سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے دس دن اعتکاف کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا عشرہ بھی ایک ترکی قبے میں اعتکاف کیا، جس کے دروازے پر ایک چٹائی لٹکائی گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے وہ چٹائی پکڑی اور اُسے ہٹا کر قبے کے کونے میں رکھ دیا۔ پھر اپنا سر مبارک باہر نکالا اور لوگوں سے بات چیت کی تو وہ آپ کے قریب آگئے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں نے شب قدر کی تلاش میں پہلا عشرہ اعتکاف کیا پھر میں نے درمیانے عشرے میں بھی اعتکاف کیا۔ پھر خواب میں میرے پاس فرشتہ آیا تو مجھے بتایا گیا کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے۔ لہٰذا جو شخص تم میں سے پسند کرے کہ وہ اعتکاف کرے“ چنانچہ لوگوں نے آپ کے ساتھ (آخری عشرے کا) اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مجھے وہ طاق راتوں میں دکھائی گئی ہے اور اس کی صبح کو میں نے کیچڑ میں سجدہ کیا ہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیسویں رات کی صبح کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح تک نفل نماز ادا کی تھی تو بارش ہوگئی جس سے مسجد کی چھت ٹپکنے لگی۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تو میں نے کیچڑ دیکھا۔ پھر جب آپ صبح کی نماز سے فارغ ہوکر نکلے تو آپ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ لگا ہوا تھا اور وہ آخری عشرے میں اکیسویں رات تھی۔ یہ حدیث نہایت بلند مرتبہ ہے۔
حدثنا علي بن المنذر ، حدثنا ابن فضيل ، حدثنا عاصم بن كليب الجرمي ، عن ابيه ، عن ابن عباس ، قال: كان عمر يدعوني مع اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، فيقول لي: لا تكلم حتى يتكلموا. قال: فدعاهم فسالهم عن ليلة القدر، فقال: ارايتم قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: " التمسوها في العشر الاواخر" ، اي ليلة ترونها؟ قال: فقال بعضهم: ليلة إحدى، وقال بعضهم: ليلة ثلاث، وقال آخر: خمس، وانا ساكت. قال: فقال: ما لك لا تتكلم؟ قال: قلت: إن اذنت لي يا امير المؤمنين تكلمت. قال: فقال: ما ارسلت إليك إلا لتتكلم، قال: فقلت: احدثكم برايي؟ قال: عن ذلك نسالك. قال: فقلت: السبع. رايت الله عز وجل ذكر سبع سموات، ومن الارض سبعا، وخلق الإنسان من سبع، ونبت الارض سبع، قال: فقال: هذا اخبرتني ما اعلم، ارايت ما لا اعلم؟ ما هو قولك: نبت الارض سبع؟ قال: فقلت: إن الله يقول: ثم شققنا الارض شقا فانبتنا سورة عبس آية 26 - 27، إلى قوله وفاكهة وابا سورة عبس آية 31، والاب نبت الارض مما ياكله الدواب، ولا ياكله الناس. قال: فقال عمر: اعجزتم ان تقولوا كما قال هذا الغلام الذي لم تجتمع شئون راسه بعد؟ إني والله ما ارى القول إلا كما قلت. وقال: قد كنت امرتك ان لا تكلم حتى يتكلموا، وإني آمرك ان تتكلم معهمحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ يَدْعُونِي مَعَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ لِي: لا تَكَلَّمْ حَتَّى يَتَكَلَّمُوا. قَالَ: فَدَعَاهُمْ فَسَأَلَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتُمْ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ" ، أَيُّ لَيْلَةٍ تَرَوْنَهَا؟ قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْلَةُ إِحْدَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْلَةُ ثَلاثٍ، وَقَالَ آخَرُ: خَمْسٍ، وَأَنَا سَاكِتٌ. قَالَ: فَقَالَ: مَا لَكَ لا تَتَكَلَّمُ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنْ أَذِنَتْ لِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ تَكَلَّمْتُ. قَالَ: فَقَالَ: مَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكَ إِلا لِتَتَكَلَّمَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُحَدِّثَكُمْ بِرَأْيِي؟ قَالَ: عَنْ ذَلِكَ نَسْأَلُكَ. قَالَ: فَقُلْتُ: السَّبْعُ. رَأَيْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ذَكَرَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ، وَمِنَ الأَرْضِ سَبْعًا، وَخَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ سَبْعٍ، وَنَبْتُ الأَرْضِ سَبْعٌ، قَالَ: فَقَالَ: هَذَا أَخْبَرْتَنِي مَا أَعْلَمُ، أَرَأَيْتَ مَا لا أَعْلَمُ؟ مَا هُوَ قَوْلُكَ: نَبْتُ الأَرْضِ سَبْعٌ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: ثُمَّ شَقَقْنَا الأَرْضَ شَقًّا فَأَنْبَتْنَا سورة عبس آية 26 - 27، إِلَى قَوْلِهِ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا سورة عبس آية 31، وَالأَبُّ نَبْتُ الأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُهُ الدَّوَابُّ، وَلا يَأْكُلُهُ النَّاسُ. قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: أَعَجَزْتُمْ أَنْ تَقُولُوا كَمَا قَالَ هَذَا الْغُلامُ الَّذِي لَمْ تَجْتَمِعْ شُئُونُ رَأْسِهِ بَعْدُ؟ إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَرَى الْقَوْلَ إِلا كَمَا قُلْتَ. وَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَمَرْتُكَ أَنْ لا تَكَلَّمَ حَتَّى يَتَكَلَّمُوا، وَإِنِّي آمُرُكَ أَنْ تَتَكَلَّمَ مَعَهُمْ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے ساتھ بلاتے تھے اور مجھے حُکم دیا کہ اُس وقت تک بات نہ کرنا جب تک صحابہ کرام بات چیت نہ کرلیں۔ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے صحابہ کرام کو بلایا اور اُن سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ شب قدر کو آخری عشرے میں تلاش کرو۔ مجھے بتاؤ کہ تمہارے خیال میں یہ کون سی رات ہے۔ تو بعض نے کہا کہ یہ اکیسویں رات ہے۔ کچھ نے کہا کہ تیسویں رات ہے اور بعض نے پچیسویں رات قرار دی۔ اس دوران میں خاموش رہا۔ پھر اُنہوں نے مجھے کہا کہ تم کیوں نہیں بتاتے؟ میں نے عرض کی کہ اے امیر المؤمنین، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں بتاتا ہوں تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے تمہیں گفتگو کرنے کے لئے ہی بلایا ہے۔ تو میں نے کہا تو کیا میں تمہیں اپنی رائے سے بیان کروں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے تمہاری رائے ہی پوچھی ہے۔ تو میں نے عرض کی کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان، اور سات زمینیں ذکر کی ہیں۔ انسان کو سات سے پیدا کیا گیا ہے اور زمینی نباتات بھی سات قسم کی ہیں۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے مجھے وہ چیزیں بتائی ہیں جو میں جانتا ہوں۔ مجھے وہ چیز بتاؤ جو میں نہیں جانتا۔ زمینی نباتات سات قسم کی ہیں، اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا۔۔۔ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا» [ سورة عبس: 31۔ 26 ]”پھرہم نے زمین کو اچھی طرح پھاڑا۔ پھر ہم نے اس میں اناج اگایا اور انگور اور سبزیاں اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے باغات اور میوے اور چارا۔“ اور ”أَبًّ“ سے مراد وہ چارا ہے جو جانور کھاتے ہیں اور انسان نہیں کھاتے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا توکیا تم اس بچّے کی طرح بتانے سے بھی عاجز رہے، جس کی ابھی تک عقل بھی پوری نہیں ہوئی۔ اللہ کی قسم، میری رائے بھی تمہاری رائے کے موافق ہے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حُکم دیا تھا کہ ان صحابہ کرام کے گفتگو کر لینے تک تم بات نہ کرنا اور میں اب تمہیں حُکم دیتا ہوں کہ تم ان کے ساتھ ہی گفتگو کیا کرو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مجھ سے مشورہ لیا کرتے تھے اور مجھ سے فرماتے تھے کہ جب تک بزرگ صحابہ کرام بات چیت نہ کرلیں تم گفتگونہ کرنا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سے شب قدر کے بارے میں پوچھا تو کہا، یقیناً تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ پھر اُنہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قصّہ بیان کیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مذکورہ بالا کی مثل مروی ہے مگر اس میں یہ الفاظ ہیں ”الأب“ اس گھاس اور چارے کو کہتے ہیں جو چوپائے کھاتے ہیں اور انسان نہیں کھاتے۔
حضرت عبدالرحمان بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے پاس شب قدر کا تذکرہ کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سننے کے بعد میں تو اسے صرف آخری عشرے میں تلاش کروں گا۔ میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: ”شبِ قدر کو آخری عشرے میں تلاش کرو جب نو راتیں رہ جائیں یا جب سات باقی رہ جائیں یا پانچ رہ جائیں یا تین باقی رہ جائیں یا آخری رات میں تلاش کرو“ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ پہلی بیس راتوں میں اپنے سارے سال کے معمول کے مطابق نماز پڑھتے تھے، پھر جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو خوب محنت و ریاضت شروع کر دیتے۔
1497. اس دلیل کی تفسیر کرنے والی روایت کا بیان جو میں نے بیان کی ہے کہ شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا جائے گا نہ پہلے (دو عشروں کی) طاق راتوں میں
حدثنا إسحاق بن شاهين ابو بشر الواسطي ، حدثنا خالد ، عن الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم في العشر الاوسط من رمضان وهو يلتمس ليلة القدر قبل ان يتبين له، ثم امر بالبناء، فنقض، فابينت له في العشر الاواخر، فامر به فاعيد، فخرج إلينا، فقال:" إنها ابينت لي ليلة القدر، وإني خرجت لابينها لكم، فتلاحى رجلان، فنسيتها، فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة" . قال: قلت: يا ابا سعيد، إنكم اعلم بالعدد منا، فاي ليلة التاسعة والسابعة والخامسة؟ قال: اجل، ونحن احق بذاك. إذا كانت ليلة إحدى وعشرين، فالتي تليها هي التاسعة، ثم دع ليلة، ثم التي تليها السابعة، ثم دع ليلة، ثم التي تليها الخامسة، ابا سعيد، التي تسمونها اربعا وعشرين، وستا وعشرين، واثنتين وعشرينحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ شَاهِينَ أَبُو بِشْرٍ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَشْرِ الأَوْسَطِ مِنْ رَمَضَانَ وَهُوَ يَلْتَمِسُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ قَبْلَ أَنْ يَتَبَيَّنَ لَهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِالْبِنَاءِ، فَنُقِضَ، فَأُبِينَتْ لَهُ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ، فَأَمَرَ بِهِ فَأُعِيدَ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ:" إِنَّهَا أُبِينَتْ لِي لَيْلَةُ الْقَدْرِ، وَإِنِّي خَرَجْتُ لأُبَيِّنَهَا لَكُمْ، فَتَلاحَى رَجُلانِ، فَنَسِيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ" . قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، إِنَّكُمْ أَعْلَمُ بِالْعَدَدِ مِنَّا، فَأَيُّ لَيْلَةٍ التَّاسِعَةُ وَالسَّابِعَةُ وَالْخَامِسَةُ؟ قَالَ: أَجَلْ، وَنَحْنُ أَحَقُّ بِذَاكَ. إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، فَالَّتِي تَلِيهَا هِيَ التَّاسِعَةُ، ثُمَّ دَعْ لَيْلَةً، ثُمَّ الَّتِي تَلِيهَا السَّابِعَةُ، ثُمَّ دَعْ لَيْلَةً، ثُمَّ الَّتِي تَلِيهَا الْخَامِسَةُ، أَبَا سَعِيدٍ، الَّتِي تُسَمُّونَهَا أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ، وَسِتًّا وَعِشْرِينَ، وَاثْنَتَيْنِ وَعِشْرِينَ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا اور آپ شب قدر کو تلاش کر رہے تھے جبکہ ابھی آپ کے لئے معاملے کی وضاحت نہیں ہوئی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمیے اُکھاڑنے کا حُکم دیا تو وہ اُکھاڑ دیئے گئے۔ پھر آپ کے لئے آخری عشرے میں اس کی نشاندہی کی گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا اور خیمے دوبارہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ”صورت حال یہ ہے کہ مجھے شب قدر کی نشاندہی کی گئی اور میں تمہیں بتانے کے لئے نکلا تو دو آدمی جھگڑ رہے تھے تو مجھے شب قدر بھلادی گئی۔ لہٰذا تم اسے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔“ جناب ابونضرہ کہتے ہیں، میں نے کہا کہ اے ابوسعید رضی اللہ عنہ بیشک آپ ہم سے زیادہ بہتر طور پر گنتی جانتے ہیں، تو نویں، ساتویں اور پانچویں رات کون سی بنتی ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں، اور ہم ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ جب اکیسویں رات ہو تو اس کے ساتھ والی رات نویں ہے۔ پھر ایک رات چھوڑ دو، پھر اس کے ساتھ والی ساتویں ہے۔ پھر ایک رات چھوڑ دو، تو اس کے بعد والی پانچویں ہے۔ جنہیں تم چوبیس چھبیس اور بائیس کا نام دیتے ہو۔ (انہیں چھوڑ دو)۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے (ایک مہینہ کی) علیحدگی اختیار کی۔ تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، آپ بالاخانے میں اُنتیس دن رہے ہیں۔ (ابھی مہینہ مکمّل نہیں ہوا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مہینہ اُنتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“
1499. جو دلیل میں ذکر کی ہے اس کی تفسیر کرنے والی روایت کا بیان کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کو مہینے کے گزر جانے والے دنوں کے حساب سے تئیسویں رات کو تلاش کرنے کا حُکم دیا تھ جبکہ باقی ماندہ دنوں کے اعتبار سے وہ ساتویں رات تھی
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شب قدر کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینے کے کتنے دن گزر گئے ہیں؟“ ہم نے عرض کی کہ بائیس دن گزرگئے ہیں اور آٹھ دن باقی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ سات دن باقی ہیں۔“ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں، بلکہ آٹھ دن باقی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ سات دن باقی ہیں، مہینہ اُنتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے۔ پھرآپ نے اپنے دست مبارک سے اُنتیس دن شمار کیے پھر فرمایا: ”شب قدر کو آج رات تلاش کرو۔“