ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
باب ذكر الدليل على ان التطيب بعد رمي الجمار والنحر والذبح والحلاق إنما هو مباح عند بعض العلماء قبل زيارة البيت لمن قد طاف بالبيت قبل الوقوف بعرفة دون من لم يطف بالبيت قبل الوقوف بعرفة. بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ التَّطَيُّبَ بَعْدَ رَمْيِ الْجِمَارِ وَالنَّحْرِ وَالذَّبْحِ وَالْحِلَاقِ إِنَّمَا هُوَ مُبَاحٌ عِنْدَ بَعْضِ الْعُلَمَاءِ قَبْلَ زِيَارَةِ الْبَيْتِ لِمَنْ قَدْ طَافَ بِالْبَيْتِ قَبْلَ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ دُونَ مَنْ لَمْ يَطُفْ بِالْبَيْتِ قَبْلَ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ.
اس بات کی دلیل کا بیان کہ رمی کرنے، قربانی کرنے اور سرمنڈوانے کے بعد بعض علماء کے نزدیک طواف زیارہ سے پہلے خوشبو لگانا صرف اس شخص کے لئے جائز ہے جو وقوف عرفہ سے پہلے بیت اللہ کا طواف کرچکا ہو جس نے وقوف عرفہ سے پہلے طواف نہ کیا ہو وہ خوشبو نہیں لگا سکتا
ثنا محمد بن العلاء بن كريب، ثنا شعيب يعني ابن إسحاق، عن هشام وهو ابن عروة، عن ام الزبير بنت عبد الرحمن بن الحارث بن هشام انها اخبرته، عن عائشة بنت عبد الرحمن اختها، ان عباد بن عبد الله،" دخل على عائشة بنت عبد الرحمن ولهما جارية تمشطها يوم النحر كانت حاضت يوم قدموا مكة، ولم تطف بالبيت قبل عرفة، وقد كانت اهلت بالحج، ودفعت من عرفات ورمت الجمرة، فدخل عليها عباد، وهي تمشطها وتمس الطيب، فقال عباد: اتمس الطيب، ولم تطف بالبيت، قالت عائشة: قد رمت الجمرة وقصرت، قال: وإن، فإنه لا يحل لها، فانكرت ذلك عائشة، فارسلت إلى عروة فسالته عن ذلك، فقال:" إنه لا يحل الطيب لاحد لم يطف قبل عرفات، وإن قصر ورمى" ، قال ابو بكر: فعروة بن الزبير، إنما يتاول بهذا الفتيا ان الطيب إنما يحل قبل زيارة البيت لمن قد طاف بالبيت قبل الوقوف بعرفة، ولو ثبت خبر عمرة، عن عائشة مرفوعا:" إذا رميتم وحلقتم، فقد حل لكم الطيب والثياب، إلا النكاح"، لكانت هذه اللفظة تبيح الطيب، والثياب لجميع الحجاج بعد الرمي، والحلق لمن قد طاف منهم يوم عرفة، ومن لم يطف إلا ان رواية الحجاج بن ارطاة، عن ابي بكر بن محمد، ولست اقف على سماع الحجاج هذا الخبر من ابي بكر بن محمد، إلا ان في خبر ام سلمة، وعكاشة بن محصن" إن هذا يوم رخص لكم إذا انتم رميتم الجمار ان تحلوا من كل ما حرمتم إلا النساء، فإذا امسيتم قبل ان تطوفوا بالبيت صرتم كهيئتكم قبل ان ترموا الجمرة"، وهذا لفظ خبر ام سلمة، وخبر عكاشة، مثله في المعنى فإذا حكم لهذا الخبر على ظاهره دل على خلاف قول عروة الذي ذكرتهثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، ثنا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ، عَنْ هِشَامٍ وَهُوَ ابْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أُمِّ الزُّبَيْرِ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أُخْتِهَا، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ،" دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَلَهُمَا جَارِيَةٌ تُمَشِّطُهَا يَوْمَ النَّحْرِ كَانَتْ حَاضَتْ يَوْمَ قَدِمُوا مَكَّةَ، وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ قَبْلَ عَرَفَةَ، وَقَدْ كَانَتْ أَهَلَّتْ بِالْحَجِّ، وَدَفَعَتْ مِنْ عَرَفَاتٍ وَرَمَتِ الْجَمْرَةَ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا عَبَّادٌ، وَهِيَ تُمَشِّطُهَا وَتَمَسُّ الطِّيبَ، فَقَالَ عَبَّادٌ: أَتَمَسِّ الطِّيبَ، وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: قَدْ رَمَتِ الْجَمْرَةَ وَقَصَّرَتْ، قَالَ: وَإِنْ، فَإِنَّهُ لا يَحِلُّ لَهَا، فَأَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى عُرْوَةَ فَسَأَلَتْهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ لا يَحِلُّ الطِّيبُ لأَحَدٍ لَمْ يَطُفْ قَبْلَ عَرَفَاتٍ، وَإِنْ قَصَّرَ وَرَمَى" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، إِنَّمَا يَتَأَوَّلُ بِهَذَا الْفُتْيَا أَنَّ الطِّيبَ إِنَّمَا يَحِلُّ قَبْلَ زِيَارَةِ الْبَيْتِ لِمَنْ قَدْ طَافَ بِالْبَيْتِ قَبْلَ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ، وَلَوْ ثَبَتَ خَبَرُ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مَرْفُوعًا:" إِذَا رَمَيْتُمْ وَحَلَقْتُمْ، فَقَدْ حَلَّ لَكُمُ الطِّيبُ وَالثِّيَابُ، إِلا النِّكَاحَ"، لَكَانَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ تُبِيحُ الطِّيبَ، وَالثِّيَابَ لِجَمِيعِ الْحُجَّاجِ بَعْدَ الرَّمْيِ، وَالْحَلْقِ لِمَنْ قَدْ طَافَ مِنْهُمْ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَمَنْ لَمْ يَطُفْ إِلا أَنَّ رِوَايَةَ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَأَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَلَسْتُ أَقِفُ عَلَى سَمَاعِ الْحَجَّاجِ هَذَا الْخَبَرَ مِنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، إِلا أَنَّ فِي خَبَرِ أُمِّ سَلَمَةَ، وَعُكَّاشَةَ بْنِ مِحْصَنٍ" إِنَّ هَذَا يَوْمٌ رُخِّصَ لَكُمْ إِذَا أَنْتُمْ رَمَيْتُمُ الْجِمَارَ أَنْ تَحِلُّوا مِنْ كُلِّ مَا حُرِمْتُمْ إِلا النِّسَاءَ، فَإِذَا أَمْسَيْتُمْ قَبْلَ أَنْ تَطُوفُوا بِالْبَيْتِ صِرْتُمْ كَهَيْئَتِكُمْ قَبْلَ أَنْ تَرْمُوا الْجَمْرَةَ"، وَهَذَا لَفْظُ خَبَرِ أُمِّ سَلَمَةَ، وَخَبَرُ عُكَّاشَةَ، مِثْلُهُ فِي الْمَعْنَى فَإِذَا حُكِمَ لِهَذَا الْخَبَرِ عَلَى ظَاهِرِهِ دَلَّ عَلَى خِلافِ قَوْلِ عُرْوَةَ الَّذِي ذَكَرْتُهُ
عائشہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ عباد بن عبداللہ،عائشہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس آئے اور اُن کی ایک بیٹی تھی جسے وہ یوم النحر کوکنگھی کر رہی تھی جس دن وہ مکّہ مکرّمہ پہنچے تھے اُسے حیض آگیا تھا اس لئے وہ عرفات سے پہلے طواف نہیں کرسکی تھی، اُس نے حج کا احرام باندھا تھا، وہ عرفات سے واپس آئی اور جمرہ عقبہ پر رمی کرچکی تھی۔ حضرت عباد اس کے پاس گئے تو وہ اپنی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھیں اور خوشبو لگا رہی تھیں۔ حضرت عباد نے اُس سے کہا کہ کیا تم بیت اللہ شریف کے طواف سے پہلے ہی خوشبو لگا رہی ہو؟ عائشہ فرماتی ہیں اس نے جمرہ عقبہ پررمی کرلی ہے اور بال بھی کٹوا چکی ہے۔ اُنھوں نے فرمایا، اگرچہ وہ یہ کام کرچکی ہے لیکن اس کے لئے خوشبو لگانا جائز نہیں ہے حضرت عائشہ نے اس کو تسلیم نہ کیا لہٰذا حضرت عروہ رحمه الله کے پاس کسی کو بھیجا اور یہ مسئلہ پوچھا۔ اُنھوں نے فرمایا کہ جس شخص نے عرفات سے پہلے طواف نہ کیا ہو اس کے لئے خوشبو لگانا درست نہیں اگرچہ اس نے رمی کرلی ہو اور سر منڈوا چکا ہو (جب تک طواف زیارہ نہ کرے)۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر رحمه الله نے اس فتوے سے یہ تاویل کی ہے کہ جو شخص وقوف عرفہ سے پہلے طواف کرچکا ہو وہ طواف زیارت سے پہلے خوشبو لگا سکتا ہے۔ اگر حضرت عمرہ کی عائشہ سے یہ مرفوع روایت ثابت ہو جائے کہ ”جب تم رمی کرلو اور سر کے بال منڈ والو تو تمھارے لئے خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا حلال ہے سوائے بیوی سے جماع کے۔“ تو یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہوںگے کہ رمی کرنے اور سر منڈوانے کے بعد تمام حجاج کے لئے خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا جائز ہوگا اس نے یوم عرفہ سے پہلے طواف کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن یہ روایت حجاج بن ارطاة ابوبکر بن محمد سے روایت کرتا ہے اور مجھے حجاج کا ابوبکر سے سماع کا علم نہیں ہے لیکن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اس دن تمھیں رخصت دی گئی ہے کہ جب تم جمرات پر رمی کرلو تو تمھارے لئے احرام کی وجہ سے منع ہونے والی تمام چیزیں حلال ہو جائیںگی سوائے بیوی سے ہمبستری کے۔ پھر اگر طواف زیارہ سے پہلے تمہیں شام ہوگئی تو تم جمرات کی رمی سے پہلے والی حالت میں ہو جاؤ گئے۔ (یعنی احرام کی پابندیاں دوبارہ لاگو ہو جائیںگی) سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے الفاظ ہیں اور سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے ہم معنی ہے اگر اس حدیث کے ظاہری معنی کو لیا جائے تو یہ سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ کے اس فتوے کے خلاف ہے جسے میں نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے۔
الذي به يتم حج الحاج؛ خوف ان يعرض للمرء ما لا يمكنه طواف الزيارة معه، وإن كان تاخير الإفاضة عن يوم النحر جائزا.الَّذِي بِهِ يَتِمُّ حَجُّ الْحَاجِّ؛ خَوْفَ أَنْ يَعْرِضَ لِلْمَرْءِ مَا لَا يُمْكِنُهُ طَوَافُ الزِّيَارَةِ مَعَهُ، وَإِنْ كَانَ تَأْخِيرُ الْإِفَاضَةِ عَنْ يَوْمِ النَّحْرِ جَائِزًا.
چونکہ طواف زیارت واجب ہے اور اسی کے ساتھ حاجی کا حج مکمّل ہوتا ہے اس لئے اسے ادا کرنے میں جلدی کرنی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی رکاوٹ کے پیش آجانے سے حاجی طواف زیارہ ہی نہ کرسکے اگرچہ طواف زیارہ دس ذوالحجہ سے موَخر کرنا جائز ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو طواف افاضہ کیا پھر واپس آکر ظہر کی نماز منیٰ میں ادا کی۔ امام نافع فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما قربانی والے دن طواف افاضہ کر لیتے تھے۔ پھر واپس آ کر منیٰ میں ظہر کی نماز پڑھتے تھے، اور آپ بتاتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
2081. اس بات کی دلیل کا بیان کہ طواف زیارہ کی دو رکعات ادا کرنے کے بعد حاجی کے لئے اپنی بیوی سے ہمبستری کرنا حلال ہوجاتا ہے اگرچہ حاجی طواف کرنے کے بعد مکّہ مکرّمہ میں ہی ہو اور ابھی منیٰ واپس نہ لوٹا ہو
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الله شریف کی زیارت کرتے طواف کے سات چکّر لگاتے اور دو رکعات ادا کرتے اور پھر آپ کے لئے آپ کی ازواج مطہرات حلال ہوجاتیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کے سات چکّروں میں رمل نہیں کیا تھا، امام عطا کہتے ہیں کہ اس طواف میں رمل نہیں ہے۔
جناب جعفر بن محمد اپنے والد گرامی محمد سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر طویل حدیث بیان کی اور فرمایا، پھر قربانی والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کیا۔ پھر آپ بنی عبدالمطلب کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ زمزم کے کنویں سے پانی پلا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبدالمطلب، پانی نکالو، اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمھارے پانی پلانے پر تم پر غالب آ جائیں گے تو میں بھی تمھارے ساتھ کنویں سے پانی نکالتا۔ چنانچہ اُنھوں نے پانی کا ایک ڈول آپ کو پیش کیا تو آپ نے اُس میں سے پیا۔
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، حدثنا عاصم ، عن الشعبي ، عن ابن عباس ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم شرب دلوا من ماء زمزم قائما" ، قال ابو بكر: اراد شرب من دلو لا انه شرب الدلو كله، وهذا من الجنس الذي قد اعلمت في غير موضع من كتبنا ان اسم الشيء قد يقع على بعض اجزائه كقوله: ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110، فاوقع اسم الصلاة على القراءة خاصة، وكقول النبي صلى الله عليه وسلم: قال الله:" قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين"، ثم ذكر فاتحة الكتاب خاصة، فاوقع اسم الصلاة على قراءة فاتحة الكتاب في الصلاة خاصةحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ دَلْوًا مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ قَائِمًا" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَرَادَ شَرِبَ مِنْ دَلْوٍ لا أَنَّهُ شَرِبَ الدَّلْوَ كُلَّهُ، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي قَدْ أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ اسْمَ الشَّيْءِ قَدْ يَقَعُ عَلَى بَعْضِ أَجْزَائِهِ كَقَوْلِهِ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110، فَأَوْقَعَ اسْمَ الصَّلاةِ عَلَى الْقِرَاءَةِ خَاصَّةً، وَكَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ:" قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ"، ثُمَّ ذَكَرَ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ خَاصَّةً، فَأَوْقَعَ اسْمَ الصَّلاةِ عَلَى قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلاةِ خَاصَّةً
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر ایک ڈول سے آب زمزم پیا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک ڈول سے آب زمزم پیا، یہ مطلب نہیں کہ پورا ڈول ہی پی لیا۔ اور یہ بات اسی میں سے ہے جسے میں اپنی کتابوں میں کئی جگہ بیان کرچکا ہوں کہ بعض دفعہ کسی چیز کا نام لیکر اس کے کسی حصّے کو مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ» [ سورة الإسراء: 110 ]” اور اپنی نماز زیادہ بلند آواز سے نہ پڑھیں“ اس طرح نماز کا لفظ صرف قراءت پر بولا گیا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میں نے اپنے اور اپنے بندے کے در میان نماز آدھی آدھی تقسیم کرلی ہے“ پھر سورة الفاتحة کا تذکرہ کیا۔ اس طرح لفظ نماز سے نماز میں سورة الفاتحة پڑھنا مراد لیا ہے۔
إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم انه عمل صالح، واعلم ان لولا ان يغلب المستقي منها على الاستقاء لنزع معهم. إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّهُ عَمَلٌ صَالِحٌ، وَأَعْلَمَ أَنَّ لَوْلَا أَنْ يُغْلَبَ الْمُسْتَقِي مِنْهَا عَلَى الِاسْتِقَاءِ لَنَزَعَ مَعَهُمْ.
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ یہ نیک عمل ہے۔ اور آپ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اگر زمزم پلانے والوں کو تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں بھی ان کے ساتھ کنویں سے ڈول کھینچتا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے حوض کے پاس آئے اور پانی طلب کیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا اے فضل، اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور اُس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مشروب لے آو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہی پانی پلادو“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، لوگ اپنے ہاتھ اس پانی میں ڈالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہی پانی پلا دو۔“ آپ نے اس سے پانی پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمزم کے کنویں پر آئے تو (بنی عبدالمطلب) کے لوگ پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی طرح پانی نکال کر پلاتے رہو کیونکہ تم ایک نیک عمل کررہے ہو۔“ پھر فرمایا: ”مجھے اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم مغلوب ہو جاؤ گے تو میں بھی اپنے اس کندھے پر رسّی رکھ کر ڈول کھینچتا، اور آپ نے اپنے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ بات اسی قسم سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ اشارہ بھی کلام کے قائم مقام ہوتا ہے۔