(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن قيس بن ابي غرزة، قال:" كنا في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم نسمى السماسرة، فمر بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسمانا باسم هو احسن منه، فقال: يا معشر التجار، إن البيع يحضره اللغو، والحلف، فشوبوه بالصدقة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، قَالَ:" كُنَّا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ، فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ، وَالْحَلِفُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ".
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سماسرہ ۱؎ کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سوداگروں کی جماعت! بیع میں لایعنی باتیں اور (جھوٹی) قسمیں ہو جاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 4 (1208)، سنن النسائی/الأیمان 21 (3828)، البیوع 7 (4468)، سنن ابن ماجہ/التجارات 3 (2145)، (تحفة الأشراف: 11103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/6،280) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «سماسرہ»: «سمسار» کی جمع ہے، عجمی لفظ ہے چونکہ عرب میں اس وقت زیادہ تر عجمی لوگ خرید و فروخت کیا کرتے تھے، اس لئے ان کے لئے یہی لفظ رائج تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے «تجار» کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے، «سمسار» اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع اور مشتری کے درمیان دلالی کرتا ہے۔ ۲؎: یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کر لیا کرو۔
Narrated Qays ibn Abu Gharazah: In the time of the Messenger of Allah ﷺ we used to be called brokers, but the Prophet ﷺ came upon us one day, and called us by a better name than that, saying: O company of merchants, unprofitable speech and swearing takes place in business dealings, so mix it with sadaqah (alms).
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3320
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (2798) رواه الترمذي (1208 وسنده حسن)
اس سند سے بھی قیس بن ابی غرزہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں «يحضره اللغو والحلف» کے بجائے: «يحضره الكذب والحلف» ہے عبداللہ الزہری کی روایت میں: «اللغو والكذب» ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11103) (صحیح)»
The tradition mentioned above has also been transmitted by Qais bin Abi Gharazah through a different chain of narrators to the same effect. This version has: "Lying and swearing have a place on i. " Abdullah al-Zuhri said: "Unprofitable speech and lying. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3321
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح سفيان بن عيينة صرح بالسماع عند الحميدي بتحقيقي (438 وسنده صحيح)
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، عن عمرو يعني ابن ابي عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس:" ان رجلا لزم غريما له بعشرة دنانير، فقال: والله لا افارقك حتى تقضيني، او تاتيني بحميل، فتحمل بها النبي صلى الله عليه وسلم، فاتاه بقدر ما وعده، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: من اين اصبت هذا الذهب؟، قال: من معدن، قال: لا حاجة لنا فيها، وليس فيها خير، فقضاها عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:" أَنَّ رَجُلًا لَزِمَ غَرِيمًا لَهُ بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أُفَارِقُكَ حَتَّى تَقْضِيَنِي، أَوْ تَأْتِيَنِي بِحَمِيلٍ، فَتَحَمَّلَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ بِقَدْرِ مَا وَعَدَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ أَيْنَ أَصَبْتَ هَذَا الذَّهَبَ؟، قَالَ: مِنْ مَعْدِنٍ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهَا، وَلَيْسَ فِيهَا خَيْرٌ، فَقَضَاهَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے قرض دار کے ساتھ لگا رہا جس کے ذمہ اس کے دس دینار تھے اس نے کہا: میں تجھ سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ تو قرض نہ ادا کر دے، یا ضامن نہ لے آ، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض دار کی ضمانت لے لی، پھر وہ اپنے وعدے کے مطابق لے کر آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”یہ سونا تجھے کہاں سے ملا؟“ اس نے کہا: میں نے کان سے نکالا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے (لے جاؤ) اس میں بھلائی نہیں ہے“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے (قرض کو) خود ادا کر دیا۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: A man seized his debtor who owed ten dinars to him. He said to him: I swear by Allah, I shall not leave you until you pay off (my debt) to me or bring a surety. The Prophet ﷺ stood as a surety for him. He then brought as much (money) as he promised. The Prophet ﷺ asked: From where did you acquire this gold? He replied: From a mine. He said: We have no need of it; there is no good in it. Then the Messenger of Allah ﷺ paid (the debt) on his behalf.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3322
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن أخرجه ابن ماجه (2406 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، قال: حدثنا ابو شهاب، حدثنا ابن عون، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، ولا اسمع احدا بعده، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الحلال بين، وإن الحرام بين، وبينهما امور مشتبهات، واحيانا يقول مشتبهة، وساضرب لكم في ذلك مثلا، إن الله حمى حمى، وإن حمى الله ما حرم، وإنه من يرع حول الحمى، يوشك ان يخالطه، وإنه من يخالط الريبة، يوشك ان يجسر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، وَلَا أَسْمَعُ أَحَدًا بَعْدَهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ، وَأَحْيَانًا يَقُولُ مُشْتَبِهَةٌ، وَسَأَضْرِبُ لَكُمْ فِي ذَلِكَ مَثَلًا، إِنَّ اللَّهَ حَمَى حِمًى، وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَا حَرَّمَ، وَإِنَّهُ مَنْ يَرْعَ حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَهُ، وَإِنَّهُ مَنْ يُخَالِطُ الرِّيبَةَ، يُوشِكُ أَنْ يَجْسُرَ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں (جن کی حلت و حرمت میں شک ہے) اور کبھی یہ کہا کہ ان کے درمیان مشتبہ چیز ہے اور میں تمہیں یہ بات ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، اللہ نے (اپنے لیے) محفوظ جگہ (چراگاہ) بنائی ہے، اور اللہ کی محفوظ جگہ اس کے محارم ہیں (یعنی ایسے امور جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے) اور جو شخص محفوظ چراگاہ کے گرد اپنے جانور چرائے گا، تو عین ممکن ہے کہ اس کے اندر داخل ہو جائے اور جو شخص مشتبہ چیزوں کے قریب جائے گا تو عین ممکن ہے کہ اسے حلال کر بیٹھنے کی جسارت کر ڈالے“۔
Narrated Al-Numan bin Bashir: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: What is lawful is clear and what is unlawful is clear, but between them are certain doubtful things. I give you an example for this. Allah has a preserve, and Allah's preserve is the things He has declared unlawful. He who pastures (his animals) round the preserve will soon fall into it. He who falls into doubtful things will soon be courageous.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3323
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2051) صحيح مسلم (1599)
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي، اخبرنا عيسى، حدثنا زكريا، عن عامر الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول بهذا الحديث، قال:" وبينهما مشبهات، لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرا عرضه ودينه، ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام. (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ:" وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ، لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ عِرْضَهُ وَدِينَهُ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ.
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ یہی حدیث بیان فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”ان دونوں کے درمیان کچھ شبہے کی چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو شبہوں سے بچا وہ اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لے گیا، اور جو شبہوں میں پڑا وہ حرام میں پھنس گیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11624) (صحیح)»
Narrated Al-Numan bin Bashir: I heard Messenger of Allah ﷺ say: But between them are certain doubtful things which many people do not recognize. He who guards against doubtful things keeps his religion and his honor blameless, but he who falls into doubtful things falls into what is unlawful.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3324
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (52) صحيح مسلم (1599)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں سود کھانے سے کوئی بچ نہ سکے گا اور اگر نہ کھائے گا تو اس کی بھاپ کچھ نہ کچھ اس پر پڑ کر ہی رہے گی ۱؎“۔ ابن عیسیٰ کی روایت میں «أصابه من بخاره» کی جگہ «أصابه من غباره» ہے، یعنی اس کی گرد کچھ نہ کچھ اس پر پڑ کر ہی رہے گی۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 2 (4460)، سنن ابن ماجہ/التجارات 58 (2278)، مسند احمد (2/494)، (تحفة الأشراف: 9203، 12241) (ضعیف)» (اس کے راوی سعید لین الحدیث ہیں، نیز حسن بصری کا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا کچھ نہ کچھ اثر اس پر ظاہر ہو کر رہے گا۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: A time is certainly coming to mankind when only the receiver of usury will remain, and if he does not receive it, some of its vapour will reach him. Ibn Isa said: Some of its dust will reach him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3325
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (4460) ابن ماجه (2278) الحسن البصري عنعن والجمهور علي أنه لم يسمع من أبي هريرة رضي اللّٰه عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 120
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، اخبرنا ابن إدريس، اخبرنا عاصم بن كليب، عن ابيه، عن رجل من الانصار، قال:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على القبر يوصي الحافر، اوسع من قبل رجليه، اوسع من قبل راسه، فلما رجع استقبله داعي امراة، فجاء وجيء بالطعام، فوضع يده، ثم وضع القوم، فاكلوا، فنظر آباؤنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يلوك لقمة في فمه، ثم قال: اجد لحم شاة اخذت بغير إذن اهلها، فارسلت المراة، قالت: يا رسول الله، إني ارسلت إلى البقيع يشتري لي شاة، فلم اجد، فارسلت إلى جار لي قد اشترى شاة ان ارسل إلي بها بثمنها، فلم يوجد، فارسلت إلى امراته، فارسلت إلي بها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اطعميه الاسارى". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْقَبْرِ يُوصِي الْحَافِرَ، أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ، أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ، فَلَمَّا رَجَعَ اسْتَقْبَلَهُ دَاعِي امْرَأَةٍ، فَجَاءَ وَجِيءَ بِالطَّعَامِ، فَوَضَعَ يَدَهُ، ثُمَّ وَضَعَ الْقَوْمُ، فَأَكَلُوا، فَنَظَرَ آبَاؤُنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُوكُ لُقْمَةً فِي فَمِهِ، ثُمَّ قَالَ: أَجِدُ لَحْمَ شَاةٍ أُخِذَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ أَهْلِهَا، فَأَرْسَلَتِ الْمَرْأَةُ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرْسَلْتُ إِلَى الْبَقِيعِ يَشْتَرِي لِي شَاةً، فَلَمْ أَجِدْ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى جَارٍ لِي قَدِ اشْتَرَى شَاةً أَنْ أَرْسِلْ إِلَيَّ بِهَا بِثَمَنِهَا، فَلَمْ يُوجَدْ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيَّ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَطْعِمِيهِ الْأَسَارَى".
ایک انصاری کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر تھے قبر کھودنے والے کو بتا رہے تھے: ”پیروں کی جانب سے (قبر) کشادہ کرو اور سر کی جانب سے چوڑی کرو“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (وہاں سے فراغت پا کر) لوٹے تو ایک عورت کی جانب سے کھانے کی دعوت دینے والا آپ کے سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس کے یہاں) آئے اور کھانا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ رکھا (کھانا شروع کیا) پھر دوسرے لوگوں نے رکھا اور سب نے کھانا شروع کر دیا تو ہمارے بزرگوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ ایک ہی لقمہ منہ میں لیے گھما پھرا رہے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے لگتا ہے یہ ایسی بکری کا گوشت ہے جسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر کے پکا لیا گیا ہے“ پھر عورت نے کہلا بھیجا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا ایک آدمی بقیع کی طرف بکری خرید کر لانے کے لیے بھیجا تو اسے بکری نہیں ملی پھر میں نے اپنے ہمسایہ کو، جس نے ایک بکری خرید رکھی تھی کہلا بھیجا کہ تم نے جس قیمت میں بکری خرید رکھی ہے اسی قیمت میں مجھے دے دو (اتفاق سے) وہ ہمسایہ (گھر پر) نہ ملا تو میں نے اس کی بیوی سے کہلا بھیجا تو اس نے بکری میرے پاس بھیج دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15663)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/293، 408) (صحیح)»
وضاحت: وضاحت ۱؎: چونکہ بکری، صاحب بکری کی اجازت کے بغیر ذبح کر ڈالی گئی اس لئے یہ مشتبہ گوشت ٹھہرا اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو اس مشتبہ چیز کے کھانے سے بچایا۔
Asim ibn Kulayb quoted his father's authority for the following statement by one of the Ansar: We went out with the Messenger of Allah ﷺ to a funeral, and I saw the Messenger of Allah ﷺ at the grave giving this instruction to the grave-digger: Make it wide on the side of his feet, and make it wide on the side of his head. When he came back, he was received by a man who conveyed an invitation from a woman. So he came (to her), to it food was brought, and he put his hand (i. e. took a morsel in his hand); the people did the same and they ate. Our fathers noticed that the Messenger of Allah ﷺ was moving a morsel around his mouth. He then said: I find the flesh of a sheep which has been taken without its owner's permission. The woman sent a message to say: Messenger of Allah, I sent (someone) to an-Naqi' to have a sheep bought for me, but there was none; so I sent (a message) to my neighbour who had bought a sheep, asking him to send it to me for the price (he had paid), but he could not be found. I, therefore, sent (a message) to his wife and she sent it to me. The Messenger of Allah ﷺ said: Give this food to the prisoners.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3326
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (5942)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب (لکھنے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔
Narrated Abdullah ibn Masud: The Messenger of Allah ﷺ cursed the one who accepted usury, the one who paid it, the witness to it, and the one who recorded it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3327
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه الترمذي (1206 وسنده حسن) ورواه ابن ماجه (2277 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو الاحوص، حدثنا شبيب بن غرقدة، عن سليمان بن عمرو، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، يقول:" الا إن كل ربا من ربا الجاهلية موضوع لكم رءوس اموالكم، لا تظلمون ولا تظلمون، الا وإن كل دم من دم الجاهلية موضوع، واول دم اضع منها دم الحارث بن عبد المطلب، كان مسترضعا في بني ليث، فقتلته هذيل، قال: اللهم هل بلغت، قالوا: نعم، ثلاث مرات، قال: اللهم اشهد، ثلاث مرات". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا شَبِيبُ بْنُ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، يَقُولُ:" أَلَا إِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ مِنْ دَمِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُ مِنْهَا دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، قَالَ: اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، قَالُوا: نَعَمْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں سنا: آپ فرما رہے تھے: ”سنو! زمانہ جاہلیت کے سارے سود کالعدم قرار دے دیئے گئے ہیں تمہارے لیے بس تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر ظلم کرے (نہ تم کسی سے سود لو نہ تم سے کوئی سود لے) سن لو! زمانہ جاہلیت کے خون کالعدم کر دئیے گئے ہیں، اور زمانہ جاہلیت کے سارے خونوں میں سے میں سب سے پہلے جسے معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب ۱؎ کا خون ہے“ وہ ایک شیر خوار بچہ تھے جو بنی لیث میں پرورش پا رہے تھے کہ ان کو ہذیل کے لوگوں نے مار ڈالا تھا۔ راوی کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ ”لوگوں نے تین بار کہا: ہاں (آپ نے پہنچا دیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”اے اللہ! تو گواہ رہ“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 1 (1259)، تفسیرالقرآن 10 (3087)، سنن ابن ماجہ/المناسک 76 (3055)، (تحفة الأشراف: 1191)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/426، 498) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔
Narrated Sulaiman bin Amr: On the authority of his father: I heard the Messenger of Allah ﷺ say in the Farewell Pilgrimage: "Lo, all claims to usury of the pre-Islamic period have been abolished. You shall have your capital sums, deal not unjustly and you shall not be dealt with unjustly. Lo, all claims for blood-vengeance belonging to the pre-Islamic period have been abolished. The first of those murdered among us whose blood-vengeance I remit is al-Harith ibn Abdul Muttalib, who suckled among Banu Layth and killed by Hudhayl. " He then said: O Allah, have I conveyed the message? They said: Yes, saying it three times. He then said: O Allah, be witness, saying it three times.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3328
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن أخرجه ابن ماجه (3055 وسنده حسن) ورواه الترمذي (3087 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح، حدثنا ابن وهب. ح وحدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، عن يونس، عن ابن شهاب، قال: قال ابن المسيب: إن ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الحلف منفقة للسلعة، ممحقة للبركة"، قال ابن السرح: للكسب، وقال: عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبسة، عن يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْحَلِفُ مَنْفَقَةٌ لِلسِّلْعَةِ، مَمْحَقَةٌ لِلْبَرَكَةِ"، قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: لِلْكَسْبِ، وقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”(جھوٹی) قسم (قسم کھانے والے کے خیال میں) سامان کو رائج کر دیتی ہے، لیکن برکت کو ختم کر دیتی ہے“۔
Narrated Abu Hurairah: I heard Messenger of Allah ﷺ say: Swearing produces a ready sale for a commodity but blots out the blessing. The narrator Ibn al-Sarh said: "for earning". He also narrated this tradition from Saeed bin al-Musayyab on the authority of Abu Hurairah from the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3329
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2087) صحيح مسلم (1606)