صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
سلامتی اور صحت کا بیان
The Book of Greetings
26. باب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابُ التَّدَاوِي:
26. باب: ہر بیماری کی ایک دوا ہے اور دوا کرنا مستحب ہے۔
Chapter: For Every Disease There Is A Remedy, And It Is Recommended To Treat Disease
حدیث نمبر: 5743
Save to word اعراب
حدثني نصر بن علي الجهضمي ، حدثني ابي ، حدثنا عبد الرحمن بن سليمان ، عن عاصم بن عمر بن قتادة ، قال: جاءنا جابر بن عبد الله في اهلنا ورجل يشتكي خراجا به او جراحا، فقال: ما تشتكي؟ قال: خراج بي قد شق علي، فقال: يا غلام ائتني بحجام، فقال له: ما تصنع بالحجام يا ابا عبد الله؟ قال: اريد ان اعلق فيه محجما، قال: والله إن الذباب ليصيبني او يصيبني الثوب، فيؤذيني ويشق علي فلما راى تبرمه من ذلك، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن كان في شيء من ادويتكم خير ففي شرطة محجم او شربة من عسل او لذعة بنار "، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وما احب ان اكتوي " قال: فجاء بحجام فشرطه فذهب عنه ما يجد.حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ، قال: جَاءَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فِي أَهْلِنَا وَرَجُلٌ يَشْتَكِي خُرَاجًا بِهِ أَوْ جِرَاحًا، فَقَالَ: مَا تَشْتَكِي؟ قَالَ: خُرَاجٌ بِي قَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ ائْتِنِي بِحَجَّامٍ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ بِالْحَجَّامِ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَنْ أُعَلِّقَ فِيهِ مِحْجَمًا، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ الذُّبَابَ لَيُصِيبُنِي أَوْ يُصِيبُنِي الثَّوْبُ، فَيُؤْذِينِي وَيَشُقُّ عَلَيَّ فَلَمَّا رَأَى تَبَرُّمَهُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: إِنِّي سمعت رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَدْوِيَتِكُمْ خَيْرٌ فَفِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ عَسَلٍ أَوْ لَذْعَةٍ بِنَارٍ "، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَكْتَوِيَ " قَالَ: فَجَاءَ بِحَجَّامٍ فَشَرَطَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ.
عبدالرحمان بن سلیمان نے حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کی، کہا: کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہمارے گھر میں آئے اور ایک شخص کو زخم کی تکلیف تھی (یعنی قرحہ پڑ گیا تھا)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تجھے کیا تکلیف ہے؟ وہ بولا کہ ایک قرحہ ہو گیا ہے جو کہ مجھ پر نہایت سخت ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے غلام! ایک پچھنے لگانے والے کو لے کر آ۔ وہ بولا کہ پچھنے لگانے والے کا کیا کام ہے؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس زخم پر پچھنے لگوانا چاہتا ہوں، وہ بولا کہ اللہ کی قسم مجھے مکھیاں ستائیں گی اور کپڑا لگے گا تو مجھے تکلیف ہو گی اور مجھ پر بہت سخت (وقت) گزرے گا۔ جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کو پچھنے لگانے سے رنج ہوتا ہے تو کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر تمہاری دواؤں میں بہتر کوئی دوا ہے تو تین ہی دوائیں ہیں، ایک تو پچھنا، دوسرے شہد کا ایک گھونٹ اور تیسرے انگارے سے جلانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں داغ لینا بہتر نہیں جانتا۔ راوی نے کہا کہ پھر پچھنے لگانے والا آیا اور اس نے اس کو پچھنے لگائے اور اس کی بیماری جاتی رہی۔
عاصم بن عمر قتادہ  بیان کرتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہمارے گھر آئے اور ایک آدمی کو پھوڑے نکلے ہوئے تھے یا زخم تھے تو انہوں نے پوچھا، تمہیں کیا شکایت ہے، اس نے کہا، میرے لیے پھوڑے پھنسیاں، مشقت کا باعث ہیں تو حضرت جابر ؓ نے کہا، اے لڑکے! میرے پاس سنگی لگانے والے کو لاؤ، اس آدمی نے پوچھا، اے ابو عبداللہ! آپ سنگی لگانے والے کو بلوا کر کیا کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا، میں ان پھوڑوں پر سنگی لگوانا چاہتا ہوں، اس نے کہا، اللہ کی قسم! مجھ پر مکھی بیٹھتی ہے، یا مجھے کپڑا چھوتا ہے تو وہ مجھے تکلیف دیتا ہے، (میں سنگی برداشت کر سکوں گا۔) جب حضرت جابر ؓ نے معلوم کیا، وہ اس سے اکتاہٹ محسوس کرتا ہے، تو کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے، "اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی دوا میں خیر ہے تو سنگی سے پچھنے میں یا شہد کے گھونٹ میں یا آگ کے داغ میں ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں آگ کے داغ کو پسند نہیں کرتا۔" تو لڑکا حجام کو لایا، اس نے اسے پچھنے لگائے تو اس کی تکلیف دور ہو گئی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2205

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاري5683جابر بن عبد اللهإن كان في شيء من أدويتكم أو يكون في شيء من أدويتكم خير ففي شرطة محجم أو شربة عسل أو لذعة بنار توافق الداء وما أحب أن أكتوي
   صحيح البخاري5702جابر بن عبد اللهإن كان في شيء من أدويتكم خير ففي شربة عسل أو شرطة محجم أو لذعة من نار وما أحب أن أكتوي
   صحيح البخاري5704جابر بن عبد اللهإن كان في شيء من أدويتكم شفاء ففي شرطة محجم أو لذعة بنار وما أحب أن أكتوي
   صحيح مسلم5743جابر بن عبد اللهإن كان في شيء من أدويتكم خير ففي شرطة محجم أو شربة من عسل أو لذعة بنار وما أحب أن أكتوي قال فجاء بحجام فشرطه فذهب عنه ما يجد

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5743 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5743  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
محجم:
خون چوسنےکاآلہ،
سنگی۔
(2)
شرطة:
نشترلگانا،
سنگی لگانےکےلیے جسم کو پچھنا لگانا۔
(3)
لدغة بنار:
آگ کے ذریعے داغ لگانا۔
فوائد ومسائل:
امام ابو عبداللہ الماذری نے لکھا ہے کہ بیماریاں چار قسم کی ہیں،
دموی،
صفرادی،
بلغمی اور سوداوی،
اگر خون کا غلبہ ہونے کی بنا پر دموی ہیں تو ان کا علاج خون نکالنا ہے اور اگر باقی تین قسم کی ہیں تو اس کا علاج مناسب اسہال ہے،
(پیٹ جاری کرنا)
تو نبی اکرم نے شہد کے ذریعہ دست آور اشیاء کی طرف اشارہ فرمایا اور حجامۃ کے ذریعہ،
خون نکالنے والی اشیاء کی طرف اور آخری چارہ کار کے طور پر داغ لگانے کا تذکرہ فرمایا اور حافظ ابن قیم نے لکھا ہے،
بیماریاں درحقیقت حرارت اور برودت (ٹھنڈک)
کے غلبہ کا نتیجہ ہیں،
اگر بیماری گرمی کے غلبہ کی بنا پر ہے تو خون نکالا جائے گا،
سینگی کے ذریعہ ہو یا فصدرگ کھول کر،
کیونکہ اس طرح زائد مواد نکال کر مزاج کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور اگر بیماری برودت کے سبب ہو تو مزاج کو گرم کرنے کی ضرورت ہے تو شہد یہ کام کرتا ہے اور اگر بارد مواد کو خارج کرنے کی ضرورت ہے تو شہد ایک نرم اور مسہل (دست آور)
ہے اور اگر بیماری پرانی ہو تو آخری علاج داغ کے ذریعہ بیماری کے مواد کو خارج کرنا پڑتا ہے،
(تکملہ ج 4 ص 336-337)
بہرحال آپ نے آگ سے داغنے کو پسند نہیں کیا اور امت کو اس کے عام استعمال سے منع فرمایا ہے،
کیونکہ یہ انتہائی تکلیف دہ علاج ہے اور جسم انسانی کو بدنما بھی بناتا ہے،
اس لیے اس کو آخری چارہ گاہ کے طور پر ماہر معالج کے مشورہ سے ہی کام میں لایا جا سکتا ہے،
آج کل اس کے لیے بجلی کی لہروں کو استعمال کیا جاتا ہے جس سے آگ کے داغ والے مفاسد پیدا نہیں ہوتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5743   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5702  
5702. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: اگر تمہاری دوائیوں میں کوئی خیر و برکت ہے تو وہ شہد پینے۔ سینگی لگوانے اور آگ سے داغ دینے میں ہے لیکن میں آگ سے داغ کر علاج کو پسند نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5702]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ جب پچھنا لگوانا بہترین علاج ٹھہرا تو سر کے درد میں لگانا بھی مفید ہوگا۔
آگ سے داغنے کے متعلق نہی تنزیہی ہے کیونکہ دوسری میں بعض صحابہ کا یہ علاج مذکور ہے (دیکھو حدیث ص۔
671)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5702   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5704  
5704. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر تمہاری دواؤں میں شفا ہے تو سینگی لگوانے اور آگ سے داگ دینے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5704]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسے پسند نہ کریں اسے کسی مسلمان کو پسند نہ کرنا تقاضائے محبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5704   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5683  
5683. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی چیز میں شفا ہے تو پچھنےلگوانے، شہد اور داغ دینے میں ہے جبکہ بیماری کے موافق ہو، لیکن میں آگ سے داغ دینے کو پسند نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5683]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوا کے موافق ہونے میں یہ اشارہ ہے کہ آگ سے داغنا بھی اس وقت مشروع ہے جب وہ مرض کے موافق ہو، لہذا اسے بھی تحقیق کے بعد لگوانا چاہیے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داغنے کو پسند نہیں کرتے تھے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ داغنے کا علاج اس وقت کیا جائے جب اس کے بغیر کوئی دوا مؤثر نہ ہو اور دوسری کسی بھی دوا سے آرام نہ آتا ہو کیونکہ آگ سے داغ دینے میں مریض کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد پینے کو شفا قرار دیا ہے، عنوان سے یہی الفاظ مطابقت رکھتے ہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5683   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5702  
5702. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: اگر تمہاری دوائیوں میں کوئی خیر و برکت ہے تو وہ شہد پینے۔ سینگی لگوانے اور آگ سے داغ دینے میں ہے لیکن میں آگ سے داغ کر علاج کو پسند نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5702]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سینگی لگوانا ایک بہترین علاج ہے۔
یہ سر درد کے لیے بھی بہت مفید ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درد شقیقہ کا عارضہ تھا۔
آپ نے ایک مرتبہ مقام خیبر میں زہریلے کھانے کا ایک لقمہ منہ میں ڈالا تھا، اس وجہ سے آپ کو درد شقیقہ ہوتا تھا۔
اس کا علاج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوا کر کیا تھا۔
(عمدة القاري: 687/14) (2)
مجبوری کی حالت میں آگ سے داغ دے کر علاج کرنا جائز ہے۔
آپ نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو داغ دیا تھا۔
اس بنا پر آپ کا اس سے منع کرنا نہی تنزیہی پر محمول ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5702   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5704  
5704. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر تمہاری دواؤں میں شفا ہے تو سینگی لگوانے اور آگ سے داگ دینے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5704]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں انتہائی اختصار ہے کیونکہ ایک تو اس میں شہد کا ذکر نہیں ہے دوسرے ان دواؤں کے مرض سے موافق ہونے کا بیان نہیں جبکہ یہ دونوں حدیث میں ہیں۔
(صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5683) (2)
اس سے علاج بذریعۂ آگ کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں شفا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اگرچہ آپ نے اس طریقے کو پسند نہیں کیا لیکن ضروری نہیں جسے آپ پسند نہ فرمائیں وہ جائز نہ ہو۔
سانڈے کا گوشت آپ کو پسند نہیں تھا لیکن آپ کے سامنے اسے کھایا گیا، پھر آپ نے چند صحابۂ کرام کا علاج اس طریقے سے کیا ہے، مثلاً:
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جب غزوۂ خندق میں زخمی ہو گئے تھے تو آپ نے خود انہیں رگ اکحل پر آگ سے داغ دیا تھا، (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5748 (2208)
لیکن فضیلت اسی میں ہے کہ اس طریقۂ علاج کو اختیار نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی دوسرا طریقہ کارگر نہ ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس سے شفا کی حتمی امید ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5704   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.