صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2079. (338) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ التَّطَيُّبَ بَعْدَ رَمْيِ الْجِمَارِ وَالنَّحْرِ وَالذَّبْحِ وَالْحِلَاقِ
اس بات کی دلیل کا بیان کہ رمی کرنے، قربانی کرنے اور سرمنڈوانے کے بعد بعض علماء کے نزدیک طواف زیارہ سے پہلے خوشبو لگانا
حدیث نمبر: 2940
ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، ثنا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ، عَنْ هِشَامٍ وَهُوَ ابْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أُمِّ الزُّبَيْرِ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أُخْتِهَا، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ،" دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَلَهُمَا جَارِيَةٌ تُمَشِّطُهَا يَوْمَ النَّحْرِ كَانَتْ حَاضَتْ يَوْمَ قَدِمُوا مَكَّةَ، وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ قَبْلَ عَرَفَةَ، وَقَدْ كَانَتْ أَهَلَّتْ بِالْحَجِّ، وَدَفَعَتْ مِنْ عَرَفَاتٍ وَرَمَتِ الْجَمْرَةَ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا عَبَّادٌ، وَهِيَ تُمَشِّطُهَا وَتَمَسُّ الطِّيبَ، فَقَالَ عَبَّادٌ: أَتَمَسِّ الطِّيبَ، وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: قَدْ رَمَتِ الْجَمْرَةَ وَقَصَّرَتْ، قَالَ: وَإِنْ، فَإِنَّهُ لا يَحِلُّ لَهَا، فَأَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى عُرْوَةَ فَسَأَلَتْهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ لا يَحِلُّ الطِّيبُ لأَحَدٍ لَمْ يَطُفْ قَبْلَ عَرَفَاتٍ، وَإِنْ قَصَّرَ وَرَمَى" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، إِنَّمَا يَتَأَوَّلُ بِهَذَا الْفُتْيَا أَنَّ الطِّيبَ إِنَّمَا يَحِلُّ قَبْلَ زِيَارَةِ الْبَيْتِ لِمَنْ قَدْ طَافَ بِالْبَيْتِ قَبْلَ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ، وَلَوْ ثَبَتَ خَبَرُ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مَرْفُوعًا:" إِذَا رَمَيْتُمْ وَحَلَقْتُمْ، فَقَدْ حَلَّ لَكُمُ الطِّيبُ وَالثِّيَابُ، إِلا النِّكَاحَ"، لَكَانَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ تُبِيحُ الطِّيبَ، وَالثِّيَابَ لِجَمِيعِ الْحُجَّاجِ بَعْدَ الرَّمْيِ، وَالْحَلْقِ لِمَنْ قَدْ طَافَ مِنْهُمْ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَمَنْ لَمْ يَطُفْ إِلا أَنَّ رِوَايَةَ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَأَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَلَسْتُ أَقِفُ عَلَى سَمَاعِ الْحَجَّاجِ هَذَا الْخَبَرَ مِنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، إِلا أَنَّ فِي خَبَرِ أُمِّ سَلَمَةَ، وَعُكَّاشَةَ بْنِ مِحْصَنٍ" إِنَّ هَذَا يَوْمٌ رُخِّصَ لَكُمْ إِذَا أَنْتُمْ رَمَيْتُمُ الْجِمَارَ أَنْ تَحِلُّوا مِنْ كُلِّ مَا حُرِمْتُمْ إِلا النِّسَاءَ، فَإِذَا أَمْسَيْتُمْ قَبْلَ أَنْ تَطُوفُوا بِالْبَيْتِ صِرْتُمْ كَهَيْئَتِكُمْ قَبْلَ أَنْ تَرْمُوا الْجَمْرَةَ"، وَهَذَا لَفْظُ خَبَرِ أُمِّ سَلَمَةَ، وَخَبَرُ عُكَّاشَةَ، مِثْلُهُ فِي الْمَعْنَى فَإِذَا حُكِمَ لِهَذَا الْخَبَرِ عَلَى ظَاهِرِهِ دَلَّ عَلَى خِلافِ قَوْلِ عُرْوَةَ الَّذِي ذَكَرْتُهُ
عائشہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ عباد بن عبداللہ،عائشہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس آئے اور اُن کی ایک بیٹی تھی جسے وہ یوم النحر کوکنگھی کر رہی تھی جس دن وہ مکّہ مکرّمہ پہنچے تھے اُسے حیض آگیا تھا اس لئے وہ عرفات سے پہلے طواف نہیں کرسکی تھی، اُس نے حج کا احرام باندھا تھا، وہ عرفات سے واپس آئی اور جمرہ عقبہ پر رمی کرچکی تھی۔ حضرت عباد اس کے پاس گئے تو وہ اپنی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھیں اور خوشبو لگا رہی تھیں۔ حضرت عباد نے اُس سے کہا کہ کیا تم بیت اللہ شریف کے طواف سے پہلے ہی خوشبو لگا رہی ہو؟ عائشہ فرماتی ہیں اس نے جمرہ عقبہ پررمی کرلی ہے اور بال بھی کٹوا چکی ہے۔ اُنھوں نے فرمایا، اگرچہ وہ یہ کام کرچکی ہے لیکن اس کے لئے خوشبو لگانا جائز نہیں ہے حضرت عائشہ نے اس کو تسلیم نہ کیا لہٰذا حضرت عروہ رحمه الله کے پاس کسی کو بھیجا اور یہ مسئلہ پوچھا۔ اُنھوں نے فرمایا کہ جس شخص نے عرفات سے پہلے طواف نہ کیا ہو اس کے لئے خوشبو لگانا درست نہیں اگرچہ اس نے رمی کرلی ہو اور سر منڈوا چکا ہو (جب تک طواف زیارہ نہ کرے)۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر رحمه الله نے اس فتوے سے یہ تاویل کی ہے کہ جو شخص وقوف عرفہ سے پہلے طواف کرچکا ہو وہ طواف زیارت سے پہلے خوشبو لگا سکتا ہے۔ اگر حضرت عمرہ کی عائشہ سے یہ مرفوع روایت ثابت ہو جائے کہ ”جب تم رمی کرلو اور سر کے بال منڈ والو تو تمھارے لئے خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا حلال ہے سوائے بیوی سے جماع کے۔“ تو یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہوںگے کہ رمی کرنے اور سر منڈوانے کے بعد تمام حجاج کے لئے خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا جائز ہوگا اس نے یوم عرفہ سے پہلے طواف کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن یہ روایت حجاج بن ارطاة ابوبکر بن محمد سے روایت کرتا ہے اور مجھے حجاج کا ابوبکر سے سماع کا علم نہیں ہے لیکن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اس دن تمھیں رخصت دی گئی ہے کہ جب تم جمرات پر رمی کرلو تو تمھارے لئے احرام کی وجہ سے منع ہونے والی تمام چیزیں حلال ہو جائیںگی سوائے بیوی سے ہمبستری کے۔ پھر اگر طواف زیارہ سے پہلے تمہیں شام ہوگئی تو تم جمرات کی رمی سے پہلے والی حالت میں ہو جاؤ گئے۔ (یعنی احرام کی پابندیاں دوبارہ لاگو ہو جائیںگی) سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے الفاظ ہیں اور سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے ہم معنی ہے اگر اس حدیث کے ظاہری معنی کو لیا جائے تو یہ سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ کے اس فتوے کے خلاف ہے جسے میں نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے۔
تخریج الحدیث: