرہ نے متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 256)
وضاحت: ۱؎: جمہور نے اس کی اجازت دی ہے اور دلیل میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ جن کاموں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں بہتر اللہ کی کتاب ہے نیز اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں تعلیم قرآن کے عوض عورت سے نکاح کا ذکر ہے۔
A similar tradition has also been transmitted by Ubadah bin al-Samit through a different chain of narrators, but the former tradition is more perfect. This version has: I said: What do you think about it, Messenger of Allah? He said: A live coal between your shoulders which you have put around your neck or hanged it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3410
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (3416)
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد الخدري،" ان رهطا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم انطلقوا في سفرة سافروها، فنزلوا بحي من احياء العرب، فاستضافوهم، فابوا ان يضيفوهم، قال: فلدغ سيد ذلك الحي فشفوا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فقال بعضهم: لو اتيتم هؤلاء الرهط الذين نزلوا بكم لعل ان يكون عند بعضهم شيء ينفع صاحبكم، فقال بعضهم: إن سيدنا لدغ فشفينا له بكل شيء، فلا ينفعه شيء، فهل عند احد منكم شيء يشفي صاحبنا؟ يعني رقية، فقال رجل من القوم: إني لارقي، ولكن استضفناكم فابيتم ان تضيفونا، ما انا براق حتى تجعلوا لي جعلا، فجعلوا له قطيعا من الشاء، فاتاه، فقرا عليه بام الكتاب ويتفل حتى برئ، كانما انشط من عقال فاوفاهم جعلهم الذي صالحوه عليه، فقالوا: اقتسموا، فقال الذي رقى: لا تفعلوا حتى ناتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فنستامره، فغدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكروا ذلك له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اين علمتم انها رقية؟ احسنتم واضربوا لي معكم بسهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،" أَنَّ رَهْطًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْطَلَقُوا فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا، فَنَزَلُوا بِحَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَاسْتَضَافُوهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ، قَالَ: فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ فَشَفَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا بِكُمْ لَعَلَّ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ يَنْفَعُ صَاحِبَكُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ فَشَفَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ، فَلَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ شَيْءٌ يَشْفِي صَاحِبَنَا؟ يَعْنِي رُقْيَةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنِ الْقَوْمِ: إِنِّي لَأَرْقِي، وَلَكِنْ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَأَبَيْتُمْ أَنْ تُضَيِّفُونَا، مَا أَنَا بِرَاقٍ حَتَّى تَجْعَلُوا لِي جُعْلًا، فَجَعَلُوا لَهُ قَطِيعًا مِنِ الشَّاءِ، فَأَتَاهُ، فَقَرَأَ عَلَيْهِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَيَتْفِلُ حَتَّى بَرِئَ، كَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَأَوْفَاهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُ عَلَيْهِ، فَقَالُوا: اقْتَسِمُوا، فَقَالَ الَّذِي رَقَى: لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَسْتَأْمِرَهُ، فَغَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنْ أَيْنَ عَلِمْتُمْ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟ أَحْسَنْتُمْ وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت ایک سفر پر نکلی اور عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کے پاس وہ لوگ جا کر ٹھہرے اور ان سے مہمان نوازی طلب کی تو انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کر دیا وہ پھر اس قبیلے کے سردار کو سانپ یا بچھو نے کاٹ (ڈنک مار دیا) کھایا، انہوں نے ہر چیز سے علاج کیا لیکن اسے کسی چیز سے فائدہ نہیں ہو رہا تھا، تب ان میں سے ایک نے کہا: اگر تم ان لوگوں کے پاس آتے جو تمہارے یہاں آ کر قیام پذیر ہیں، ممکن ہے ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہو جو تمہارے ساتھی کو فائدہ پہنچائے (وہ آئے) اور ان میں سے ایک نے کہا: ہمارا سردار ڈس لیا گیا ہے ہم نے اس کی شفایابی کے لیے ہر طرح کی دوا دارو کر لی لیکن کوئی چیز اسے فائدہ نہیں دے رہی ہے، تو کیا تم میں سے کسی کے پاس جھاڑ پھونک قسم کی کوئی چیز ہے جو ہمارے (ساتھی کو شفاء دے)؟ تو اس جماعت میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں، میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں، لیکن بھائی بات یہ ہے کہ ہم نے چاہا کہ تم ہمیں اپنا مہمان بنا لو لیکن تم نے ہمیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کر دیا، تو اب جب تک اس کا معاوضہ طے نہ کر دو میں جھاڑ پھونک کرنے والا نہیں، انہوں نے بکریوں کا ایک گلہ دینے کا وعدہ کیا تو وہ (صحابی) سردار کے پاس آئے اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر تھوتھو کرتے رہے یہاں تک کہ وہ شفایاب ہو گیا، گویا وہ رسی کی گرہ سے آزاد ہو گیا، تو ان لوگوں نے جو اجرت ٹھہرائی تھی وہ پوری پوری دے دی، تو صحابہ نے کہا: لاؤ اسے تقسیم کر لیں، تو اس شخص نے جس نے منتر پڑھا تھا کہا: نہیں ابھی نہ کرو یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے پوچھ لیں تو وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے پورا واقعہ ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے جانا کہ یہ جھاڑ پھونک ہے؟ تم نے اچھا کیا، اپنے ساتھ تم میرا بھی ایک حصہ لگانا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ الإجارة 16 (2276)، الطب 33 (5736)، صحیح مسلم/ السلام 23 (2201)، سنن الترمذی/ الطب 20 (2063)، سنن ابن ماجہ/ التجارات 7 (2156)، (تحفة الأشراف: 4249)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/2، 44) ویأتی ہذا الحدیث فی الطب (3900) (صحیح)»
Narrated Abu Saeed Al Khudri: Some of the Companions of Prophet ﷺ went on a journey. They encamped with a clan of the Arabs and sought hospitality from them, but they refused to provide them with any hospitality. The chief of the clan was stung by a scorpion or bitten by a snake. They gave him all sorts of treatment, but nothing gave him relied. One of them said: Would that you had gone to those people who encamped with you ; some of them might have something which could give you relief to your companion. (So they went and) one of them said: Our chief has been stung by a scorpion or bitten by a snake. We administered all sorts of medicine but nothing gave him relief. Has any of you anything, i. e. charm, which gives healing to our companion. One of those people said: I shall apply charm; we sought hospitality from you, but you refused to entertain us. I am not going to apply charm until you give me some wages. So they offered them a number of sheep. He then came to and recited Faithat-al-Kitab and spat until he was cured as if he were set free from a bond. Thereafter they made payment of the wages as agreed by them. They said: Apportion (the wages). The man who applied the charm said: Do not do until we come to the Messenger of Allah ﷺ and consult him. So they came to the Messenger of Allah ﷺ next morning and mentioned it to him. The Messenger of Allah ﷺ said: From where did you learn that it was a charm ? You have done right. Give me a share along with you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3411
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2276) صحيح مسلم (2201)
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا شعبة، عن عبد الله بن ابي السفر، عن الشعبي، عن خارجة بن الصلت، عن عمه،" انه مر بقوم فاتوه، فقالوا: إنك جئت من عند هذا الرجل بخير، فارق لنا هذا الرجل، فاتوه برجل معتوه في القيود، فرقاه بام القرآن ثلاثة ايام غدوة وعشية، وكلما ختمها جمع بزاقه، ثم تفل، فكانما انشط من عقال فاعطوه شيئا، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكره له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: كل فلعمري لمن اكل برقية باطل، لقد اكلت برقية حق". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ، عَنْ عَمِّهِ،" أَنَّهُ مَرَّ بِقَوْمٍ فَأَتَوْهُ، فَقَالُوا: إِنَّكَ جِئْتَ مِنْ عِنْدِ هَذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ، فَارْقِ لَنَا هَذَا الرَّجُلَ، فَأَتَوْهُ بِرَجُلٍ مَعْتُوهٍ فِي الْقُيُودِ، فَرَقَاهُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً، وَكُلَّمَا خَتَمَهَا جَمَعَ بُزَاقَهُ، ثُمَّ تَفَلَ، فَكَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَأَعْطَوْهُ شَيْئًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَهُ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلْ فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةٍ بَاطِلٍ، لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةٍ حَقٍّ".
خارجہ بن صلت کے چچا علاقہ بن صحار تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا گزر ایک قوم کے پاس سے ہوا تو وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ آدمی (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس سے بھلائی لے کر آئے ہیں، تو ہمارے اس آدمی کو ذرا جھاڑ پھونک دیں، پھر وہ لوگ رسیوں میں بندھے ہوئے ایک پاگل لے کر آئے، تو انہوں نے اس پر تین دن تک صبح و شام سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، جب وہ اسے ختم کرتے تو (منہ میں) تھوک جمع کرتے پھر تھو تھو کرتے، پھر وہ شخص ایسا ہو گیا، گویا اس کی گرہیں کھل گئیں، ان لوگوں نے ان کو کچھ دیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(بے دھڑک) کھاؤ، قسم ہے (یعنی اس ذات کی جس کے اختیار میں میری زندگی ہے) لوگ تو جھوٹا منتر پڑھ کر کھاتے ہیں، آپ تو سچا منتر پڑھ کر کھا رہے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11011)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/211) ویأتی ہذا الحدیث فی الطب (3896، 3901) (صحیح)»
Kharijah bin al-Salt quoted his paternal uncle as saying that he passed by a clan (of the Arab) who came to him and said: You have brought what is good from this man. Then they brought a lunatic in chains. He recited Surat al-Fatihah over him three days, morning and evening. When he finished, he collected his saliva and then spat it out, (he felt relief) as if he were set free from a bond. They gave him something (as wages). He then came to the Prophet ﷺ and mentioned it to him. The Messenger of Allah ﷺ said: Accept it, for by my life, some accept it for a worthless charm, but you have done so far a genuine one.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3413
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (2986) عمه ھو علاقة بن صحار رضي الله عنه
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی (پچھنا) لگانے والے کی کمائی بری (غیر شریفانہ) ہے ۱؎ کتے کی قیمت ناپاک ہے اور زانیہ عورت کی کمائی ناپاک (یعنی حرام) ہے“۔
وضاحت: ۱؎: «كسب الحجام خبيث» میں «خبيث» کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہونے کے معنی میں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والی حدیث نمبر: (۳۴۲۲) میں محیصہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی، پس پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق «خبيث» کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے «ثوم وبصل»(لہسن، پیاز) کو «خبيث» کہا باوجود یہ کہ ان دونوں کا استعمال حرام نہیں ہے، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیر شریفانہ ہے۔
Narrated Rafi ibn Khadij: The Prophet ﷺ said: The earnings of a cupper are impure, the price paid for a dog is impure, and the hire paid to a prostitute is impure.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3414
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن ابن محيصة، عن ابيه،" انه استاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم في إجارة الحجام، فنهاه عنها، فلم يزل يساله ويستاذنه، حتى امره ان اعلفه ناضحك ورقيقك". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ مُحَيِّصَةَ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ، فَنَهَاهُ عَنْهَا، فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ وَيَسْتَأْذِنُهُ، حَتَّى أَمَرَهُ أَنْ أَعْلِفْهُ نَاضِحَكَ وَرَقِيقَكَ".
محیصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینگی لگا کر اجرت لینے کی اجازت مانگی تو آپ نے انہیں اس کے لینے سے منع فرمایا، وہ برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ نے ان سے کہہ دیا کہ اس سے اپنے اونٹ اور اپنے غلام کو چارہ کھلاؤ۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 47 (1277)، سنن ابن ماجہ/التجارات 10 (2166)، (تحفة الأشراف: 11238)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان 10 (28)، مسند احمد (5/435، 436) (صحیح)»
Narrated Muhayyisah ibn Kab: Muhayyisah asked permission of the Messenger of Allah ﷺ regarding hire of the cupper, but he forbade him. He kept on asking his permission, and at last he said to him: Feed your watering camel with it and feed your slave with it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3415
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (2778) أخرجه الترمذي (1277) وابن ماجه (2166) وانظر مسند الحميدي بتحقيقي (1293، 880)
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم، واعطى الحجام اجره ولو علمه خبيثا لم يعطه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَعْطَى الْحَجَّامَ أَجْرَهُ وَلَوْ عَلِمَهُ خَبِيثًا لَمْ يُعْطِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی، اور سینگی لگانے والے کو اس کی مزدوری دی، اگر آپ اسے حرام جانتے تو اسے مزدوری نہ دیتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ دونوں حدیثیں سینگی لگانے کی اجرت کے مباح ہونے پر دال ہیں اور یہی جمہور کا مسلک ہے، رہی ابن خدیج والی روایت تو اسے یا تو مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے یا اسے منسوخ مانا جائے۔
Narrated Ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ got him self cupped and gave the cupper his wages. Had he considered it impure, he would not have given it (wage) to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3416
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن حميد الطويل، عن انس بن مالك، انه قال:" حجم ابو طيبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فامر له بصاع من تمر، وامر اهله ان يخففوا عنه من خراجه". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ:" حَجَمَ أَبُو طَيْبَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ أَنْ يُخَفِّفُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینگی لگائی تو آپ نے اسے ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا اور اس کے مالکان سے کہا کہ اس کے خراج میں کچھ کمی کر دیں۔
Narrated Anas bin Malik: That Abu Tibah cupped the Messenger of Allah ﷺ and he ordered that a sa' of dates be given to him, also ordering his people to remit some of his dues.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3417
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2102) صحيح مسلم (1577)