ہمیں ہشام نے اسی سند کے ساتھ، اسی طرح حدیث بیان کی، مگر اس نے کہا: ہم میں سے ایک آدمی اس کے ساتھ (جانے کے لئے کھڑا ہوگیا) ہم نے کبھی گمان نہیں کیاتھا کہ وہ دم کرسکتاہے۔
امام صاحب کو یہی حدیث اس فرق کے ساتھ ایک اور استاد نے سنائی کہ ہم میں سے ایک آدمی، اس کے ساتھ کھڑا ہوا، جس کے بارے میں ہمارا یہ گمان نہ تھا کہ وہ دم کرتا ہے۔
سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ایک درد کی شکایت کی، جو ان کے بدن میں پیدا ہو گیا تھا جب سے وہ مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین بار ((بسم اللہ)) کہو، اس کے بعد سات بار یہ کہو کہأَعُوذُ بِاللَّہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ ”میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس چیز کی برائی سے جس کو پاتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں“۔
حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ جب سے وہ اسلام لائے ہیں، ان کے جسم میں درد رہتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”جسم کے جس حصہ میں درد پاتے ہو، وہاں اپنا ہاتھ رکھ کر، تین دفعہ بسم اللہ کہو اور سات بار کہو، میں اللہ کی ذات اور اس کی قدرت کی پناہ میں آتا ہوں، دم کرتے وقت، اس شر سے جو میں پاتا ہوں اور جس سے میں ڈرتا ہوں۔“
حدثنا يحيي بن خلف الباهلي ، حدثنا عبد الاعلى ، عن سعيد الجريري ، عن ابي العلاء ، ان عثمان بن ابي العاص ، اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذاك شيطان يقال له خنزب، فإذا احسسته فتعوذ بالله منه، واتفل على يسارك ثلاثا "، قال: ففعلت ذلك فاذهبه الله عني.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ خَلَفٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَلَاتِي وَقِرَاءَتِي يَلْبِسُهَا عَلَيَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَاكَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ خَنْزَبٌ، فَإِذَا أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْهُ، وَاتْفِلْ عَلَى يَسَارِكَ ثَلَاثًا "، قَالَ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَذْهَبَهُ اللَّهُ عَنِّي.
عبدالاعلیٰ نے سعید جریری سے، انھوں نے ابو علاء سے روایت کی کہ سیدنا عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! شیطان میری نماز میں حائل ہو جاتا ہے اور مجھے قرآن بھلا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شیطان کا نام خنزب ہے، جب تجھے اس شیطان کا اثر معلوم ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ اور (نماز کے اندر ہی) بائیں طرف تین بار تھوک لے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس شیطان کو مجھ سے دور کر دیا۔
ابو العلاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول، شیطان میرے اور میری نماز اور میری قراءت میں حائل ہو جاتا ہے اور میری قراءت میں التباس (گڈمڈ) پیدا کر دیتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شیطان خِنزَب کہلاتا ہے، سو جب تو اس کا اثر محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ لو اور تین دفعہ اپنے بائیں جانب تھوک دو۔“ حضرت عثمان کہتے ہیں، میں نے ایسے ہی کہا تو اللہ اس کو مجھ سے دور لے گیا۔
سالم بن نوح اور ابو اسامہ، دونوں نےجریری سے، انھوں نے ابو علااء سے، انھوں نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، پھر اس طرح بیا ن کیا اور سالم بن نوح کی حدیث میں"تین بار" کا لفظ نہیں ہے۔
یہی روایت امام صاحب کو دو اور اساتذہ نے سنائی، لیکن سالم بن نوح کی روایت میں تین دفعہ کا ذکر نہیں ہے۔
سفیان نے سعید جریری سے روایت کی، کہا: ہمیں یزید بن عبداللہ بن شخیر نے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !پھر ان کی حدیث کی مانند بیان کیا۔
امام صاحب کے ایک اور استاد یہی روایت سناتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی ؓ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہر بیماری کی دوا ہے، جب کوئی دوا بیماری پر ٹھیک بٹھا دی جاتی ہے تو مریض اللہ تعالیٰ کےحکم سے تندرست ہوجاتاہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بیماری کی دوا ہے تو جب دوا بیماری سے مناسبت رکھتی ہے، یا ٹھیک بیٹھتی ہے تو اللہ عزوجل کے اذن سے شفا مل جاتی ہے۔“
بکیر نے کہا کہ عاصم بن عمر بن قتادہ نے انھیں حدیث سنائی کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مقنع (بن سنان تابعی) کی عیادت کی، پھر فرمایا: میں (اس وقت تک) یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک کہ تم پچھنے نہ لگوالو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے ہیں؛"یقیناً اس میں شفاہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ مقنع رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت کے لیے گئے، پھر کہنے لگے، میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک تم سنگی نہیں لگواتے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، ”بلاشبہ اس میں شفاء ہے۔“
حدثني نصر بن علي الجهضمي ، حدثني ابي ، حدثنا عبد الرحمن بن سليمان ، عن عاصم بن عمر بن قتادة ، قال: جاءنا جابر بن عبد الله في اهلنا ورجل يشتكي خراجا به او جراحا، فقال: ما تشتكي؟ قال: خراج بي قد شق علي، فقال: يا غلام ائتني بحجام، فقال له: ما تصنع بالحجام يا ابا عبد الله؟ قال: اريد ان اعلق فيه محجما، قال: والله إن الذباب ليصيبني او يصيبني الثوب، فيؤذيني ويشق علي فلما راى تبرمه من ذلك، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن كان في شيء من ادويتكم خير ففي شرطة محجم او شربة من عسل او لذعة بنار "، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وما احب ان اكتوي " قال: فجاء بحجام فشرطه فذهب عنه ما يجد.حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ، قال: جَاءَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فِي أَهْلِنَا وَرَجُلٌ يَشْتَكِي خُرَاجًا بِهِ أَوْ جِرَاحًا، فَقَالَ: مَا تَشْتَكِي؟ قَالَ: خُرَاجٌ بِي قَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ ائْتِنِي بِحَجَّامٍ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ بِالْحَجَّامِ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَنْ أُعَلِّقَ فِيهِ مِحْجَمًا، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ الذُّبَابَ لَيُصِيبُنِي أَوْ يُصِيبُنِي الثَّوْبُ، فَيُؤْذِينِي وَيَشُقُّ عَلَيَّ فَلَمَّا رَأَى تَبَرُّمَهُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: إِنِّي سمعت رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَدْوِيَتِكُمْ خَيْرٌ فَفِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ عَسَلٍ أَوْ لَذْعَةٍ بِنَارٍ "، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَكْتَوِيَ " قَالَ: فَجَاءَ بِحَجَّامٍ فَشَرَطَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ.
عبدالرحمان بن سلیمان نے حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کی، کہا: کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہمارے گھر میں آئے اور ایک شخص کو زخم کی تکلیف تھی (یعنی قرحہ پڑ گیا تھا)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تجھے کیا تکلیف ہے؟ وہ بولا کہ ایک قرحہ ہو گیا ہے جو کہ مجھ پر نہایت سخت ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے غلام! ایک پچھنے لگانے والے کو لے کر آ۔ وہ بولا کہ پچھنے لگانے والے کا کیا کام ہے؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس زخم پر پچھنے لگوانا چاہتا ہوں، وہ بولا کہ اللہ کی قسم مجھے مکھیاں ستائیں گی اور کپڑا لگے گا تو مجھے تکلیف ہو گی اور مجھ پر بہت سخت (وقت) گزرے گا۔ جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کو پچھنے لگانے سے رنج ہوتا ہے تو کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر تمہاری دواؤں میں بہتر کوئی دوا ہے تو تین ہی دوائیں ہیں، ایک تو پچھنا، دوسرے شہد کا ایک گھونٹ اور تیسرے انگارے سے جلانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں داغ لینا بہتر نہیں جانتا۔ راوی نے کہا کہ پھر پچھنے لگانے والا آیا اور اس نے اس کو پچھنے لگائے اور اس کی بیماری جاتی رہی۔
عاصم بن عمر قتادہ بیان کرتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہمارے گھر آئے اور ایک آدمی کو پھوڑے نکلے ہوئے تھے یا زخم تھے تو انہوں نے پوچھا، تمہیں کیا شکایت ہے، اس نے کہا، میرے لیے پھوڑے پھنسیاں، مشقت کا باعث ہیں تو حضرت جابر ؓ نے کہا، اے لڑکے! میرے پاس سنگی لگانے والے کو لاؤ، اس آدمی نے پوچھا، اے ابو عبداللہ! آپ سنگی لگانے والے کو بلوا کر کیا کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا، میں ان پھوڑوں پر سنگی لگوانا چاہتا ہوں، اس نے کہا، اللہ کی قسم! مجھ پر مکھی بیٹھتی ہے، یا مجھے کپڑا چھوتا ہے تو وہ مجھے تکلیف دیتا ہے، (میں سنگی برداشت کر سکوں گا۔) جب حضرت جابر ؓ نے معلوم کیا، وہ اس سے اکتاہٹ محسوس کرتا ہے، تو کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے، "اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی دوا میں خیر ہے تو سنگی سے پچھنے میں یا شہد کے گھونٹ میں یا آگ کے داغ میں ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں آگ کے داغ کو پسند نہیں کرتا۔" تو لڑکا حجام کو لایا، اس نے اسے پچھنے لگائے تو اس کی تکلیف دور ہو گئی۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، ان ام سلمة استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحجامة، فامر النبي صلى الله عليه وسلم ابا طيبة ان يحجمها، قال: " حسبت انه قال كان اخاها من الرضاعة او غلاما لم يحتلم ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ اسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحِجَامَةِ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا طَيْبَةَ أَنْ يَحْجُمَهَا، قَالَ: " حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ كَانَ أَخَاهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ أَوْ غُلَامًا لَمْ يَحْتَلِمْ ".
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنے لگوانے کے متعلق اجازت طلب کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطیبہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ انھیں پچھنے لگائیں۔ انھوں نے (جابر رضی اللہ عنہ) نے کہا: حضرت ابو طیبہ رضی اللہ عنہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے یا نابالغ لڑکے تھے۔ (اور انھوں نے ہاتھ یا پاؤں ایسی جگہ پچھنے لگائےجنھیں دیکھنا محرم یا بچے کے لئے جائز ہے۔)
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنگی لگوانے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طیبہ ؓ کو حکم دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سنگی لگائے، ابو زبیر کہتے ہیں، میرا خیال ہے، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ابو طیبہ، ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا رضاعی بھائی تھا یا نابالغ لڑکا تھا۔
ابومعاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابو سفیان سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (کو جنگ خندق کے موقع پر ہاتھ کی بڑی رگ پر زخم لگاتو ان) کے پاس ا یک طبیب بھیجا، اس نے ان کی (زخمی) رگ (کی خراب ہوجانے والی جگہ) کاٹی، پھر اس پرداغ لگایا (تاکہ خون رک جائے۔)
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ كے پاس ایک طبیب (اپنے فن کا ماہر) بھیجا، اس نے ان کی رگ کاٹی اور اس کو داغ دیا۔