صحيح ابن خزيمه
نفلی روزوں کے ابواب کا مجموعہ
1494.
شب قدر کو تلاش کرنے اور اسے رمضان کے آخری عشرے میں طلب کرنے کے حُکم کا بیان مجمل غیر مفسر الفاظ کے ساتھ
حدیث نمبر: 2172
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ يَدْعُونِي مَعَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ لِي: لا تَكَلَّمْ حَتَّى يَتَكَلَّمُوا. قَالَ: فَدَعَاهُمْ فَسَأَلَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتُمْ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ" ، أَيُّ لَيْلَةٍ تَرَوْنَهَا؟ قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْلَةُ إِحْدَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْلَةُ ثَلاثٍ، وَقَالَ آخَرُ: خَمْسٍ، وَأَنَا سَاكِتٌ. قَالَ: فَقَالَ: مَا لَكَ لا تَتَكَلَّمُ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنْ أَذِنَتْ لِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ تَكَلَّمْتُ. قَالَ: فَقَالَ: مَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكَ إِلا لِتَتَكَلَّمَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُحَدِّثَكُمْ بِرَأْيِي؟ قَالَ: عَنْ ذَلِكَ نَسْأَلُكَ. قَالَ: فَقُلْتُ: السَّبْعُ. رَأَيْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ذَكَرَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ، وَمِنَ الأَرْضِ سَبْعًا، وَخَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ سَبْعٍ، وَنَبْتُ الأَرْضِ سَبْعٌ، قَالَ: فَقَالَ: هَذَا أَخْبَرْتَنِي مَا أَعْلَمُ، أَرَأَيْتَ مَا لا أَعْلَمُ؟ مَا هُوَ قَوْلُكَ: نَبْتُ الأَرْضِ سَبْعٌ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: ثُمَّ شَقَقْنَا الأَرْضَ شَقًّا فَأَنْبَتْنَا سورة عبس آية 26 - 27، إِلَى قَوْلِهِ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا سورة عبس آية 31، وَالأَبُّ نَبْتُ الأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُهُ الدَّوَابُّ، وَلا يَأْكُلُهُ النَّاسُ. قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: أَعَجَزْتُمْ أَنْ تَقُولُوا كَمَا قَالَ هَذَا الْغُلامُ الَّذِي لَمْ تَجْتَمِعْ شُئُونُ رَأْسِهِ بَعْدُ؟ إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَرَى الْقَوْلَ إِلا كَمَا قُلْتَ. وَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَمَرْتُكَ أَنْ لا تَكَلَّمَ حَتَّى يَتَكَلَّمُوا، وَإِنِّي آمُرُكَ أَنْ تَتَكَلَّمَ مَعَهُمْ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے ساتھ بلاتے تھے اور مجھے حُکم دیا کہ اُس وقت تک بات نہ کرنا جب تک صحابہ کرام بات چیت نہ کرلیں۔ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے صحابہ کرام کو بلایا اور اُن سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ شب قدر کو آخری عشرے میں تلاش کرو۔ مجھے بتاؤ کہ تمہارے خیال میں یہ کون سی رات ہے۔ تو بعض نے کہا کہ یہ اکیسویں رات ہے۔ کچھ نے کہا کہ تیسویں رات ہے اور بعض نے پچیسویں رات قرار دی۔ اس دوران میں خاموش رہا۔ پھر اُنہوں نے مجھے کہا کہ تم کیوں نہیں بتاتے؟ میں نے عرض کی کہ اے امیر المؤمنین، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں بتاتا ہوں تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے تمہیں گفتگو کرنے کے لئے ہی بلایا ہے۔ تو میں نے کہا تو کیا میں تمہیں اپنی رائے سے بیان کروں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے تمہاری رائے ہی پوچھی ہے۔ تو میں نے عرض کی کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان، اور سات زمینیں ذکر کی ہیں۔ انسان کو سات سے پیدا کیا گیا ہے اور زمینی نباتات بھی سات قسم کی ہیں۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے مجھے وہ چیزیں بتائی ہیں جو میں جانتا ہوں۔ مجھے وہ چیز بتاؤ جو میں نہیں جانتا۔ زمینی نباتات سات قسم کی ہیں، اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا۔۔۔ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا» [ سورة عبس: 31۔ 26 ] ”پھرہم نے زمین کو اچھی طرح پھاڑا۔ پھر ہم نے اس میں اناج اگایا اور انگور اور سبزیاں اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے باغات اور میوے اور چارا۔“ اور ”أَبًّ“ سے مراد وہ چارا ہے جو جانور کھاتے ہیں اور انسان نہیں کھاتے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا توکیا تم اس بچّے کی طرح بتانے سے بھی عاجز رہے، جس کی ابھی تک عقل بھی پوری نہیں ہوئی۔ اللہ کی قسم، میری رائے بھی تمہاری رائے کے موافق ہے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حُکم دیا تھا کہ ان صحابہ کرام کے گفتگو کر لینے تک تم بات نہ کرنا اور میں اب تمہیں حُکم دیتا ہوں کہ تم ان کے ساتھ ہی گفتگو کیا کرو۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح