سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مویشیوں اور اہل وعیال کو سورج غروب ہونے سے عشاء کا اندھیرا ختم ہونے تک روکے رکھو (انہیں باہر نہ نکلنے دو)“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں۔ میرے علم کے مطابق اس حدیث کے الفاظ میں تصحیف ہوئی ہے۔ اصل الفاظ ”فَحْمَةُ العِشَاءِ“ ہیں۔ (یعنی جب عشاء کا اندھیرا شدید ہو جائے)۔ جب کہ حدیث میں ”فَحْوَةُ العِشَاءِ“ بیان کر دیا گیا ہے۔ جناب یوسف بن موسیٰ کے علاوہ دیگر راویوں نے فحمة يا فحوة کے الفاظ روایت کیے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ سفر پر جارہا تھا۔ تو اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے نصحیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور ہر بلند جگہ چڑھتے ہوئے اللہ اکبر پڑھنے کی نصیحت کرتا ہوں۔“ پھر جب وہ شخص چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اُس کے لئے) یہ دعا فرمائی: «اللَّهُمَّ أزْوِلَهُ اْلأرْضَ وَهَوِّنْ عَلَيْهِ السَّفَرَ» ”اے اللہ اس کے سفر کی مسافت کو لپیٹ دے اور اس کے سفر کو آسان بنادے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم (سفر کے دوران) جب کوئی چڑھائی چڑھتے تو تکبیر پڑھتے اور جب نیچے اترتے تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے (سبحان اللہ کہتے)۔“
سیدنا ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے پھر (واپسی پر) جب ہم مدینہ منوّرہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر فرمایا۔ توصحابہ کرام نے با آواز بلند اللہ اکبر پڑھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تمہارا پروردگار بہرہ نہیں ہے اور نہ غائب ہے، وہ تو تمہارے درمیان (اپنی مدد وحمایت اور علم کے ساتھ) موجود ہے۔ اور تمہاری سواریوں کے سروں کے درمیان (اپنے علم و قدرت کے ساتھ) موجود ہے۔ (وہ سب سن اور دیکھ رہا ہے)۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے۔ جن تین قسم کے افراد سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے (جو کسی کے ساتھ ہوتا ہے) وہ قوم ساری رات سفر کرتی رہی حتّیٰ کہ نیند انہیں ہر چیز کے مقابلے میں محبوب ہو جاتی ہے تو وہ سواریوں سے اُترکر سوجاتے ہیں۔ تو یہ شخص کھڑا ہو جاتا ہے (نفل نماز پڑھتا ہے) اللہ تعالیٰ کے سامنے رو رو کر التجائیں کرتا ہے اور قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس بستی میں داخل ہونا چاہتے تو اس بستی کو دیکھ کر یہ دعا پڑھتے: «اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظْلَلْنَ، وَرَبَّ الأَرَضِينِ السَّبْعِ وَمَا أَقْلَلْنَ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضْلَلْت، وَرَبَّ الرِّيَاحِ وَمَا ذَرَيْنَ، فَإِنَّا نَسْأَلُكَ خَيْرَ هَذِهِ الْقَرْيَةِ وَخَيْرَ أَهْلِهَا، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ أَهْلِهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا» ”اے اللہ، ساتوں آسمانوں کے اور ان تمام چیزوں کے پروردگار جن پر یہ آسمان سایہ کیے ہوئے ہیں، تمام زمینوں اور ان تمام چیزوں کے پروردگار جنہیں ان زمینوں نے اُٹھا رکھا ہے۔ ان شیطانوں اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہوا ہے، سب کے رب، ہواوں اور جن چیزوں کو وہ اڑاتی ہیں، ان سب کے پروردگار، بیشک ہم تجھ سے اس بستی اور اس کے رہنے والوں کی خیر و بھلائ مانگتے ہیں۔ ہم تجھ سے اس بستی کے شر، اس کے باشندوں کے شر اور اس بستی میں جو کچھ ہے سب کی برائی اور شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔“
سیدہ خولہ بنت حکیم سلمیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص کسی منزل پر اُترا پھر اس نے یہ دعا پڑھی: «أَعـوذُ بِكَلِـماتِ اللّهِ التّـامّاتِ مِنْ شَـرِّ ما خَلَـق» ”میں اللہ تعالیٰ کے مکمّل وکامل کلمات کے ساتھ اللہ کی پناہ لیتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اللہ نے پیدا کی ہے۔“ تو اسے منزل سے روانہ ہونے تک کوئی چیز نقصان نہیں دیگی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ بھی (دوران سفر) آرام کے لئے قیام کرتے، وہاں سے رخصت ہوتے وقت نفل نماز ادا کرتے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو تنہا سفر کرنے کے ان نقصانات کا علم ہو جائے جو مجھے معلوم ہیں تو کوئی سوار رات کے وقت کبھی اکیلا سفر نہ کرے۔“