ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم انه عمل صالح، واعلم ان لولا ان يغلب المستقي منها على الاستقاء لنزع معهم. إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّهُ عَمَلٌ صَالِحٌ، وَأَعْلَمَ أَنَّ لَوْلَا أَنْ يُغْلَبَ الْمُسْتَقِي مِنْهَا عَلَى الِاسْتِقَاءِ لَنَزَعَ مَعَهُمْ.
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ یہ نیک عمل ہے۔ اور آپ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اگر زمزم پلانے والوں کو تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں بھی ان کے ساتھ کنویں سے ڈول کھینچتا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے حوض کے پاس آئے اور پانی طلب کیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا اے فضل، اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور اُس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مشروب لے آو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہی پانی پلادو“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، لوگ اپنے ہاتھ اس پانی میں ڈالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہی پانی پلا دو۔“ آپ نے اس سے پانی پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمزم کے کنویں پر آئے تو (بنی عبدالمطلب) کے لوگ پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی طرح پانی نکال کر پلاتے رہو کیونکہ تم ایک نیک عمل کررہے ہو۔“ پھر فرمایا: ”مجھے اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم مغلوب ہو جاؤ گے تو میں بھی اپنے اس کندھے پر رسّی رکھ کر ڈول کھینچتا، اور آپ نے اپنے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ بات اسی قسم سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ اشارہ بھی کلام کے قائم مقام ہوتا ہے۔