امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں اعرابی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے بارے میں سوال کیا تھا، اُس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور رمضان کے روزے فرض ہیں، اُس نے عرض کیا کہ رمضان کے روزوں کے سوا کوئی اور روزے مجھ پر فرض ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں مگر یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔“
بنی عامر بن صعصعہ کے فرس جناب مطرف بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ نے انہیں پلانے کے لئے دودھ منگوایا تو جناب مطرف نے عرض کی کہ میں روزے سے ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ” روزہ جہنّم کی آگ سے بچاؤ کی ایسی ہی ڈھال ہے جیسی تم میں سے کسی شخص کی جنگ میں بچاؤ کی ڈھال ہوتی ہے۔“ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بہترین روزے ہر مہینے کے تین روزے ہیں۔“
1462. ہر مہینے تین دن روزہ رکھنے والے پر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا بیان کہ وہ ایک نیکی کا اجر دس گنا عطا کرکے اسے عمر بھر کے روزوں کا ثواب عطا کرتا ہے۔
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین دن کے روزے عمر بھر کے روزوں کے برابر ہیں۔“ یہ الفاظ جناب شعبہ کی روایت کے ہیں۔ اور جناب حماد بن زید کی روایت میں ہے کہ ”ہر مہینے کے تین روزے اور رمضان المبارک کے روزے اگلے رمضان تک عمر بھر کے روزوں کے برابر ہوجاتے ہیں۔“ امام بوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی اس معنی کی احادیث میں کتاب الکبیر میں بیان کرچکا ہوں۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوسلمہ کی سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”پس ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ہے، پس اس طرح یہ عمر بھر کے روزوں کے برابر ہوںگے۔ اسی طرح جناب ابوعثمان کی سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ اور اس بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں بھی ہے «مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا» [ سورة الأنعام: 160 ]”جو ایک نیکی لائے گا اُسے دس گنا اجر ملے گا“
جناب ابوحوتکیہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، قاحہ والے دن ہمارے ساتھ کون حاضر تھا؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا کہ آپ کے پاس خرگوش کا گوشت لایا گیا۔ اور ایک مرتبہ کہا کہ ایک اعرابی خرگوش کا گوشت لے کر آیا۔ تو جو شخص لے کر آیا تھا اُس نے کہا کہ میں نے اسے دیکھا ہے گو یا کہ اسے حیض کا خون آتا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کھانا شروع کیا اور صحابہ سے فرمایا: ”تم بھی کھالو۔“ ایک شخص نے عرض کیا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”روزہ کیسے رکھتے ہو؟“ تو اُس نے بتایا (کہ فلاں فلاں دن روزہ رکھتا ہوں) آپ نے کہا تم چمکدار خوبصورت دنوں کا روزہ کیوں نہیں رکھتے؟ اُس نے عرض کی کہ وہ کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے کے تین روزے تیرہویں، چودھویں، اور پندرھویں تاریخ کا روزہ رکھنا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے یہ مکمّل باب کتاب الکبیر میں بیان کیا ہے اور میں نے بیان کیا ہے کہ موسی بن طلحہ نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روزوں کا قصّہ سنا ہے اور خرگوش والا قصّہ نہیں سنا۔ جبکہ ابن حوتکیہ نے دونوں قصّے اکھٹے بیان کیے ہیں۔
جناب موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ربذہ مقام پر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مہینے میں تین روزے رکھو تو تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھ لیا کرو۔“
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو داود ، حدثنا شيبان بن عبد الرحمن النحوي ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ،" عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان يصوم ثلاثة ايام من غرة كل شهر، ويكون من صومه يوم الجمعة" . قال ابو بكر: هذا الخبر يحتمل ان يكون خبر ابي عثمان، عن ابي هريرة: اوصاني خليلي بثلاث: صوم ثلاثة ايام من اول الشهر، واوصى بذلك ابا هريرة، وبصوم ايضا ايام البيض، فيجمع صوم ثلاثة ايام من الشهر، مع صوم ايام البيض، ويحتمل ان يكون معنى فعله وما اوصى به ابو هريرة من صوم الثلاثة ايام من اول الشهر مبادرة بهذا الفعل بدل صوم الثلاثة ايام البيض، إما لعلة من مرض، او سفرة، او خوف نزول المنيةحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّحْوِيُّ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ،" عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ غُرَّةِ كُلِّ شَهْرٍ، وَيَكُونُ مِنْ صَوْمِهِ يَوْمُ الْجُمُعَةِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ خَبَرَ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلاثٍ: صَوْمِ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ أَوَّلِ الشَّهْرِ، وَأَوْصَى بِذَلِكَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَبِصَوْمِ أَيْضًا أَيَّامَ الْبِيضِ، فَيُجْمَعُ صَوْمَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ، مَعَ صَوْمِ أَيَّامِ الْبِيضِ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ مَعْنَى فِعْلِهِ وَمَا أَوْصَى بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ مِنْ صَوْمِ الثَّلاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ أَوَّلِ الشَّهْرِ مُبَادَرَةً بِهَذَا الْفِعْلِ بَدَلَ صَوْمِ الثَّلاثَةِ أَيَّامٍ الْبِيضِ، إِمَّا لِعِلَّةٍ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ سَفْرَةٍ، أَوْ خَوْفِ نُزُولِ الْمَنِيَّةِ
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ہر مہینے کے شروع میں تین روزے رکھتے تھے اور آپ کے روزوں میں جمعہ کا دن بھی ہوتا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، ممکن ہے کہ یہ روایت حضرت ابوعثمان کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی طرح ہو۔ مجھے میرے خلیل نے تین باتوں کی وصیت کی ہے۔ مہینے کے شروع میں تین روزے رکھنے کی وصیت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی وصیت فرمائی اور ایام بیض کی وصیت بھی کی۔ لہٰذا ہر مہینے کے تین روزے ایام بیض کے روزوں کے ساتھ جمع کرلیے جائیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فعل اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو آپ کی وصیت کا معنی یہ ہوکہ بیماری کے ڈر، سفر اور موت کے آجانے کے خوف کی وجہ سے ایام بیض کی بجائے مہینے کی ابتداء میں جلد تین روزے رکھ لیے جائیں۔
1465. اس بات کی دلیل کا بیان کہ ہر مہینے کے تین روزے عمر بھر کے روزوں کے قائم مقام ہوں گے، خواہ یہ تین روزے مہینے کے شروع میں، مہینے کے وسط میں یا اس کے آخر میں رکھے جائیں
سیدہ معاذہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے روزے رکھتے تھے۔ یا کیا آپ ہر مہینے میں تین روزے رکھتے تھے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ کون سے دنوں میں رکھتے تھے؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ اس کی پروا نہیں کرتے تھے کہ کن دنوں کا روزہ رکھا ہے۔
1466. اللہ تعالیٰ ایک دن کا روزہ رکھنے والے کے لئے جنّت واجب کردیتے ہیں جبکہ وہ اپنے روزے کے ساتھ ساتھ صدقہ کرے، نماز جنازہ میں شرکت کرے اور مریض کی تیمارداری کرے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کس نے آج صبح روزے کی حالت میں کی ہے“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کس شخص نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کھلایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: ”تم میں سے کس شخص نے آج جنازے میں شرکت کی ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ میں نے شرکت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص میں بھی یہ خوبیاں جمع ہو جائیں وہ جنّت میں داخل ہوگا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اسی قسم سے ہے جسے میں نے کتاب الایمان میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ”جس شخص نے «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» کا اقرار کیا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔“ میں اس بات کی دلیل ہوتی کہ «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» کا اقرار ہی مکمّل ایمان ہے تو پھر اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہوتی کہ مکمّل ایمان ایک روزہ رکھنا، مسکین کو کھانا کھلانا، جنازے میں شریک ہونا اور بیمار کی تیمار داری کرنا ہے۔ لیکن یہ تو ان اعمال کے فضائل ہیں۔ ان سے مقصود وہ نہیں ہے جیسا کہ کم علم ناتجربہ کار لوگوں نے دعویٰ کیا ہے۔
جناب عبداللہ بن شقیق رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز ادا کرتے تھے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں، مگر یہ کہ آپ کسی سفر سے واپس آئیں تو پھر ادا کرتے تھے۔ میں نے اُن سے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے کے مکمّل روزے بھی رکھتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں، اللہ کی قسم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک رمضان المبارک کے سوا کسی مہینے کے مکمّل روزے نہیں رکھے اور آپ ہر مہینے سے کچھ روزے رکھتے تھے اور کچھ دن روزے نہیں رکھتے تھے اور میں نے ان سے دریافت کیا تو کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری تک نماز تہجّد پڑھی ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ نہیں، اور نہ نماز پڑھنے والوں نے (اتنی طویل پڑھی ہے۔) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ے کہ جو رات کو بکثرت نماز پڑھتے ہیں، (اُنہوں نے بھی ساری رات نماز نہیں پڑھی)۔