ماہ رمضان اور اس کے روزوں کے فضائل کے ابواب کا مجموعہ
1300.
1300. اللہ تعالی کا روزے دار کو بغیر حساب کے اجر و ثواب دینے کا بیان کیونکہ روزہ صبر سے ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ”بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر پورا پورا بغیر حساب کے دیا جائے گا“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے۔ ایک نیکی کا ثواب دس گناہ سے لیکر سات سو گناہ تک دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سوائے روزے کے، وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ روزے دارمیرے لئے کھانا چھوڑتا ہے۔ وہ میری خاطر مشروبات چھوڑتا ہے اور میری وجہ سے اپنی لذّت کو چھوڑتا ہے اور میری وجہ سے اپنی بیوی سے فائدہ اُٹھانا چھوڑتا ہے اور روزہ دار کے مُنہ کی خوشبُو اللہ کے نزدیک مُشک کی خوشبُو سے عمدہ ہے۔ اور روزے دار کے لئے خوشی کے دو مواقع ہیں، ایک خوشی وہ ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اُسے اپنے رب کے ساتھ ملاقات کے وقت نصیب ہوگی ـ“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھانا کھا کر شکر ادا کرنے والا، روزے دار صبر کرنے والے کی طرح ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اُس کے لئے ہے سوائے روزے کے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا وہ میرے لئے کھانا، پینا اور اپنی شہوت کو چھوڑ دیتا ہے۔“
ناه إسماعيل بن بشر بن منصور السلمي ، حدثنا عمر بن علي ، عن معن بن محمد ، قال: سمعت حنظلة بن علي، قال: سمعت ابا هريرة بهذا البقيع، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثله. قال ابو بكر: الإسنادان صحيحان عن سعيد المقبري، وعن حنظلة بن علي جميعا، عن ابي هريرة، الا تسمع المقبري يقول: كنت انا وحنظلة بن علي بالبقيع مع ابي هريرةناه إِسْمَاعِيلُ بْنُ بِشْرِ بْنِ مَنْصُورٍ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ مَعْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ بِهَذَا الْبَقِيعِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الإِسْنَادَانِ صَحِيحَانِ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَعَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ عَلِيٍّ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَلا تَسْمَعُ الْمَقْبُرِيَّ يَقُولُ: كُنْتُ أَنَا وَحَنْظَلَةُ بْنُ عَلِيٍّ بِالْبَقِيعِ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ
جناب حنظہ بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس بقیع میں بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور مذکورہ بالا کی مثل روایت بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سعید المقبری اور حنظلہ بن علی دونوں کی سندیں صحیح ہیں۔ کیا آپ نے جناب مقبری کا یہ قول نہیں سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اور حنظلہ بن علی، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بقیع میں موجود تھے۔
1302. روزے دار کی خوشی کا بیان کہ جب اللہ تعالی قیامت کے دن اسے اس کے روزے کا ثواب بغیر حساب کے دے گا۔ اللہ تعالی ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے
سیدنا ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوںگا۔ روزے دار کے لئے دو خوشی کے مواقع ہیں، ① جب افطاری کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ ② جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا اور وہ اسے اجر وثواب دے گا تو خوش ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، روزے دار کے مُنہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے زیادہ بہتر اور اچھی ہے۔ جناب دورقی کی روایت میں ”اس کو اجر و ثواب دے گا ـ“ کے الفاظ نہیں ہیں ـ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین افراد کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ روزے دار کی دعا حتّیٰ کہ وہ روزہ افطار کرلے اور عدل وانصاف کرنے والے امام و بادشاہ کی دعا اور مظلوم شخص کی دعا ـ اللہ تعالیٰ اُس کی دعا کو بادلوں کے اوپر اُٹھا لیتا ہے اور اُس کے لئے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ـ پھر رب عزوجل فرماتا ہے کہ ”مجھے میری عزت کی قسم، میں تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ مدت کے بعد ہی کروں۔“ ابومجاہد کا نام سعد طائی ہے اور ابومدلہ سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ اور عمرو بن قیس دنیا کے عبادت گزاروں میں سے ایک ہیں۔
1304. جنّت کے اس دروازے کا بیان جو صرف روزے داروں کے داخلے کے لئے خاص ہے اور جو شخص جنّت داخل ہوگیا اور اُس نے جنّتی مشروب پی لیا تو اُسے پیاس نہیں لگے گی۔ اللہ تعالی ہمیں بھی ان لوگوں میں سے کردے
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنّت میں روزہ داروں کے لئے ایک خاص دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ اس میں سے روزہ داروں کے سوا کوئی شخص داخل نہیں ہوگا۔ پھر جب آخری روزے دار داخل ہو جائے گا تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ جو شخص جنّت میں داخل ہو گیا وہ جنّتی مشروب پیئے گا اور جس نے جتنی مشروب پی لیا وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا۔“ جناب ابوحازم سلمہ بن دینار ثقہ راوی ہیں ان کے زمانے میں ان جیسا کوئی عالم نہ تھا۔
1305. ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو اختیار دیا تھا کہ وہ روزہ رکھ لیں یا کسی کو روزہ رکھوا دیں (اسے کھانا دے دیں) پھر یہ اختیار منسوخ ہوگیا اور روزہ مؤمنوں پر فرض ہو گیا
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں رمضان المبارک میں جو چاہتا روزہ رکھتا اور جو چاہتا وہ روزہ چھوڑ دیتا، اور ایک مسکین کو بطور فدیہ کھانا کھلا دیتا۔ حتّیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی «فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ» [ سورة البقرة: 185 ]”پس تم میں سے جو شخص اسے مہینے میں (گھر میں) موجود ہو تو اُسے روزہ رکھنا چاہیے۔“
1306. روزے کی فرضیت کی ابتداء میں روزے دار کے رات کو سو جانے کے بعد کھانا پینا اور جماع کرنا ممنوع تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کرکے انپے مؤمن بندوں پر فضل و کرم، ان سے درگزر اور تخفیف و آسانی کرتے ہوئے یہ تمام کام طلوع فجر تک جائز قرار دے دیئے
سیدنا براء رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام میں کوئی شخص جب روزے دار ہوتا پھر افطاری کا وقت آجاتا اور وہ افطاری سے پہلے سو جاتا تو وہ اس رات اور اگلے دن شام تک کچھ نہ کھاتا اور سیدنا قیس بن صرمہ رضی اللہ عنہ روزے دار تھے پھر جب افطاری کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور پو چھا کہ کیا تمہارے پاس کھانا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ نہیں، لیکن میں تلاش کرکے لاتی ہوں تو وہ اُن کے لئے کھانا لینے چلی گئیں اور سیدنا قیس رضی اللہ عنہ سارا دن کام کرتے رہے تھے، لہٰذا اُنہیں نیند آگئی۔ اُن کی زوجہ محترمہ (کھانا لیکر) آئی۔ (اُنہیں سو یا ہوا دیکھ کر) کہنے لگیں کہ افسوس تم محروم ہوگئے۔ پھر اسی حالت میں اُنہوں نے صبح کی۔ پھر جب دوپہر کا وقت ہوا تو وہ بیہوش ہوگئے۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو یہ آیت نازل ہوئی «أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ» [ سورة البقرة: 187 ]”تمہارے لئے روزوں کی رات میں بیویوں سے ہمبستری کرنا حلال کردیا گیا ہے۔“ اس سے صحابہ کو بہت زیادہ خوش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مزید قرآن نازل فرمایا «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» [ سورة البقرة: 187 ]”کھاؤ اور پیو حتّیٰ کہ تمہارے لئے صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے واضح ہو جائے ـ“