(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن حارثة بن مضرب، انه اتى عبد الله، فقال: ما بيني وبين احد من العرب حنة، وإني مررت بمسجد لبني حنيفة فإذا هم يؤمنون بمسيلمة، فارسل إليهم عبد الله فجيء بهم فاستتابهم غير ابن النواحة، قال له: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لولا انك رسول لضربت عنقك فانت اليوم لست برسول، فامر قرظة بن كعب فضرب عنقه في السوق، ثم قال: من اراد ان ينظر إلى ابن النواحة قتيلا بالسوق". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ، فَقَالَ: مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ حِنَةٌ، وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ فَجِيءَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ، قَالَ لَهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَوْلَا أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلًا بِالسُّوقِ".
حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے“۔ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9196)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/384)، سنن الدارمی/السیر 60 (2545) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Masud: Harithah ibn Mudarrib said that he came to Abdullah ibn Masud and said (to him): There is no enmity between me and any of the Arabs. I passed a mosque of Banu Hanifah. They (the people) believed in Musaylimah. Abdullah (ibn Masud) sent for them. They were brought, and he asked them to repent, except Ibn an-Nawwahah. He said to him: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: Were it not that you were not a messenger, I would behead you. But today you are not a messenger. He then ordered Qarazah ibn Kab (to kill him). He beheaded him in the market. Anyone who wants to see Ibn an-Nawwahah slain in the market (he may see him).
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2756
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي في الكبريٰ (8675) أبو إسحاق عنعن وحديث الحاكم (52/3 ح 4377 وسنده حسن)يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 100
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2762
فوائد ومسائل: دارالسلام میں کفر اور ارتداد کا کھلے عام اظہار ناقابل معافی جرم ہے۔ بالخصوص سرغنے قسم کے لوگوں سے تو کسی قسم کی رعایت نہیں رکھی جا سکتی۔ بعض لوگ اسے حریت فکر کا قائل نہیں۔ جس کا نتیجہ الحاد لادینیت اور ارتداد ہو اور اسلام ہی نہیں۔ کوئی بھی نظریاتی ملک اپنے اساسی نظریات کے خلاف لب کشائی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے کہ اس کا نتیجہ فکری انتشار اور نظریاتی انارکی کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ آذادی افکار وہی ہے۔ جس کی بابت اقبال نے کہا تھا: آزادی افکار سے ہے۔ ان کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر وتدبر کا سلیقہ ہوفکر اگرخام تو آذادی افکار انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ اس کی بابت مذید فرمایا! اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بندے سے آزاد گر فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ آذادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2762