سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جہاد کے مسائل
Jihad (Kitab Al-Jihad)
163. باب فِي الإِمَامِ يُسْتَجَنُّ بِهِ فِي الْعُهُودِ
163. باب: عہد و پیمان میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہے اس لیے امام جو عہد کرے اس کی پابندی لوگوں پر ضروری ہے۔
Chapter: Regarding The Imam Is The Shield Of The Covenant.
حدیث نمبر: 2757
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح البزاز قال: حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما الإمام جنة يقاتل به".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ بِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام بحیثیت ڈھال کے ہے اسی کی رائے سے لڑائی کی جاتی ہے (تو اسی کی رائے پر صلح بھی ہو گی) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13788)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجھاد 109 (2957)، صحیح مسلم/الإمارة 9 (1841)، سنن النسائی/البیعة 30 (4201) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: امام اور امیر کی قیادت میں عام شہری اس کے حکم اور اس کی رائے اور اس کی طرف سے دشمن سے کیے گئے معاہدوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، ایسی صورت میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہوتا ہے، جس کے ذریعے سے لوگ نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں، جیسے ڈھال کے ذریعے آدمی دشمن کے وارسے محفوظ رہتا ہے،امام اور دشمن کے درمیان جو بات صلح اور اتفاق سے طے ہو جاتی ہے، اس کے مطابق دونوں فریق اپنے مسائل حل کرتے ہیں، تو امام کے معاہدہ کے نتیجے میں لوگ دشمن کی ایذا سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے امام اور حاکم کی حیثیت امن اور جنگ میں ڈھال کی ہے، جس سے رعایا فوائد حاصل کرتی ہے، اور دشمن کے شر سے محفوظ رہتی ہے۔

Abu Hurarirah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying “A Muslim ruler is shield by which a battle is fought. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2751


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
رواه البخاري (2957) ومسلم (1841)
حدیث نمبر: 2758
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني عمرو، عن بكير بن الاشج، عن الحسن بن علي بن ابي رافع، ان ابا رافع اخبره، قال: بعثتني قريش إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم القي في قلبي الإسلام فقلت: يا رسول الله إني والله لا ارجع إليهم ابدا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لا اخيس بالعهد ولا احبس البرد، ولكن ارجع فإن كان في نفسك الذي في نفسك الآن فارجع"، قال: فذهبت ثم اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فاسلمت، قال بكير: واخبرني ان ابا رافع كان قبطيا، قال ابو داود: هذا كان في ذلك الزمان فاما اليوم فلا يصلح.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: بَعَثَتْنِي قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُلْقِيَ فِي قَلْبِي الْإِسْلَامُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنْ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ"، قَالَ: فَذَهَبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ، قَالَ بُكَيْرٌ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا رَافِعٍ كَانَ قِبْطِيًّا، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا كَانَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا يَصْلُحُ.
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آ جانا، ابورافع کہتے ہیں: میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گیا۔ بکیر کہتے ہیں: مجھے حسن بن علی نے خبر دی ہے کہ ابورافع قبطی غلام تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس زمانہ میں تھا اب یہ مناسب نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12013)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ السیر (8674) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی اسلام لے آنے والے قاصد کو کفار کی طرف لوٹا دینا اسی مدت کے اندر اور خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا، اب ایسا کرنا اسلامی کاز کے لئے بہتر نہیں ہے۔

Narrated Abu Rafi: The Quraysh sent me to the Messenger of Allah ﷺ, and when I saw the Messenger of Allah ﷺ, Islam was cast into my heart, so I said: Messenger of Allah, I swear by Allah, I shall never return to them. The Messenger of Allah ﷺ replied: I do not break a covenant or imprison messengers, but return, and if you feel the same as you do just now, come back. So I went away, and then came to the Prophet ﷺ and accepted Islam. The narrator Bukair said: He informed me that Abu Rafi was a Copt. Abu Dawud said: This was valid in those days, but today it is not valid.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2752


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (3981)
164. باب فِي الإِمَامِ يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ عَهْدٌ فَيَسِيرُ إِلَيْهِ
164. باب: جب امام اور دشمن میں معاہدہ ہو تو امام دشمن کے ملک میں جا سکتا ہے۔
Chapter: Regarding There Being A Covenant Between The Imam And The Enemy, And He Advances Towards Them (To Attack).
حدیث نمبر: 2759
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر النمري، قال: حدثنا شعبة، عن ابي الفيض، عن سليم بن عامر رجل من حمير، قال: كان بين معاوية وبين الروم عهد، وكان يسير نحو بلادهم حتى إذا انقضى العهد غزاهم فجاء رجل على فرس او برذون، وهو يقول: الله اكبر الله اكبر وفاء لا غدر، فنظروا فإذا عمرو بن عبسة فارسل إليه معاوية فساله فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من كان بينه وبين قوم عهد فلا يشد عقدة ولا يحلها حتى ينقضي امدها او ينبذ إليهم على سواء"، فرجع معاوية.
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْفَيْضِ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ الرُّومِ عَهْدٌ، وَكَانَ يَسِيرُ نَحْوَ بِلَادِهِمْ حَتَّى إِذَا انْقَضَى الْعَهْدُ غَزَاهُمْ فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ أَوْ بِرْذَوْنٍ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَفَاءٌ لَا غَدَرَ، فَنَظَرُوا فَإِذَا عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مُعَاوِيَةُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَا يَشُدُّ عُقْدَةً وَلَا يَحُلُّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ"، فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ.
سلیم بن عامر سے روایت ہے، وہ قبیلہ حمیر کے ایک فرد تھے، وہ کہتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لیے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے، (اس مدت میں) معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان سے جنگ کی، ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، وہ کہہ رہا تھا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو ۱؎ لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو ان کے پاس بھیجا، اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس شخص کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو معاہدہ نہ توڑے اور نہ نیا معاہدہ کرے جب تک کہ اس معاہدہ کی مدت پوری نہ ہو جائے، یا برابری پر عہد ان کی طرف واپس نہ کر دے، تو یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ واپس آ گئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/السیر 27 (1580)، (تحفة الأشراف: 10753)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/111، 113، 385) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو اس لئے ناپسند کیا کیونکہ معاہدہ کی مدت پوری ہونے کے فوراً بعد دشمن کو آگاہ کئے بغیر جنگ نامناسب تھی اور بہتر یہ تھا کہ مدت پوری ہونے کے بعد دشمن کو آگاہ کر دیا جاتا پھر جنگ شروع کی جاتی۔

Narrated Amr ibn Abasah: Sulaym ibn Amir, a man of Himyar, said: There was a covenant between Muawiyah and the Byzantines, and he was going towards their country, and when the covenant came to an end, he attacked them. A man came on a horse, or a packhorse saying, Allah is Most Great, Allah is Most Great; let there be faithfulness and not treachery. And when they looked they found that he was Amr ibn Abasah. Muawiyah sent for him and questioned him (about that). He said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: When one has covenant with people he must not strengthen or loosen it till its term comes to an end or he brings it to an end in agreement with them (to make both the parties equal). So Muawiyah returned.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2753


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (3980)
أخرجه الترمذي (1580 وسنده صحيح)
165. باب فِي الْوَفَاءِ لِلْمُعَاهِدِ وَحُرْمَةِ ذِمَّتِهِ
165. باب: ذمی اور جس سے عہد و پیمان ہو اس کا پاس و احترام ضروری ہے۔
Chapter: Regarding Fulfilling The Agreement For One Who Has A Covenant, And The Sanctity Of His Protection.
حدیث نمبر: 2760
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، عن عيينة بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي بكرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل معاهدا في غير كنهه حرم الله عليه الجنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی معاہد کو بغیر کسی وجہ کے قتل کرے گا تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/القسامة 10(4751)، (تحفة الأشراف: 11694)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/36، 38، 46،50، 51)، سنن الدارمی/السیر 61 (2546) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Bakrah: The Prophet ﷺ said: If anyone kills a man whom he grants protection prematurely, Allah will forbid him to enter Paradise.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2754


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
أخرجه النسائي (4751 وسنده صحيح)
166. باب فِي الرُّسُلِ
166. باب: ایلچی اور سفیر کا بیان۔
Chapter: Regarding Sending Messengers.
حدیث نمبر: 2761
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمرو الرازي، حدثنا سلمة يعني ابن الفضل، عن محمد بن إسحاق، قال: كان مسيلمة كتب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: وقد حدثني محمد بن إسحاق، عن شيخ من اشجع يقال له: سعد بن طارق، عن سلمة بن نعيم بن مسعود الاشجعي، عن ابيه نعيم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لهما حين قرا كتاب مسيلمة:" ما تقولان انتما؟ قالا: نقول كما قال، قال: اما والله لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقكما".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: كَانَ مُسَيْلِمَةُ كَتَبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَقَدْ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَشْجَعَ يُقَالُ لَهُ: سَعْدُ بْنُ طَارِقٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُعَيْمِ بْنِ مَسْعُودٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ نُعَيْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُمَا حِينَ قَرَأَ كِتَابَ مُسَيْلِمَةَ:" مَا تَقُولَانِ أَنْتُمَا؟ قَالَا: نَقُولُ كَمَا قَالَ، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا".
نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا: تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ ان دونوں نے کہا: ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ ۱؎ نے کہا ہے، (یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11650)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/487) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مسیلمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نبوت کا دعوی کیا تھا، عبداللہ بن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کا پیام لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے، اسی موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ نہ ہوتا کہ قاصد قتل نہ کئے جائیں، تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر مسیلمہ سے مقابلہ کے لئے روانہ کیا گیا بالآخر وحشی کے ہاتھوں مسیلمہ مارا گیا۔

Narrated Nuaym ibn Masud: I heard the Messenger of Allah ﷺ say when he read the letter of Musaylimah: What do you believe yourselves? They said: We believe as he believes. He said: I swear by Allah that were it not that messengers are not killed, I would cut off your heads.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2755


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (3982)
حدیث نمبر: 2762
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن حارثة بن مضرب، انه اتى عبد الله، فقال: ما بيني وبين احد من العرب حنة، وإني مررت بمسجد لبني حنيفة فإذا هم يؤمنون بمسيلمة، فارسل إليهم عبد الله فجيء بهم فاستتابهم غير ابن النواحة، قال له: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لولا انك رسول لضربت عنقك فانت اليوم لست برسول، فامر قرظة بن كعب فضرب عنقه في السوق، ثم قال: من اراد ان ينظر إلى ابن النواحة قتيلا بالسوق".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ، فَقَالَ: مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ حِنَةٌ، وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ فَجِيءَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ، قَالَ لَهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَوْلَا أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلًا بِالسُّوقِ".
حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے۔ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9196)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/384)، سنن الدارمی/السیر 60 (2545) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abdullah ibn Masud: Harithah ibn Mudarrib said that he came to Abdullah ibn Masud and said (to him): There is no enmity between me and any of the Arabs. I passed a mosque of Banu Hanifah. They (the people) believed in Musaylimah. Abdullah (ibn Masud) sent for them. They were brought, and he asked them to repent, except Ibn an-Nawwahah. He said to him: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: Were it not that you were not a messenger, I would behead you. But today you are not a messenger. He then ordered Qarazah ibn Kab (to kill him). He beheaded him in the market. Anyone who wants to see Ibn an-Nawwahah slain in the market (he may see him).
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2756


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي في الكبريٰ (8675)
أبو إسحاق عنعن
وحديث الحاكم (52/3 ح 4377 وسنده حسن)يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 100
167. باب فِي أَمَانِ الْمَرْأَةِ
167. باب: مسلمان عورت کافر کو امان دیدے اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: Regarding Protection Granted By A Woman.
حدیث نمبر: 2763
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني عياض بن عبد الله، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، عن ابن عباس، قال: حدثتني ام هانئ بنت ابي طالب، انها اجارت رجلا من المشركين يوم الفتح فاتت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال:" قد اجرنا من اجرت وامنا من امنت".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهَا أَجَارَتْ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے ام ہانی بنت ابوطالب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے دن ایک مشرک کو امان دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی، اور ہم نے اس کو امان دیا جس کو تم نے امان دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18005)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 4 (357)، والجزیة 9 (3171)، والأدب 94 (6158)، صحیح مسلم/المسافرین 16 (336)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 8 (28)، مسند احمد (6/343، 423)، دي الصلاة 151 (1494) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ibn Abbas said “Umm Hani daughter of Abu Talib told me that in the year of the conquest she gave protection to a man from the polytheists. She came to the Prophet ﷺ and mentioned it to him. He said “We have given security to those to whom you have given it. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2757


قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله وأمنا

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
تقدم بعضه (1290) وأخرجه النسائي في الكبريٰ (8685)
حدیث نمبر: 2764
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن منصور عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: إن كانت المراة لتجير على المؤمنين فيجوز.
(موقوف) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنْ كَانَتِ الْمَرْأَةُ لَتُجِيرُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ فَيَجُوزُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر کوئی عورت کسی کافر کو مسلمانوں سے پناہ دے دیا کرتی تو وہ پناہ درست ہوتی تھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15998) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Aishah, Ummul Muminin: A woman would give security from the believers and it would be allowed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2758


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي في الكبريٰ (8683)
إبراهيم النخعي عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 100
168. باب فِي صُلْحِ الْعَدُوِّ
168. باب: دشمن سے صلح کرنے کا بیان۔
Chapter: Regarding Treaties With The Enemy.
حدیث نمبر: 2765
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد، ان محمد بن ثور حدثهم، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن المسور بن مخرمة، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم زمن الحديبية في بضع عشرة مائة من اصحابه حتى إذا كانوا بذي الحليفة قلد الهدي واشعره واحرم بالعمرة وساق الحديث قال: وسار النبي صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان بالثنية التي يهبط عليهم منها بركت به راحلته فقال الناس: حل حل خلات القصواء مرتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما خلات وما ذلك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل، ثم قال: والذي نفسي بيده لا يسالوني اليوم خطة يعظمون بها حرمات الله إلا اعطيتهم إياها، ثم زجرها فوثبت فعدل عنهم حتى نزل باقصى الحديبية على ثمد قليل الماء، فجاءه بديل بن ورقاء الخزاعي، ثم اتاه يعني عروة بن مسعود، فجعل يكلم النبي صلى الله عليه وسلم فكلما كلمه اخذ بلحيته والمغيرة بن شعبة قائم على النبي صلى الله عليه وسلم ومعه السيف، وعليه المغفر، فضرب يده بنعل السيف، وقال: اخر يدك عن لحيته فرفع عروة راسه فقال: من هذا؟ قالوا: المغيرة بن شعبة، فقال: اي غدر اولست اسعى في غدرتك، وكان المغيرة صحب قوما في الجاهلية فقتلهم واخذ اموالهم، ثم جاء فاسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اما الإسلام فقد قبلنا، واما المال فإنه مال غدر لا حاجة لنا فيه فذكر الحديث، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اكتب هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، وقص الخبر فقال سهيل، وعلى: انه لا ياتيك منا رجل وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، فلما فرغ من قضية الكتاب قال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه: قوموا فانحروا، ثم احلقوا، ثم جاء نسوة مؤمنات مهاجرات الآية، فنهاهم الله ان يردوهن وامرهم ان يردوا الصداق، ثم رجع إلى المدينة فجاءه ابو بصير رجل من قريش يعني فارسلوا في طلبه فدفعه إلى الرجلين فخرجا به حتى إذ بلغا ذا الحليفة نزلوا ياكلون من تمر لهم، فقال ابو بصير لاحد الرجلين: والله إني لارى سيفك هذا يا فلان جيدا، فاستله الآخر فقال: اجل قد جربت به فقال ابو بصير: ارني انظر إليه فامكنه منه فضربه حتى برد وفر الآخر حتى اتى المدينة فدخل المسجد يعدو، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد راى هذا ذعرا فقال: قد قتل والله صاحبي وإني لمقتول، فجاء ابو بصير فقال: قد اوفى الله ذمتك فقد رددتني إليهم، ثم نجاني الله منهم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ويل امه مسعر حرب لو كان له احد فلما سمع ذلك عرف انه سيرده إليهم، فخرج حتى اتى سيف البحر وينفلت ابو جندل، فلحق بابي بصير حتى اجتمعت منهم عصابة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ: وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا خَلَأَتْ وَمَا ذَلِكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا، ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ، فَجَاءَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ، ثُمَّ أَتَاهُ يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ، وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَيْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ، وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا الْإِسْلَامُ فَقَدْ قَبِلْنَا، وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَصَّ الْخَبَرَ فَقَالَ سُهَيْلٌ، وَعَلَى: أَنَّهُ لَا يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا، ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ الْآيَةَ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذْ بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا، فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ فَقَالَ: أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ: أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا فَقَالَ: قَدْ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ: قَدْ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ، ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سَيْفَ الْبَحْرِ وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: حل حل ۱؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہے، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا، گفتگو میں عروہ باربار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، وہ تلوار لیے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں، اس پر عروہ نے کہا: اے بدعہد! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے ۲؎ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا، اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۳؎ اس کے بعد مسور رضی اللہ عنہ نے آخر تک حدیث بیان کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکھو، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے، پھر پورا قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا: اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اٹھو اور اونٹ نحر (ذبح) کرو، پھر سر منڈا ڈالو، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس کر دینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابوبصیر تھا، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آ گیا، قریش نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو ان کے حوالہ کر دیا، وہ ابوبصیر کو ساتھ لے کر نکلے، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے، اس نے میان سے نکال کر کہا: ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں، ابوبصیر نے کہا: مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں، اس قریشی نے اس تلوار کو ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، تو انہوں نے (اسی تلوار سے) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، (یہ دیکھ کر) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آ گیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ڈر گیا ہے، وہ بولا: قسم اللہ کی! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا، اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے اور بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنا عہد پورا کیا، مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تباہی ہو اس کی ماں کے لیے، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا، ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں ان کے حوالہ کر دیں گے، چنانچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے اور (ابوجندل جو صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا تھا) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابوبصیر سے آ ملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 106 (1694)، والشروط 16 (2734)، والمغازي 35 (4148)، ن الحج 62 (2772)، (تحفة الأشراف: 11270)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/323، 327، 328) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حل حل: یہ کلمہ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی رک جائے اور چلنا چھوڑ دے۔
۲؎: اصل واقعہ یہ ہے کہ بنو مالک کی شاخ ثقیف کے تیرہ لوگوں کے ساتھ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ مقوقس مصر کی زیارت کے لئے نکلے تھے واپسی میں مقوقس مصر نے ان لوگوں کو خوب خوب ہدایا و تحائف دئیے لیکن مغیرہ رضی اللہ عنہ کو کم نوازا جس کی وجہ سے انہیں غیرت آ گئی، راستے میں ان لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور شراب اس قدر پی کہ سب مدہوش ہو گئے، مغیرہ رضی اللہ عنہ کو اچھا موقع ہاتھ آیا انہوں نے سب کو قتل کر دیا اور سب کے سامان لے لئے، بعد میں مقتولین کے ورثاء نے عروہ بن مسعود ثقفی سے جھگڑا کیا کیونکہ مغیرہ رضی اللہ عنہ ان کے بھتیجے تھے بمشکل عروہ نے ان سب کو دیت پر راضی کرکے فیصلہ کرایا، اسی احسان کی طرف عروہ نے اشارہ کیا ہے۔
۳؎: کیونکہ یہ مکر اور فریب سے حاصل ہوا ہے۔

Al Miswar bin Makhramah said: The Messenger of Allah ﷺ came out in the year of al-Hudaibbiyyah with over ten hundreds of Companions and when he came to Dhu al Hulaifah. He garlanded and marked the sacrificial animals, and entered the sacred state of Umrah. He then went on with the tradition. The Prophet moved on and when he came to the mountain, pass by which one descends (to Makkah) to them, his riding-beast knelt down, and the people said twice: Go on, go on, al-Qaswa has become jaded. The Prophet ﷺ said: She has not become jaded and that is not a characteristic of hers, but He Who restrained the elephant has restrained her. He then said: By Him in Whose hand my soul is, they will not ask any me good thing by which they honor which God has made sacred without my giving them it. He then urged her and she leaped up and he turned aside from them, and stopped at the farthest side of al-Hudaibiyyah at a pool with little water. Meanwhile Budail bin Warqa al-Khuza’I came, and Urwah bin Masud joined him. He began to speak to the Prophet ﷺ. Whenever he spoke to the Prophet ﷺ, he caught his beard. Al Mughriah bin Shubah was standing beside the Prophet ﷺ. He had a sword with him, wearing a helmet. He (Al Mughriah) struck his (Urwah’s) hand with the lower end of his sheath, and said: Keep away your hand from his beard. Urwah then raised his hand and asked: Who is this? They replied: Al-Mughirah bin Shubah. He said: O treacherous one! Did I not use my offices in your treachery? In pre-Islamic days Al-Mughirah bin Shubah accompanied some people and murdered them, and took their property. He then came (to the Prophet) and embraced Islam. The Prophet ﷺ said: As for Islam we accepted it, but as to the property, as it has been taken by treachery, we have no need of it. He went on with the tradition the Prophet ﷺ said: Write down: This is what Muhammad, the Messenger of Allah, has decided. He then narrated the tradition. Suhail then said: And that a man will not come to you from us, even if he follows your religion, without you sending him back to us. When he finished drawing up the document, the Prophet ﷺ said to his Companions: Get up and sacrifice and then shave. Thereafter some believing women who were immigrants came. (Allah sent down: O yea who believe, when believing women come to you as emigrants). Allah most high forbade them to send them back, but ordered them to restore the dower. He then returned to Madina. Abu Basir a man from the Quraish (who was a Muslim), came to him. And they sent (two men) to look for him; so he handed him over to the two men. They took him away, and when they reached Dhu Al Hulaifah and alighted to eat some dates which they had, Abu Basir said to one of the men: I swear by Allah so-and-so, that I think this sword of yours is a fine one; the other drew the sword and said: Yes I have tried it. Abu Basir said: Let me look at it. He let him have it and he struck him till he died, whereupon the other fled and came to Madina, and running entered the mosque. The Prophet ﷺ said: This man has seen something frightful. He said: I swear by Allah that my Companion has been killed, and im as good as dead. Abu Basir then arrived and said: Allah has fulfilled your covenant. You returned me to them, but Allah saved me from them. The Prophet ﷺ said: Woe to his mother, stirrer up of war! Would that he had someone (i. e. some kinsfolk). When he heard that he knew that he would send him back to them, so he went out and came to the seashore. Abu Jandal escaped and joined Abu Basir till a band of them collected.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2759


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2731، 2732)
حدیث نمبر: 2766
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابن إدريس، قال: سمعت ابن إسحاق، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن المسور بن مخرمة، ومروان بن الحكم، انهم اصطلحوا على وضع الحرب عشر سنين، يامن فيهن الناس وعلى ان بيننا عيبة مكفوفة وانه لا إسلال ولا إغلال.
(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، أنهم اصطلحوا على وضع الحرب عشر سنين، يأمن فيهن الناس وعلى أن بيننا عيبة مكفوفة وأنه لا إسلال ولا إغلال.
عروہ بن زیبر سے روایت ہے کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے اس بات پر صلح کی کہ دس برس تک لڑائی بند رہے گی، اس مدت میں لوگ امن سے رہیں گے، طرفین کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف رہیں گے ۱؎ اور نہ اعلانیہ لوٹ مار ہو گی نہ چوری چھپے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11253) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث میں «عیبہ» کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ایسی تھیلی یا گٹھری کے ہیں جس میں عمدہ کپڑے رکھے جاتے ہیں، یہاں دل کو «عیبہ» سے تشبیہ دی اور «مکفوفہ» کے معنی بندھے ہوئے کے ہیں، یعنی ہمارے درمیان کپڑوں کا صندوق بند رہے گا، یعنی ہمارا دل ہر طرح کے مکر و فساد، کینے اور بدعہدی سے پاک ہو گا، عہد کی محافظت و پاسداری کی جائے گی اور دونوں طرف سے اب تک جو باتیں ہوئی ہیں انہیں لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا کسی کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔
۲؎: بعض لوگوں کے یہاں حدیث میں وارد «إسلال» سے مراد تلواریں نکالنا ہے، اور «إغلال» سے مراد زرہ پہننا ہے، اور «لا إسلال ولا إغلال» کے معنی ہیں جنگ نہیں کریں گے۔

Al Miswar bin Makhramah and Marwan bin Al Hakam said “They agreed to abandon war for ten years during which the people which have security on the basis that there should be sincerity between them and that there should be not theft or treachery.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2760


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (4046)
انظر الحديث السابق (2765)

Previous    25    26    27    28    29    30    31    32    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.