ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم بعد دخوله إياها انه ود ان لم يكن دخلها مخافة إتعاب امته بعده، وهذا كتركه صلى الله عليه وسلم بعض التطوع والذي كان يحب ان يفعله لإرادة التخفيف على امته صلى الله عليه وسلم إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ بَعْدَ دُخُولِهِ إِيَّاهَا أَنَّهُ وَدَّ أَنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَهَا مَخَافَةَ إِتْعَابِ أُمَّتِهِ بَعْدَهُ، وَهَذَا كَتَرْكِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ التَّطَوُّعِ وَالَّذِي كَانَ يُحِبُّ أَنْ يَفْعَلَهُ لِإِرَادَةِ التَّخْفِيفِ عَلَى أُمَّتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے تشریف لے گئے تو آپ بڑے خوش وخرم اور ہشاش بشاش تھے۔ پھر آپ میرے پاس واپس آئے تو آپ بڑے غمگین تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ میرے پاس سے بڑے خوش اور مسرور گئے تھے اور اب آپ افسردہ نظر آرہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کعبہ شریف میں داخل ہوا ہوں، میری خواہش ہے کہ میں داخل نہ ہوتا تو اچھا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ میں نے اپنے بعد اُمّت کو تکلیف اور مشقّت میں ڈال دیا ہے۔
جناب ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے امام عطا ء سے کہا کہ کیا آپ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بلاشبہ تمہیں طواف کرنے کا حُکم دیا گیا ہے اور تمہیں بیت اللہ شریف میں داخل ہونے کا حُکم نہیں دیا گیا؟ اُنھوں نے جواب دیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیت اللہ شریف میں داخل ہونے سے منع نہیں کرتے تھے لیکن میں نے اُنہیں فرماتے ہوئے سنا ہے۔ مجھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الله شریف میں داخل ہوئے، پھر جب آپ باہر تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ شریف کے سامنے در رکعات ادا کیں اور فرمایا: ”یہ قبلہ ہے“۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے جب میں وہاں پہنچا تو آپ باہر تشریف لا چکے تھے جبکہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کعبہ شریف کے دروازے کے پاس کھڑے تھے . میں نے کہا کہ اے بلال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ یہاں پڑھی ہے وہ فرماتے ہیں، پھر آپ باہر تشریف لائے تو حجر اسود اور بیت اللہ شریف کے دروازے کے درمیان دو رکعات نماز پڑھی، جناب سیف کہتے ہیں: امام مجاہد بتاتے تھے کہ آپ نے بنی مخزوم کے دروازے کی جانب والے ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ امام مجاہد کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف میں ان دوستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی جو بنی مخزوم کے دروازے والی سمت میں تھے۔
إن كان يزيد بن ابي زياد من الشرط الذي اشترطنا في اول الكتاب.إِنْ كَانَ يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ مِنَ الشَّرْطِ الَّذِي اشْتَرَطْنَا فِي أَوَّلِ الْكِتَابِ.
بشرطیکہ یزید بن ابی زیاد ہماری ان شرط پر پورا اترتا ہو جو ہم نے کتاب کے شروع میں ذکر کی تھی
سیدنا عبدالرحمٰن بن صفوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ فتح کیا، میں نے دل میں کہا کہ مجھے اپنے کپڑے پہن لینے چاہئیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن صفوان بیان کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ تشریف لائے تو بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے، میں بھی اپنے کپڑے پہن کر (آپ کو دیکھنے کے لئے) چلا گیا اس وقت تک آپ بیت اللہ شریف سے باہر تشریف لا چکے تھے۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام حجر اسود سے حطیم تک کے درمیانی حصّے کا استلام کررہے تھے اور اُنھوں نے اپنے رخسار بیت اللہ شریف کے ساتھ لگائے ہوئے تھے۔ اچانک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس سے گزرے تو میں نے دو آدمیوں کے درمیان گھس کر کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف میں کیا عمل کیا ہے۔ اُنھوں نے جواب دیا کہ آپ نے بیت اللہ شریف کے سامنے والے ستون کے پاس دو رکعات پڑھی ہیں۔ یہ روایت جناب ابن فضیل کی ہے۔
بذكر خبر لفظه عام مراده خاص، انا خائف ان يسمع بهذا الخبر الذي ذكرت ان لفظه لفظ عام مراده خاص بعض الناس، فيتوهم ان جميع الحجر من الكعبة لا بعضه.بِذِكْرِ خَبَرٍ لَفْظُهُ عَامٌّ مُرَادُهُ خَاصٌّ، أَنَا خَائِفٌ أَنْ يَسْمَعَ بِهَذَا الْخَبَرِ الَّذِي ذَكَرْتُ أَنَّ لَفْظَهُ لَفْظٌ عَامٌّ مُرَادُهُ خَاصٌّ بَعْضُ النَّاسِ، فَيَتَوَهَّمُ أَنَّ جَمِيعَ الْحِجْرِ مِنَ الْكَعْبَةِ لَا بَعْضَهُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے یہ بات بڑی محبوب تھی کہ میں بیت اللہ شریف میں داخل ہوکر اس میں نماز ادا کروں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے حطیم میں داخل کردیا اور فرمایا: ”اے عائشہ، جب تمھاری قوم نے بیت اللہ شریف کو تعمیر کیا تو اُن کا خرچ کم ہو گیا اس لئے انھوں نے حطیم کو بیت اللہ کی تعمیر سے باہر نکال دیا۔ لہٰذا جب تم بیت الله شریف میں نماز پڑھنا چاہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو کیونکہ یہ بھی بیت اللہ کا حصّہ ہے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمھاری قوم نئی نئی کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں حطیم کو بیت الله شریف میں داخل کردیتا۔ “ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے ان الفاظ کے مشابہ روایت کتاب الکبیر میں بیان کردی ہے جس کے الفاظ عام اور مراد خاص ہے۔
والدليل [على] ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اراد بقوله: واخرجوا الحجر من البيت، بعضه لا جميعه، وهذا من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتبنا ان الاسم باسم المعرفة بالالف واللام قد يقع على بعض الشيء.وَالدَّلِيلُ [عَلَى] أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ: وَأَخْرَجُوا الْحِجْرَ مِنَ الْبَيْتِ، بَعْضَهُ لَا جَمِيعَهُ، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الِاسْمَ بِاسْمِ الْمَعْرِفَةِ بِالْأَلِفِ وَاللَّامِ قَدْ يَقَعُ عَلَى بَعْضِ الشَّيْءِ.